نئے پاکستان کے دور میں وزیراعظم عمران خان کے چہیتے وسیم اکرم پلس یعنی وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ناک تلے چوری کے ملزم صلاح الدین کو پولیس نے بڑی کامیابی سے پکڑا اور مبینہ طور پر تشدد کرکے دو ہی دنوں میں مار بھی دیا۔ مرنے والے ملزم کے بارے میں یہ اطلاعات ہیں کہ وہ دماغی طور پر نارمل نہ تھا اور اس بات کا ثبوت وہ وڈیو تھی جو کچھ ٹی وی چینلز نے چلائی بھی، جس میں صلاح الدین ایک اے ٹی ایم مشین سے کارڈ چوری کرتے ہوئے وہاں لگے کیمرہ کو دیکھ کر منہ چڑا رہا تھا، جس سے اُسے پہچاننے اور پکڑنے میں پولیس کو کوئی مشکل پیش نہ آئی۔
عمران خان صاحب نے پولیس اصلاحات کے بڑے بڑے وعدہ کیے تھے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد سب کچھ بھلا بیٹھے۔ وہ پنجاب پولیس، جس میں سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد وہ بار بار ریفارمز کا مطالبہ کرتے رہے، اُسے ان کے وسیم اکرم پلس نے مزید سیاست زدہ کر دیا۔ صلاح الدین کے ساتھ جو ظلم ہوا اُس پر کسی ذمہ دار کو سزا ملے گی یا نہیں، اس کا جواب تو مستقبل میں ہی ملے گا لیکن ابھی تک اس مسئلہ پر نہ وزیراعظم بولے ہیں اور نہ ہی کوئی دوسرا ذمہ دار۔ سپریم کورٹ کے سوموٹو کی بھی کوئی امید نہیں۔ یہاں تو ساہیوال سانحہ جس میں پانچ معصوموں کو درندگی سے مارا گیا، کے ذمہ داروں کو کیا سزا ملی، اس کا بھی عوام کو کوئی پتا نہیں۔ سانحہ ساہیوال کے مقتولین کے وارث تو ایک آزاد جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ ہی کرتے رہے۔ اگر ساہیوال سانحہ میں ملوث اصل قاتلوں کو سزا دے دی جاتی اور اُنہیں عبرت کا نشان بنا دیا جاتا تو شاید صلاح الدین کی پولیس کی تحویل میں مبینہ تشدد سے ہلاکت نہ ہوتی۔
مبینہ طور پر صلاح الدین ایک چھوٹا چور تھا، جسے ریاستِ مدینہ کا نام لینے والوں کی حکمرانی کے دوران تشدد کرکے قتل کر دیا گیا لیکن اسی دوران جب ہزاروں روپے کے مبینہ چور کو پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا، عمران خان صاحب کی حکومت نے ٹیکس دہندگان کے تین سو ارب روپے پاکستان کے خواص کے ایک مخصوص طبقہ کو معاف کر دیئے۔ جن کو یہ پیسہ معاف کیا گیا وہ سب ارب پتی لوگ تھے جن کا تعلق پاور سیکٹر، سی این جی، کھاد، جنرل انڈسٹری، آئی پی پیز اور ٹیکسٹائل سیکٹرز سے تھا۔ جن کو فائدہ پہنچایا گیا اُس میں حکومت میں شامل کچھ اہم ذمہ دار بھی شامل تھے۔ یہ تین سو ارب روپیہ وہ تھا جو ان ارب پتیوں اور ان کی کمپنیوں نے عام صارفین سے ٹیکس کی مد میں وصول تو کر لیا لیکن قومی خزانہ میں جمع نہیں کرایا۔ گویا یہ حکومت کے پیسہ کی چوری تھی اور چوری بھی تین سو ارب روپے کی۔ ایک چھوٹے مبینہ چور کو تو دو دنوں میں پکڑ کر جان سے بھی مار دیا گیا لیکن ایک ایسے امیر طبقے کو جس نے حکومت کا تین سو ارب روپیہ ہڑپ کر لیا، حکومت نے معاف کر دیا۔
عوام کے تین سو ارب روپے کی معافی کے لیے عمران خان کی حکومت نے باقاعدہ ایک صدارتی آرڈیننس نافذ کیا۔ اس سارے معاملہ میں حکومت کے دل میں کوئی چور ضرور تھا، جس کی وجہ سے اس مسئلہ کو پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنے کے بجائے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے عوام سے اکٹھا کیا گیا تین سو ارب روپیہ امراء کے ایک مخصوص طبقہ کو دے دیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق صدارتی آرڈیننس کے نفاذ سے پہلے اس مسئلہ کو وفاقی کابینہ نے منظور کیا، اس سارے پراسیس میں وزارتِ قانون، وزارتِ پٹرولیم اور وزیراعظم آفس بھی شامل رہے لیکن کسی نے یہ اعتراض نہ کیا کہ تین سو ارب روپیہ کیوں ایک مخصوص طبقہ کو معاف کیا جا رہا ہے اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب حکومت کو ٹیکس اکٹھا کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا ہے اور اپنے ریونیو بڑھانے کے لیے مہنگائی کرکے عام عوام اور غریب پر سارا بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ جب حکومت نے یہ قدم اٹھایا تو میڈیا نے حکومت پر خوب تنقید کی اور تحریک انصاف اور وزیراعظم کو یاد دلایا کہ ماضی میں اس قسم کے فیصلوں پر خان صاحب بہت اعتراض کیا کرتے تھے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ یہ کیا حکمرانوں کے باپ کا پیسہ ہے کہ وہ اس طرح معاف کر رہے ہیں۔ ٹی وی ٹاک شوز میں خان صاحب کے پرانے کلپس چلا کر یہ سوال کیا گیا کہ یہ تین سو ارب روپیہ کسی کے باپ کا پیسہ ہے کہ حکومت نے معاف کر دیا۔ اس تنقید کے نتیجے میں حکومت کی طرف سے چند وزرارء کی ذمہ داری لگائی گئی کہ صحافیوں اور اینکر پرسنز کو سمجھایا جائے کہ اس فیصلہ سے حکومت کو فائدہ ہوگا نہ کہ نقصان۔ لیکن اس کے باوجود میڈیا کے ساتھ ساتھ اپوزیشن نے بھی حکومت کے اس فیصلہ کی کھل کر مخالفت کی۔ سوشل میڈیا نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا اور اسے حکومت کی طرف سے ایک بڑا ڈاکہ گردانا گیا۔
اس دبائو کے نتیجہ میں وزیراعظم آفس کی طرف سے آج (بروز بدھ) ایک پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں کہا گیا کہ وزیراعظم نے متنازع صدارتی آرڈننس کو واپس لینے کے احکامات جاری کر دیئے ہیں، جو ایک اچھا اقدام ہے۔ پریس ریلیز کے مطابق اٹارنی جنرل کو کہہ دیا گیا ہے کہ اس کیس کو سپریم کورٹ میں اُٹھایا جائے لیکن ساتھ ہی یہ خطرہ بھی ظاہر کیا گیا کہ خواص کا وہ طبقہ جس کو تین سو ارب روپے کی معافی دی گئی تھی، عدالتوں میں حکومت سے یہ کیس جیت سکتا ہے جس سے حکومت کو اُس دو سو ارب روپے سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں جو ان کمپنیوں نے حکومت کو تین سو ارب کی معافی کی صورت میں ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ عدالتیں کیا فیصلہ کرتی ہیں، یہ تو وقت آنے پر ہی پتا چلے گا لیکن خان صاحب کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ جن لوگوں نے اُن سے ایک غلط فیصلہ کروا کر تین سو ارب روپے کا حکومت کو ٹیکہ لگا دیا تھا، وہ کیا عدالت میں ٹھوس طریقہ سے ریاست کا کیس پیش کریں گے یا وہاں بھی حکومت کی طرف سے اس انداز میں کیس لڑا جائے گا کہ فائدہ اُسی مخصوص طبقے کا ہو جو مہنگے مہنگے وکیلوں کے ذریعے عوام کا پیسہ ہڑپ کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔