Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Gardab Mein?

Gardab Mein?

بظا ہر لگتا ہے کہ وزیر عظم عمران خان اپنا قریباًتین سال کا اقتدار مکمل کرنے کے بعد گرداب میں پھنس گئے ہیں۔ عمومی طو ر پر کہا جا تا ہے کہ نئے سیا سی محاذ کھولنا کسی بھی سیا سی حکومت کے لیے سود مند ثابت نہیں ہو تے لیکن پتہ نہیں پی ٹی آ ئی کی قیا دت اس اصول کے یکسر خلا ف کیوں ہو گئی ہے۔ خان صا حب تواب سہ مکھی لڑا ئی لڑرہے ہیں۔ ایک طرف انہیں اپو زیشن کی بڑ ھتی ہو ئی یلغار کا سامنا ہے۔ دوسر ی طرف پا رٹی کے اندر جہانگیر ترین کی قیا دت میں مضبو ط گروپ کی تشکیل نے حکمران جما عت کے لیے بڑا چیلنج کھڑا کر دیا ہے اور تیسری طرف راولپنڈ ی کے رنگ روڈ میں مبینہ طور پر ملوث خان صاحب کے دست راست زلفی بخا ری کے استعفے اور وزیر ہو ا با زی غلام سرور خان کے استعفے سے انکا ر نے بھی دلچسپ صورتحال پید اکر دی ہے لیکن وزیر اعظم حالات کی نزاکت کا ادراک کئے بغیر اپنی چال میں مست ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ" اگلے الیکشن کا نہیں قوم کے مستقبل کا سوچا ہے، پانچ سال ختم ہونے پر یہ دیکھنا ہے کہ غریب طبقے کو کیسے اوپر اٹھایا گیا، پنجاب کے سیاست دان اپنا پیسہ بچانے اور قانون سے بچنے کیلئے دم دبا کر لندن بھاگے ہوئے ہیں، یہ زیادہ دیر نہیں بچیں گے، فکر نہ کریں، بھگوڑوں کو جلد واپس لائیں گے، سارے مافیاز اکٹھے ہوکر مجھ سے این آر او لینے کی کوشش کررہے ہیں، یہ کبھی کامیاب نہیں ہونگے، ان لوگوں کو قانون کے نیچے لائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا مافیاز ہمیں ناکام نہیں کر سکتے، مافیا حکومت گرانے کی دھمکی دے کر بلیک میل کر رہا ہے، ان کی خواہش ہے ہم فیل ہوجائیں لیکن ہم پانچ سال پورے کریں گے، ہماری کامیابی اپوزیشن کی سیاسی موت ہے"۔

پی ٹی آ ئی کے حامیوں کی جہا نگیر تر ین کے اس بیان سے کچھ ڈھا رس بند ھی ہے کہ ان کا ہم خیال گروپ وزیراعظم کی حمایت کر تا رہے گا، لیکن بجٹ کی آمد آمد ہے اور اگر جہانگیر تر ین کے حامی پنجاب اسمبلی کے ارکان کی تعداد دیکھیں تو ہم خیا ل گروپ کو بجٹ کی منظور ی کیلئے ویٹو پاور مل گیا ہے، جس کاوہ استعمال کر سکتے ہیں۔ را جہ ریا ض جو ہم خیال گروپ میں کلید ی رول ادا کررہے ہیں، ان کے بعض جنگجو سا تھی تو اس حق میں ہیں کہ ان کا گروپ اپنی ہی جماعت کے خلا ف ویٹو پاور استعمال کر ے لیکن جیسا کہ سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی نے خان صا حب کو اپنی حمایت کا یقین دلاتے ہو ئے کہا ہے کہ وہ پینتر ہ بدل کر حکومت کے خلاف کسی مہم جو ئی کا حصہ نہیں بنیں گے تاہم انہیں یہی گلہ ہے کہ عام انتخابات سے پہلے ان کی باتوں پر تحر یک انصاف نے توجہ دی اور کئی تجا ویز پر عمل بھی کیا لیکن الیکشن کے بعد یہ جا وہ جا کی پالیسی اپنا لی۔ اگرچہ اس وقت ہم خیال گروپ 32 ارکان اسمبلی پر مشتمل ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے لیکن پرویز الٰہی نے یہ بڑی پتے کی بات کی ہے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی اس وقت ہو گا، جب اسمبلی کے اجلا س میں ان کا اصل رویہ سامنے آئے گا۔ ویسے بھی وزیر اعظم کے بعض ساتھی الزام لگا رہے ہیں کہ خان صاحب نے تر ین صاحب کے معاملے میں نر می سے کام لیاہے اور ان کے خلا ف کا رروائی کر نے میں لیت ولعل سے کام لے رہے ہیں، تا ہم عمران خان کے لیے یہ سب اتنا آسان بھی نہیں۔

تحریک انصاف کے سابق وفا قی وزیر آبی وسائل، موجودہ سینیٹراور انتہا ئی متمول شخصیت فیصل واوڈا جو اکثر ڈینگیں مارتے رہتے ہیں، ان کا یہ کہنا کہ نام نہاد ہم خیال گروپ ایک ایس ایچ او کی مار ہے، ان کی کم فہمی ہے۔ دوسری طرف ہم خیال گروپ کیخلاف سخت زبان استعمال کرنے پر پنجاب کے وزیر حسنین بہادر دریشک نے کہا عمران خان کو کسی سے خطرہ ہے تو وہ فیصل واوڈا جیسے لوگ ہیں، عمران خان کی کشتی ڈبونے میں فیصل واوڈا کا بڑا ہاتھ ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عام پیشگو ئیوں کے برعکس ابھی تک بظاہر اپوزیشن اور ہم خیال گروپ کے درمیان باضابطہ رابطہ نہیں ہوا۔ میاں شہبازشر یف نے جمعرات کو میڈیا سے گفتگو کے دوران واضح اور دوٹو ک انداز میں کہا کہ ان کی جماعت کا ہم خیال گروپ سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ان کا اس گروپ سے کیالینا دینا۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز جہانگیر ترین گروپ کے وفد کی وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات ہوئی جس میں عثمان بزدار نے اراکین کو تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ اس وفد میں سعید اکبر نوانی، نعمان لنگڑیال، اجمل چیمہ، عون چودھری، عمر آفتاب، نذیر چوہان اور زوار وڑائچ شامل تھے۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں سعید اکبر نوانی نے کہا جہانگیر ترین گروپ حقیقت ہے، پہلے بھی کہا تھا افواہوں میں کوئی صداقت نہیں، وزیراعلیٰ سے ملاقات میں ہم نے کھل کر بات کی، بجٹ بھی ڈسکس کیا، ہم حکومت کے ساتھ ہیں اور وزیراعلیٰ سے جو بات ہوئی اس پر مکمل مطمئن ہیں۔

ہم خیال گروپ کی سرگرمیوں کے باوصف پی ٹی آئی کی حکومت کے حالات کو ئی اچھے نہیں ہیں۔ صو رتحال اتنی تیزی سے خراب ہو رہی ہے کہ ان سیاسی تجز یہ کاروں سے قطعی طور پر اختلا ف نہیں کیا جا سکتا کہ حکومت کا سنگھاسن ڈول رہا ہے۔ اقتصادیا ت ہو یا گورننس کے مسائل، بلندبانگ دعوؤں کے با وجود زمینی حقا ئق قابل رشک نہیں ہیں لیکن خان صا حب ہیں کہ وہ اوران کے ساتھی پرانی ڈفلی ہی بجائے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ قریباً اپنی ہر تقریر میں فرماتے ہیں کہ میں اپوزیشن کو نہیں چھوڑوں گا، انہیں قانون کے طابع کرونگا، این آر او نہیں دونگا، یہ سب جیلوں میں ہوں گے، کے علا وہ کو ئی نئی بات نہیں ہے۔

ایک طرف تو حکومت انتخابی اصلاحات کے بارے میں اپوزیشن سے دست تعاون ما نگ رہی ہے اور دوسر ی طرف گالی گلو چ کی جا رہی ہے، تمہیں کہو یہ انداز گفتگو کیا ہے، علاوہ ازیں خان صا حب کو بھی ان کے پیشر و حکمرانوں کی طرح مبارک سلامت کے چکر میں ڈال دیا گیا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، ڈپٹی سپیکر قاسم سوری اور سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے علا وہ وفاقی وزرار کو یہ بھی ٹو یٹ کرنا پڑ رہا ہے"آئی سٹینڈ ود عمران خان" ایسی خو شامدپہلے حکمرانوں کو بچا سکی اور نہ اب بچا سکے گی۔ ویسے بھی یہ افسوسناک با ت ہے کہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکرکے عہد ے کا تقاضا ملحوظ خاطر رکھے بغیر وہ بھی مجبور ہو گئے ہیں اور وہ اس قسم کی مدح سرائی میں حصہ لیتے ہو ئے تکنیکی طور پر اپنے غیر جانبدار سٹیٹس کو خود ہی نا قابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔