آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات میں کوئی بڑی گڑبڑ ہے۔ جس طرح معاملات چل رہے ہیں نجانے اُن کا نتیجہ کیا نکلے۔ حکومت میں شامل اور آئی ایم ایف کا بیل آوٹ پیکیج لینے کے لیے بات چیت میں شامل کچھ حکومتی ذرائع سے میری بات ہوئی تو میں نے اُن کو بہت پریشان پایا۔ مجھے بتایا گیا کہ آئی ایم ایف جس سے بہت حد تک سابق وزیر خزانہ اسد عمر کے وقت بیل آوٹ پیکیج پر معاملات طے ہو چکے تھے، نے اب بہت سخت پوزیشن لے لی ہے اور پاکستان کو ایک ایسا پیکیج دینے سے پیچھے نہیں ہٹ رہا جو کسی بھی سیاسی حکومت کے لیے برداشت کرنا مشکل ہوگا۔ عمران خان کی حکومت کو اس حوالے سے ایک مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ یہ صورتحال کیوں اور کیسے پیدا ہوئی اور کہیں اس کا مقصد عمران خان کی حکومت کو کمزور کرنا تو نہیں؟ ان سوالوں کے جواب کے لیے خان صاحب کو خود کھوج لگانا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ اُنہیں کس نے اس صوتحال میں دھکا دیا۔
جب آئی ایم ایف سے پاکستان کے مذاکرات ہو رہے تھے اور بجٹ بنانے کا کام جاری تھا تو اس وقت پہلے اسد عمر کو وزارتِ خزانہ سے اچانک فارغ کر دیا گیا اور بعد میں گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ سے بھی استعفیٰ طلب کرکے اُن کو بھی ہٹا دیا گیا۔ یہ دونوں حضرات حکومتِ پاکستان کی اُس معاشی ٹیم کو لیڈ (Lead) کر رہے تھے جو گزشتہ کئی ماہ سے آئی ایم سے مذاکرات کر رہی تھی۔ اسد عمر کو ہٹائے جانے سے چند روز قبل ہی یہ ٹیم واشنگٹن میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد کافی مطمئن وطن واپس لوٹی اور یہ اعلان بھی کیا کہ بیل آوٹ پیکیج کے لیے تقریباً تمام معاملات طے پا چکے ہیں۔ لیکن چند ہی دن کے بعد اسد عمر کو نکال کر حفیظ شیخ کو بیرونِ ملک سے بلا کر مشیرِ خزانہ تعینات کر دیا گیا۔ بعد میں اچانک ہی گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ جو بہت اچھی شہرت کے مالک ہیں، سے بھی استعفیٰ مانگ کر ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور ڈاکٹر رضا باقر جو بیرونِ ملک مقیم تھے اور آئی ایم ایف کی ملازمت کر رہے تھے، کو نیا گورنر اسٹیٹ بینک بنا دیا گیا۔
طارق باجوہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات میں وہ پاکستان کے لیے نرم شرائط پر کافی زور دیتے رہے جس پر اسد عمر کے جانے کے بعد اُنہیں سمجھایا گیا کہ آئی ایم ایف والوں سے سختی سے بات نہ کریں۔ ذرائع کے مطابق یہی بات وزارتِ خزانہ کے ایک اعلیٰ افسر کو بھی کہی گئی جس پر وہ گزشتہ تین دن آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے والی ٹیم میں شامل نہ تھے، جو بہت ہی تشویشناک بات ہے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے والی موجودہ ٹیم میں شامل ایک رکن جو ایک اہم حکومتی عہدہ پر براجمان ہیں، سے جب میری بات ہوئی تو اُنہیں بہت فکرمند اور پریشان پایا۔ اُس ذرائع کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا یہ پیکیج بیل آوٹ نہیں بلکہ "Sell Out" پیکیج ہے جو پاکستان کی معیشت، عوام اور عمران خان کی اپنی حکومت کے لیے بہت مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ متعلقہ افراد سے جو میری بات چیت ہوئی اُس کے مطابق کسی بھی دوسرے سیاستدان کی طرح عمران خان بھی کوئی معاشی ماہر نہیں لیکن اُن کے اردگرد کوئی ایسا فرد یا افراد ہیں جو اُنہیں ایسے مشورے دے رہے ہیں جو معاشی مشکلات کو حل کرنے کے بجائے اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ ایک صاحب جو آئی ایم مذاکرات کا حصہ رہے، سے جب میری بات ہوئی تو اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایسی صوتحال میں اصل اہمیت مذاکرات کی ہوتی ہے یعنی اگر پاکستان اچھے مذاکرات کرتا ہے تو قرضے کی شرائط نرم ہو سکتی ہیں لیکن اسد عمر کے جانے کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں شامل چند اعلیٰ افسران کو منع کیا گیا کہ وہ آئی ایم ایف سے زیادہ بحث اور سختی سے بات نہ کریں۔ ذرائع کے مطابق اب صورتحال یہ ہے کہ آئی ایم ایف نہ صرف اپنی سخت شرائط سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں بلکہ وہ اپنی اُس پوزیشن کو بھی بدل چکا ہے جس پر وہ اسد عمر اور اُن کے ٹیم کے ساتھ متفق ہو چکا تھا۔
خبروں کے مطابق وزیراعظم عمران خان خود بھی سخت شرائط کو ماننے کے حق میں نہیں اور اسی لیے اُنہوں نے اپنی ٹیم پر آئی ایم ایف سے بات چیت کو مزید آگے بڑھانے پر زور دیا ہے۔ وزیراعظم کی فکر بجا کیونکہ اگر آئی ایم ایف کی شرائط میں نرمی نہ ہوئی تو پاکستان کے عوام کے لیے مشکلات کا ایک ایسا پہاڑ ٹوٹنے کا خطرہ ہے جسے کوئی بھی حکومت برداشت نہیں کر سکتی۔ مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے خان صاحب کو کسی سازش کا شکار کیا جا رہا ہے۔