وزیراعظم عمران خان نے جمعہ کے روز "کشمیر آور" کے موقع پر عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر کشمیری مسلمان نہ ہوتے تو دنیا ان کے ساتھ ہوتی۔ یہ وہ سچ ہے جس کا ادراک خوش آئند ہے تاہم وزیراعظم اب بھی کہتے ہیں کہ وہ دنیا کو بھارت اور مودی کے ظلم و ستم کے بارے میں بتائیں گے اور کشمیر کو بھارتی تسلط سے آزاد کروائیں گے۔ جب یہ تسلیم کر لیا اور ماضی اس کا گواہ بھی ہے کہ دنیا کشمیر کے مسئلہ پر اس لیے نہیں بولے گی کہ ظلم و ستم کا شکار مسلمان ہیں تو پھر خان صاحب کیوں محض سفارتی جنگ پر ہی بھروسہ کیے ہوئے ہیں؟ اقوام متحدہ ہو، امریکہ یا یورپ، مسلمانوں پر ظلم و ستم دنیا کے کسی بھی خطے میں ہو رہا ہو، یہ نام نہاد تہذیب یافتہ اقوامِ عالم خاموش ہی رہتی ہیں۔ اپنے خطاب میں وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ اگر بھارت نے آزاد کشمیر پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ یہ سن کر میں حیران رہ گیا۔ بھئی! بھارت تو حملہ کر چکا، مودی نے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ بھی کر لیا، ہماری شہ رگ تو کاٹ دی گئی لیکن اب بھی ہم اس انتظار میں ہیں کہ مودی اور بھارت ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے آزاد کشمیر پر بھی حملہ آور ہوں اور قبضہ کرنے کو کوشش کریں تو ہی ہم اسے حملہ تصور کریں گے اور اس کا جواب بھی دیں گے؟
وزیراعظم پہلے یہ بھی کہہ چکے کہ جنگ کوئی آپشن نہیں۔ نہیں معلوم یہ کیسی پالیسی ہے۔ جو ہم کہہ رہے ہیں اور ابھی تک جو کچھ کر رہے ہیں، اس سے تو بھارت کو کوئی مسئلہ نہیں، وہ تو خوش ہے، اُس کے ساتھ تو وہ ممالک اور وہ طاقتیں بھی کھڑی ہیں جن سے ہم اب بھی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ کشمیریوں کے مدد کے لیے بھارت کا ہاتھ روکیں گی۔ شیخ رشید بھی کہتے ہیں کہ بھارت آ کر تو دکھائے اُسے مزہ چکھا دیں گے۔ حد ہو گئی!!! مودی اور بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو اپنا باقاعدہ حصہ بنا لیا اور ہم اس انتظار میں ہیں کہ بھارت آزاد کشمیر میں آ کر تو دکھائے۔ اگر یہی ہماری پالیسی ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ تسلیم کر لیا ہے اور اب جو کچھ ہم کر رہے ہیں وہ محض دکھاوا ہے۔
بھارت کشمیریوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ یہ وہ کشمیری ہیں جو پاکستان کا مقدمہ گزشتہ سات دہائیوں سے لڑ رہے ہیں، جو "ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے" کا نعرہ آج بھی بلند کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان اگر ان کشمیریوں کے لیے ایک امید ہے تو پاکستان کے لیے بھی کشمیر لازم و ملزوم ہے۔ ان کشمیریوں سے کسی قسم کی غداری کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ میں حکومت اور حکمرانوں پر کوئی الزام نہیں لگا رہا۔ میرا دل یہ بھی نہیں مانتا کہ وہ سچ ہوگا جو مولانا فضل الرحمٰن سمیت دیگر کئی لوگ کہہ رہے ہیں کہ کشمیر کا سودا ہوچکا اور اسی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ نہیں ہوگی۔ البتہ میرا اعتراض حکومت کی پالیسی پر ہے جس کے بارے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ خوف اور ڈر پر مبنی ہے۔ ڈر اور خوف تو بھارت اور مودی کو ہونا چاہئے لیکن ہم کشمیر اور پاکستان پر اتنے بڑے بھارتی ظلم کے باوجود کہہ رہے ہیں کہ انڈیا سے جنگ تو کوئی آپشن ہی نہیں اور یہ بھی کہ ہم اینٹ کا جواب پتھر سے اُس وقت دیں گے جب بھارت آزاد کشمیر پر حملہ آور ہوا۔
جنگ یقیناً ایک آپشن ہے اور ہمیشہ رہتی ہے کیونکہ اس آپشن کے بغیر نہ بھارت کو ہماری بات سمجھ آئے گی اور نہ ہی اقوامِ عالم کو کشمیر کے مسئلہ کے حل میں کوئی دلچسپی ہو گی۔ میں پہلے بھی کہہ چکا اور اب بھی کہہ رہا ہوں کہ جب تک بھارت کو تکلیف نہیں پہنچتی اُس وقت تک بھول جائیں کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نکلے گا۔ اب یہ ہماری حکومت اور افواجِ پاکستان پر منحصر ہے کہ غور کریں کہ بھارت کو تکلیف کیسے پہنچائی جائے۔ کیا اس کا حل پاکستان کی طرف سے بھارت کے خلاف جہاد کا اعلان ہے یا کوئی دوسرا طریقہ۔
گزشتہ چند روز کے دوران میں نے کچھ ریٹائرڈ جنرلز کو بھی حکومت کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے سنا، وہ بھی حیران ہیں کہ ہمیں خوف کس بات کا ہے۔ میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے ایک ٹاک شو کے دوران تجویز دی کہ ہمیں اپنی فوج کو اگلے مورچوں پر بھیج کر بھارت پر دبائو بڑھانا ہوگا۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ اُس پاکستانی فوج جس کا ماٹو ایمان، تقویٰ، جہاد فی سبیل اللہ ہے، ہمیں بھارت کے ساتھ جہادِ کشمیر کے لیے تیار کرنا چاہئے۔ جو اپنی آخرت کو کمانے اور شہادت کے درجہ کے حصول کے لیے اپنے اللہ کی خاطر لڑتے ہیں، اُنہیں بھارت کیا دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی شکست نہیں دے سکتی اور یہ ہم افغانستان میں دیکھ بھی رہے ہیں۔