پاکستان کی عدلیہ کے سربراہ کی حیثیت سے محترم چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کے لیے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ وڈیو نے ایک مشکل صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اس مبینہ وڈیو نے عدلیہ کے ادارے اور ججوں کے کنڈکٹ پر بہت سے سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔ ان سوالوں کے جواب کے لیے ماسوائے عدلیہ کے، کوئی دوسرا ادارہ کچھ نہیں کر سکتا۔ اسی لیے سب کی نظریں چیف جسٹس اور سپریم کورٹ پر جمی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے پہلے ہی اس معاملہ پر سوموٹو لینے کا مطالبہ سامنا آ چکا ہے جبکہ حکومت اور وزیراعظم نے بھی اس مسئلے پر انکوائری کے لیے معاملہ عدلیہ کے ہی سپرد کرتے ہوئے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ حکومت اس معاملہ میں نہیں پڑے گی۔ مبینہ طور پر یہ معاملہ ایک ناانصافی کا ہے جس کا اعتراف احتساب عدالت کا جج خود کر رہا ہے اور اس اعتراف میں وہ کچھ ایسے افراد کا نام بھی لے رہا ہے جو اگرچہ ابھی تک میڈیا کے سامنے نہیں آئے لیکن ذرائع کے مطابق اُن میں سے ایک فرد بہت اہم عہدہ پر فائز رہا اور اب ریٹائر ہو چکا جبکہ دوسرا ابھی بھی ایک اہم عہدہ پر براجمان ہے۔ نون لیگ کے پاس ایک نہیں بلکہ کئی وڈیوز ہیں جس میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک نے وہ باتیں کی ہیں جو اگر سچ ثابت ہوتی ہیں تو عدلیہ کے ادارے کے لیے بہت بدنامی کا باعث ہو سکتی ہیں۔ مبینہ طور پر جج ارشد ملک کی ملاقات دوسرے افراد کے علاوہ نواز شریف کے ایک قریبی عزیز سے مدینہ کے ایک ہوٹل میں گزشتہ رمضان کے آخری عشرہ میں بھی ہوئی، جس کی، ذرائع کے مطابق، وڈیو ریکاڑنگ شریف فیملی کے پاس موجود ہے۔ ان وڈیوز کی سچائی یا ان کے جھوٹا ثابت ہونے کے لیے ابھی فرانزک آڈٹ ہونا باقی ہے لیکن نون لیگ اور شریف خاندان کے ذرائع مطمئن ہیں کہ اُن کے پاس یہ ٹھوس ثبوت ہیں۔
خبروں کے مطابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس معاملہ پر قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سے گزشتہ روز بات کی ہے۔ اب ہوگا کیا؟ عدلیہ کیا کارروائی کرے گی؟ اس کا سب کو انتظار ہے۔ اگر ایک طرف جج ارشد ملک کے تبادلہ اور کارروائی کے متعلق سوچا جا رہا ہے تو یہ بھی لازم ہے کہ اُس مبینہ گفتگو کی حیثیت کو بھی جانچا جائے جو احتساب عدالت کے جج نے ان وڈیوز میں کی۔ کس نے جج کو بلیک میل کیا، کون جج کو لگاتار دبائو میں رکھتا رہا اور یہ مطالبہ کرتا رہا کہ نواز شریف کو ہر حال میں سزا دی جائے۔ یہ امید چیف جسٹس آف پاکستان سے ہی وابستہ کی جا سکتی ہے کہ وہ ایسے کرداروں کے خلاف کارروائی کرکے عدلیہ کے ادارہ کو داغدار ہونے سے ضرور بچائیں گے۔ پاکستان کی عدلیہ کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز چیف جسٹس کھوسہ ہی نے اس بات کو یقینی بنانا ہے بالخصوص ایسے حالات میں جب یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ نواز شریف کا ٹرائل شفاف تھا یا مشکوک؟اور اگر ٹرائل شفاف نہیں ہے تو پھر نواز شریف کی سزا کا کیا ہوگا؟
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ نہ صرف احتساب عدالت کے جج کو فوری تبدیل کر دیا جائے تاکہ مزید ملزمان کو مشکوک سزائوں سے بچایا جا سکے بلکہ مبینہ وڈیو کے سامنے آنے کے بعد نواز شریف کے خلاف دیئے گئے فیصلے کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست کے ذریعے ختم کروایا جا سکتا ہے۔ ایک مشکوک ٹرائل کے نتیجے میں دیئے گئے فیصلہ کو قائم رکھنا نہ صرف بڑی ناانصافی کی بات ہوگی بلکہ اس کو تاریخ میں بھی ایک سیاہ باب کے طور پر لکھا جائے گا۔
ویسے ہی ہماری عدلیہ کا ماضی داغدار ہے، اس کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں ججوں نے دبائو میں آکر ایسے ایسے فیصلے کیے جو ہمیشہ کے لیے دوسروں کے علاوہ خود عدلیہ کے لیے بھی پچھتاوے کا باعث بن گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل، مارشل لائوں کو اس ملک میں بار بار عدالت کی جانب سے جواز فراہم کرنا وہ چند مثالیں ہیں جو عدلیہ کے ساتھ ساتھ پوری قوم کے لیے شرمندگی کا باعث ہیں۔ ایسی شرمندگیوں کے بوجھ کو بڑھانے کے بجائے کم کرنے کی سب سے اہم ذمہ داری عدلیہ کے اپنے کندھوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔