یہ کیسی سادگی اور کفایت شعاری اور کون سی بچت ہے کہ صدر، وزیر اعظم، گورنر اور وزیراعلیٰ پنجاب سب کے اخراجات میں نہ صرف موجودہ سال کے مختص بجٹ سے اضافہ ہوا بلکہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں مزید اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے پر عمران خان نے کہا تھا کہ نواز شریف اور ماضی کے دوسرے حکمرانوں نے بادشاہوں کی طرح اپنی عیاشیوں پر عوام کا پیسہ خرچ کیا۔ خان صاحب نے اعلان کیا تھا کہ کفایت شعاری اور بچت مہم کا آغاز وہ اپنی ذات سے کریں گے، وزیراعظم ہائوس میں نہیں رہیں گے اور پانچ سو ملازمین کی جگہ صرف دو ملازم رکھیں گے۔ اُنہوں نے وزیراعظم ہائوس کی بھینسوں کو بھی بیچ دیا اور گاڑیوں کو بھی نیلامی پر لگا دیا لیکن تحریک انصاف حکومت نے گزشتہ ہفتے جو بجٹ پیش کیا اُس کے مطابق موجودہ مالی سال میں وزیراعظم آفس نے مختص کردہ 98 کروڑ 60 لاکھ روپے کے بجٹ سے زیادہ یعنی 1.09 ارب روپے خرچ کیے جبکہ آئندہ مالی سال 2019-20 کے لیے اور زیادہ پیسے یعنی 1.17 ارب روپے مانگ لیے ہیں۔ وزیراعظم صاحب نے اگر واقعی ہائوس ہولڈ ملازمین دو ہی رکھے ہیں اور سینکڑوں ملازمین جو ماضی کے حکمرانوں کے خدمت کے لیے رکھے گئے تھے، فارغ ہو چکے ہیں تو پھر بجٹ دستاویزات میں آئندہ سال کے لیے وزیراعظم کے ہائوس ہولڈ ملازمین کے لیے 7 کروڑ 95 لاکھ روپے کیوں رکھے گئے ہیں؟ کفایت شعاری مہم سے بجٹ میں کمی ہونی چاہئے ناکہ اضافہ؟؟
صدرِ پاکستان کے سالانہ بجٹ میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ صدر عارف علوی تو کہتے تھے کہ وہ تو ایوانِ صدر کے بجائے پارلیمنٹ لاجز میں رہیں گے لیکن وہ بھی اپنا وعدہ وفا نہ کرسکے۔ اُن کے ہائوس ہولڈ ملازمین کا خرچہ تو وزیراعظم ہائوس سے بھی زیادہ ہے۔ بجٹ میںہائوس ہولڈ ملازمین کے لیے صدرِ مملکت نے 11 کروڑ 50 لاکھ روپے مانگ لیے ہیں۔ ایوانِ صدر کے لیے تو سی ڈی اے نے تقریباً 20 لاکھ روپے کا طوطوں کے لیے پنجرہ بنانے کا ٹینڈر بھی جاری کر دیا تھا لیکن شکر ہے کہ سوشل میڈیا نے شور مچایا جس کے نتیجہ میں اس ٹینڈر کو منسوخ کر دیا گیا۔ ایوانِ صدر تو پہلے بھی ایک مشاعرہ پر لاکھوں روپے خرچ کرکے تنازعہ کا باعث بن چکا ہے۔
ایک خبر کے مطابق گورنر اور وزیراعلیٰ پنجاب کے اخراجات میں بھی نہ صرف موجودہ سال کے مختص بجٹ سے اضافہ ہوا بلکہ آئندہ سال کے لیے اخراجات میں مزید اضافہ مانگ لیا گیا ہے۔ خبر کے مطابق وزیراعلیٰ کے گھر اور دفتر پر 61 کے بجائے 78 کروڑ 80 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ گورنر ہائوس نے مختص بجٹ سے پونے 10 کروڑ روپے اضافی خرچ کر ڈالے۔ آئندہ مالی سال کے لیے گورنر ہائوس کا بجٹ 40 کروڑ سے بڑھا کر 49 کروڑ روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ عمران خان کے وسیم اکرم پلس وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے آفس، گھر اور پروٹوکول پر تقریباً 18 کروڑ روپے اضافی خرچ ہوئے۔ وزیر اعلیٰ کے ہیلی کاپٹر پر 14 کروڑ 90 لاکھ روپے اضافی خرچ کیے گئے۔
خرچوں میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے لیکن آمدن میں اس سال ریکارڈ کمی ہوئی۔ وہ وعدہ بھی وفا نہ ہواکہ جب ایماندار حکمران آئیں گے تو لوگ ٹیکس زیادہ دیں گے۔ ٹیکس میں ریکارڈ کمی کے علاوہ فارن انویسٹمنٹ بھی گزشتہ سال سے آدھی ہو چکی ہے۔ معاشی ترقی پہلے سے نصف سے بھی کم ہو گئی، بیروزگاری میں اضافہ ہوا، مہنگائی بھی گزشتہ حکومت کے آخری سال سے دوگنا ہو چکی۔ 30 ہزار ارب روپے کے قرضے بڑھ کر 35 ہزار ارب روپے تک پہنچ چکے اور ڈالر کے مقابلہ میں روپیہ 157 روپے تک گر چکا۔ معاشی اشاریے بہت مایوس کن ہیں اور ایسے میں ملک کے مشیرِ خزانہ کا پاکستان کے ڈیفالٹ کرنے کی بات کرنا اور جب ڈالر 157 روپے تک پہنچ جائے تو اُن کا یہ کہنا کہ موجودہ صورتحال میں روپے کی قدر کو نہیں سنبھالا جا سکتا، پاکستان کی معیشت کے لیے بہت بُری خبر ہے۔ نجانے خان صاحب جو ماضی میں ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی ذرا سی بھی کمی پر بہت ناراضی کا اظہار کرتے تھے، پاکستانی کرنسی کی اس گراوٹ پر کیوں خاموش ہیں۔ مشیرِ خزانہ جو بات کر رہے ہیں، معاشی اشاریے جو بتا رہے ہیں، اُس کے برعکس وزیر اعظم خان کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا، معیشت مستحکم ہو چکی، کٹھن رستہ طے کر لیا۔ اللہ کرے ملک کسی بھی حالت میں دیوالیہ نہ ہو لیکن خان صاحب کی یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ معیشت مستحکم ہو چکی۔ اس کے باوجود دعا ہے کہ جو خان صاحب کہہ رہے ہیں وہ سچ ثابت ہو۔ ابھی تک جو کہا گیا سب اُس کے الٹ ہو رہا ہے۔ معاشی بحران جس کا ملک کو سامنا ہے، مزید وعدوں اوربہانوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس سے سنبھلنے کے لیے واضح معاشی اشاریوں کی ضرورت ہے جو ابھی تو گراوٹ کا ہی شکار ہیں۔ پاکستان کی معاشی حالت اتنی بُری ہو چکی ہے کہ اگر یہ آئندہ چند ماہ میں سنبھلتی نظر نہ آئی تو خان صاحب کی حکومت کے لیے اپوزیشن نہیں بلکہ معیشت سب سے بڑا خطرہ ہو گی۔