سینیٹ میں پی ٹی آئی کی شکست کا غصہ اپوزیشن پر نکالنا تو قابل فہم ہے لیکن خان صاحب اور ان کے حواری الیکشن کمیشن پر بھی سخت برہم ہیں کہ یہ آئینی ادارہ اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں یکسر ناکام رہا ہے۔ وزیراعظم نے قوم سے اپنے خطاب میں اپنی پارٹی کے ارکان، جواپوزیشن کے ہاتھوں بک گئے کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اپوزیشن والے شکلوں سے ہی غدار لگتے ہیں، شکست حکومتی ارکان کے ضمیر بیچنے سے ہوئی، جو خوش نہیں وہ مجھے ووٹ نہ دیں۔ ادھر وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد بھی خطاب میں کہا: الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ پاکستان کی ایجنسیوں سے خفیہ بریفنگ لے، تاکہ اندازہ ہوکہ اس سینیٹ الیکشن میں کتنا پیسہ چلا ہے، مجھے شرمندگی ہوتی ہے کہ کدھر پاکستان کا خواب اور کدھر یہ بکرا منڈی بنی ہوئی، لوگوں کو خریدنے کے لیے، ہمیں ایک مہینے سے پتا تھا کہ ان انتخابات کے لیے پیسہ جمع کیا جارہا ہے، مجھے حیرت ہوئی کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ ہم آزاد ادارے ہیں اور ہم نے بہت اچھا الیکشن کرایا ہے، مجھے اس سے تو اور صدمہ ہوا کہ اگر یہ الیکشن آپ نے اچھا کرایا ہے تو پتہ نہیں برا الیکشن کیا ہوتا ہے۔
ادھر اپوزیشن نے قومی اسمبلی کے اجلاس کو غیر آئینی قرار دے کر بائیکاٹ کیا جو قابل فہم تھا۔ پارلیمنٹ ہائوس کے باہر پی ٹی آئی کے مشتعل کارکنوں کی شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال اور مصدق ملک سے دھکم پیل اور تلخ کلامی مستقبل میں سیاست میں فاشزم اور تشدد کی سیاست کی نشاندہی کر رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال کو پارلیمنٹ ہائوس کے باہر میڈیا ٹاک کے دوران پی ٹی آئی کے کارکن نے سر پر جوتا دے مارا، اس دوران بپھرے ہوئے کارکنان نے شدید نعرے بازی کی، تصادم کی صورتحال کے دوران مریم اورنگزیب کے ساتھ بدتمیزی کی گئی۔ احسن اقبال نے کہا کہ ان ہتھکنڈوں سے ہماری آواز نہیں دباسکتے، فاشزم کی سیاست نہیں چلے گی، ہر فورم پر مقابلہ کریں گے، عمران خان کو رخصت کیے بغیر ہم سکون سے نہیں بیٹھیں گے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پی ڈی ایم کے ظہرانے سے خطاب میں کہا میڈیا پر پابندی اور عدالت پر دبائو ڈالنے کے بعد ارکان قومی اسمبلی پر حملہ کرکے نئی روش کی بنیاد ڈال دی، ایک طرف سیاسی اتحاد ہے جو جمہوریت کے لیے یکجاہے اور دوسری طرف ایک کمزور شخص ہے جو اپنے اندر ناکامی کا طوفان دیکھ رہا ہے اور وہ اپنا توازن کھو رہا ہے۔ پارلیمنٹ کے باہر لیگی رہنمائوں پر حملے کی وزیر اعظم عمران خان نے مذمت کی نہ ہی افسوس کا اظہار۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا پارلیمنٹ کے باہر تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں پر حملے پر کوئی تعجب نہیں کیونکہ ان کا اخلاقیات یا جمہوریت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں، جب حکومت اپوزیشن میں تھی تب بھی پارلیمنٹ میں غنڈہ گردی کرتی تھی اور اب جعلی طریقے سے حکومت میں آنے کے بعد بھی اپنی غنڈہ گردی پر مبنی رویے جاری ہیں۔
حسب توقع خان صاحب کو اپنی پارٹی اور اتحادیوں سے اعتماد کا ووٹ حاصل ہو گیا۔ انہیں 178 ارکان قومی اسمبلی نے ووٹ دیا۔ 18ویں ترمیم کے بعد پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ لیا ہو۔ اس سے پہلے ایسا کرنا آئینی ضرورت تھی کہ ہروزیراعظم منتخب ہونے کے بعد اعتماد کا ووٹ لے۔ لہٰذا 2010 کے بعد منتخب ہونے والے وزرائے اعظم نے ایسا نہیں کیا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خان صاحب نے یہ تکلف کیوں کیا؟ آئین کے آرٹیکل 91 کی شق 7 کے تحت صدر مملکت صرف اسی صورت میں وزیراعظم کو کہہ سکتے ہیں کہ وہ اعتماد کا ووٹ لیں اگر انھیں یقین ہو جائے کہ وزیراعظم ایوان کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں، یہاں تو ایسا کوئی معاملہ نہیں تھا۔ حتیٰ کہ اپوزیشن کے بھی یہ دعویٰ کرنے کے باوجودکہ وزیر خزانہ حفیظ شیخ کی سینیٹ کی اسلام آباد کی نشست پر شکست وزیراعظم پر عدم اعتماد کے مترادف ہوگی لیکن ابھی تک اپوزیشن اتحاد کی طرف سے وزیراعظم اور حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی بلکہ بلاول بھٹو کے مطابق عدم اعتماد لانے کے وقت کا تعین اپوزیشن خود کرے گی۔
ایسا لگتا ہے کہ سینیٹ کے انتخاب میں وزیرخزانہ کی شکست کا تحریک انصاف کو سخت دھچکا لگا ہے جس سے مغلوب ہو کر وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا۔ غالباً پارٹی ارکان کے گرے ہوئے مورال کو بلند کرنا بھی مقصد تھا۔ جذبات کے سوا بھی حکومت کرنے کے لیے چند زمینی حقائق کا ادراک ضروری ہے۔ پارٹی کے سربراہ اورملک کے چیف ایگزیکٹو کے طورپر یہ بات تو وزیراعظم بھی برملاکہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے چند ارکان بدعنوانی کے مرتکب ہوئے ہیں، لیکن کیا یہ عمل محض بدعنوانی کا شاخسانہ ہے یا اور عوامل بھی ہیں جن پر غور کرنا چاہیے۔ یعنی پارٹی قیادت کا ارکان اسمبلی کے ساتھ رویہ اور ان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کا پورا نہ کرنا۔ مزید برآں اس احساس، کہ حکومت نے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا، کے جاگزیں ہوجانے سے بھی تحریک انصاف کو نقصان پہنچا ہے۔ شاید اس حوالے سے پی ڈی ایم کی تحریک نے جلتی پر تیل کا کام کیاہو لیکن خان صاحب سینیٹ کے اپ سیٹ کے بعد اس حد تک برہم تھے کہ انہوں نے اپنی گھسی پٹی لائن کہ اپوزیشن کے ارکان چور، ڈاکو اور خائن ہیں، اگر وہ اپوزیشن بھی ہونگے انہیں نہیں چھوڑیں گے، کا ورد جاری رکھا۔ اگر خان صاحب حکومت میں ہونے کے باوجود انہیں جیلوں میں ڈالنے کے سوا کچھ نہیں کر سکے تو اپوزیشن میں بیٹھ کر کیا کریں گے۔
وزیراعظم عمران خان کے ارشادات عالیہ سے یوں گماں ہوتا ہے وہ اب بھی اپوزیشن میں ہیں، ان کا طرز تکلم کارکنوں کو اکسانے والا ہے،۔ جس کے مناظر ہفتہ کو اعتمادکا ووٹ لینے کے موقع پر قومی اسمبلی کے باہر پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے دیکھنے میں آئے، ملک ایسی روش کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ عمران خان کے زبانی کلامی دوست ٹرمپ کا بھی ایسا ہی رویہ تھا اور ان کی باتوں میں آکر ان کے حامیوں نے کانگریس پر حملہ کر دیا، امریکہ میں تو ادارے مضبوط تھے جنہوں نے ایسے حالات پر قابو پالیا مگرخاکم بدہن پاکستان میں ایسا کوئی واقعہ ہو گیا تو کون کنٹرول کرے گا، وہ بھی اس طرح کے ماحول میں جب حکومت نے اپنے اقدامات سے ہر ادارے کو متنازعہ بنا دیا ہو۔
وزیراعظم کو الیکشن کمیشن پر لعن طعن کرنے کے بجائے سینیٹ اور حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج کے تناظر میں اپنی پالیسیوں کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ انہیں یہ ادراک بھی ہونا چاہیے کہ پارلیمنٹ میں باہمی تعاون اور اتفاق رائے پیدا کئے بغیر اصلاحات لانا ناممکن ہے ورنہ لڑائی بڑھتی ہی جائے گی۔ اگر خان صاحب میں اخلاقی جرات ہو تو وہ ان نام نہاد ارکان اسمبلی، جنہوں نے اپنے ووٹ فروخت کئے، کو منظر عام پر لاتے اور ان کے خلاف کارروائی کرتے چہ جائیکہ ان سے اعتماد کا ووٹ لیتے۔ ہفتہ کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے بلائے گئے اجلاس میں حکومتی ارکان کی حاضری یقینی بنانے کیلئے خان صاحب نے بطورچیئرمین پی ٹی آئی اپنے تمام ارکان قومی اسمبلی کو خط لکھا جس میں وارننگ دی گئی تھی کہ تمام ارکان بروقت حاضر ہوں اور ووٹنگ میں حصہ نہ لینے والے رکن کے خلاف نااہلی کی کارروائی کی جائے گی۔ اس خط سے بھی ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کو آخری وقت تک اپنے ارکان اسمبلی پر اعتماد نہیں تھا ورنہ انہیں کسی قسم کی وارننگ دینے کی ضرورت نہیں تھی۔