ہمارے خطے میں چین کا ایران کو ون بیلٹ ون روڈ، منصوبے سی پیک، میں شامل کرنا ایک بڑا واقعہ ہے جس کے جیو سٹرٹیجک محرکات ہیں جو محض اس خطے تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ یہ ایشیا سے یورپ تک پھیلیں گے۔ بھارت اور امریکہ تو پہلے ہی سی پیک کے تحت پاکستان اور چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر چیں بجبیں ہیں لیکن ون بیلٹ ون روڈ کے معاہدے میں اب چین کے ساتھ ایران کا شامل ہونا انہیں ایک آنکھ نہیں بھایا۔ چند روز قبل امریکی صدر جوبائیڈن نے ون روڈ ون بیلٹ کا متبادل لانے کا اعلان کیا، انہوں نے چین اور مغربی طاقتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر چین کے کھربوں ڈالر پر مشتمل بیلٹ اینڈ روڈ انفراسٹرکچر کا مقابلہ کرنے کے لیے 'جمہوری' ممالک کے ساتھ مل کر اسی طرح کے اقدام کی بنیاد رکھنے کی تجویز پیش کی ہے۔ ایران اور چین کے درمیان کئی سو ارب ڈالر کا 25سالہ سٹریٹجک اکنامک شراکت داری کا معاہدہ طے پایا ہے۔ روڈ اینڈ بیلٹ پراجیکٹ کے تحت اس معاہدے کے ذریعے چین و ایران کے درمیان توانائی، انفراسٹرکچر سمیت اہم شعبوں میں سرمایہ کاری متوقع ہے۔ چین ایران کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور 2018ء میں امریکی پابندیوں سے قبل تک وہ ایرانی تیل کا سب سے بڑا خریدار بھی تھا۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں مزید مضبوطی آئے گی۔ چین کے وزیرخارجہ وانگ ژی نے ایرانی ہم منصب محمد جواد ظریف سے گفتگو کرتے ہوئے کہا چین اور ایران کے تعلقات سٹریٹجک شراکت داری تک جاپہنچے ہیں جبکہ بیجنگ تہران کیساتھ تعلقات جامع طور پر بہتر کرنے کا خواہاں ہے، جواد ظریف نے کہا چین اکثر اوقات ایران پر امریکی پابندیوں کیخلاف آواز اٹھاتا ہے اور کبھی کبھار اسے چیلنج بھی کرتا ہے، چین ہمارا مشکل وقت کا دوست ہے۔
اس معاہدے کے پاکستان کے لیے بھی دور رس سٹریٹجک اور اقتصادی محرکا ت ہیں، ویسے تو پاکستان اور ایران کے تعلقات کشیدہ نہیں ہیں لیکن اتنے آئیڈیل بھی نہیں ہیں کہ جنہیں خوشگوار کہا جا سکے۔ ہماری خارجہ پالیسی کے کار پردازان ایران کے ساتھ تعلقات بڑھانے پر امریکہ کی طرف سے پابندیاں لگنے سے گھبراتے ہیں۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کا منصوبہ جس کا آغاز فروری 2013ء میں صد ر آصف علی زرداری اور ایرانی صدر احمدی نژاد نے کیا تھا۔ ایران کی حدود میں مکمل ہونے کے باوجود پاکستان لیت ولعل کا شکار ہے۔ اسی طر ح ایران اور پاکستان کے بارڈر پر گڑ بڑ اور سمگلنگ معمول کی کارروائی بن چکی ہے۔ پاکستانی تاجر ایران سے بہت کچھ منگوا اور بھیج سکتے ہیں۔ اس وقت ایران اور پاکستان کے درمیان تجارت کا حجم تقریباً ساڑھے 3 سو ملین ڈالر ہے۔ اگرچہ ان دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت میں بہتری آئی ہے لیکن اس میں توسیع کی گنجائش موجود ہے۔
ویسے تو ایران اور پاکستان کے درمیان کوئی عمومی سٹریٹجک اختلاف نہیں ہے تاہم پاکستان چین کے ساتھ سی پیک کی لڑی میں پروئے ہونے کے باوجود امریکہ کا حواری تصور ہوتا ہے۔ اس امرکے باوجود امریکہ نے اپنا سٹریٹجک اور اقتصادی طور پر ناتا بھارت کے ساتھ جوڑ رکھاہے۔ ہماری خارجہ اور ڈیفنس اسٹیبلشمنٹ چین سے دوستی کا دم بھرنے کے باوجود امریکہ پر ریشہ ختمی رہتی ہے، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ ایٹمی پروگرام پر معاہدے کی دھجیاں اڑا دیں، اس کے بعد ان کے جانشین جو بائیڈن کچھ اشارے تو دے رہے ہیں کہ ایٹمی معاہدہ ترمیم شدہ صورت میں بحال ہوجائے گا تاہم ایران نے ٹکاسا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے۔ چین اور امریکہ کے تعلقات ٹرمپ کے جانے کے بعد بھی روبہ زوال ہیں۔ حال ہی میں اعلیٰ سطح کے اجلاس میں چین نے امر یکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی جے بلنکن کو کھری کھری سنائیں اور یہ تک کہہ دیا کہ امریکہ کی ڈکٹیشن کو ہم نہیں مانتے۔ واضح رہے کہ دنیا میں امریکہ کی نمبر ایک سپر پاور کی حیثیت کو عمومی طور پر چیلنج کیا جانے لگا ہے اور تجزیہ کاروں کے خیال میں آئندہ چند برسوں میں چین کی مجموعی قومی پیداوار امریکہ سے بڑھ جائے گی۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو پاکستان تاریخ کے دھارے کے ساتھ چل رہا ہے جبکہ بھارت امریکہ کے ساتھ نتھی ہے۔ البتہ یہ بات مدنظر رکھنا ہو گی کہ بھارت ایک بڑی دفاعی اور اقتصادی طاقت بن چکا ہے اور اپنی طاقت کے بل بوتے پر وہ تمام دنیا سے تعلقات کو بڑھا رہا ہے۔
جہاں تک چین کا تعلق ہے، اس کے بھارت کے ساتھ بنیادی سرحدی تنازعات ہیں لیکن اس کے باوجود اس کے بھارت سے تجارتی تعلقات کا حجم پاکستان سے زیادہ ہے۔ ہم چین، چین کی مالا تو جپتے ہیں لیکن بعض بنیادی مسائل پر اس کی بات ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے بھارت کے ساتھ سیاسی معاملات میں بنیادی تنازعات کے باوجود ان دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ حال ہی میں ڈائریکٹرز جنرل ملٹری آپریشنز کے اجلاس کے بعد سٹریٹجک ڈائیلاگ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خطاب سے کچھ نہ کچھ برف پگھلی ہے جس پر پاکستان میں عقابوں کے کان کھڑے ہو گئے۔ سابق سیکرٹری خارجہ و بھارت میں ہائی کمشنر عبدالباسط نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان بھارت سے کپاس درآمد نہ کر لے کیونکہ پاکستان میں کپاس کی فصل شدید متاثر ہوئی ہے۔ جہاں تک پاکستان اور ایران کا تعلق ہے دونوں اسلامی برادر ملک ہونے کے علاوہ چین کے ساتھ ون بیلٹ ون روڈ معاہدے میں ایک دوسرے کے قریبی حلیف بن گئے ہیں، اس لحاظ سے ہمیں اپنی ترجیحات کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے۔