ہیں کو اکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ، آ ئی ایم ایف کے سا تھ پاکستان کا چھ ارب ڈالر پر مشتمل پروگرام کھٹا ئی میں پڑ گیا ہے اور وزارت خزانہ کو چھٹی نظر ثانی کے لیے مذاکرات ستمبر تک مؤخر کر نے پڑ گئے ہیں۔ حال ہی میں وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالنے والے شوکت تر ین پُر امید تھے کہ وہ بین الاقوامی مالیا تی ادارے کوکچھ کڑ ی شرا ئط میں نرمی پر منا لیں گے، خاص طور پربجلی کے نر خوں میں اضا فے اور ٹیکسوں کی شرح کے حوالے سے نظر ثانی پر راضی کر لیں گے۔ لیکن آ ئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اس کے سا تھ طے اور دستخط شدہ پروگرام کو کیسے واپس لیا جا سکتاہے۔ آ ئی ایم ایف کے اعلیٰ سطح کے ذرائع کا کہناہے کہ پاکستان بھی اس کا ایک کلا ئنٹ ہے اور طے شد ہ امور سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ بین الا قوامی مالیا تی ادارے کا اصرار ہے کہ اس کے پیکیج کے ذریعے پاکستانی اقتصادیات کے ڈھانچے میں بنیا دی تبد یلی لانے سے ہی اقتصادی معاملا ت میں دورر س اصلا حا ت لا ئی جاسکتی ہیں، پاکستان کے لیے یہ ڈوز ضروری ہے، ٹیکسوں میں اضا فہ جو بین الاقوامی معیا ر سے بہت کم ہے اور ٹیکس ٹوجی ڈی پی تناسب نو سے دس فیصد کے درمیان ہے حالانکہ مثالی طور پر اسے دگنا ہونا چا ہیے لیکن کم از کم موجو دہ شر ح سے کا فی زیا دہ ہونا چا ہیے۔
سر کلر ڈیٹ نے پاکستان کا دیوالیہ نکال دیا ہے جس سے نمٹنے کیلئے پا ور سیکٹر میں اصلا حا ت کلیدی اہمیت کی حامل ہیں۔ تیل پر پٹرولیم لیو ی میں گونا گوں اضا فہ ہی نا گزیر قرار دیا گیا ہے۔ تر ین صاحب کے پیشر و ڈاکٹر حفیظ شیخ اور گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر آ ئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اعلیٰ عہد وں پر فا ئز ہونے کے بعد پاکستان تشر یف لائے۔ اقتدار کے ایوانوں میں بالخصوص ڈاکٹر حفیظ شیخ کے بارے میں بد گمانیاں پیدا ہو ئیں کہ انہوں نے آ ئی ایم ایف کی شرا ئط من وعن تسلیم کر لی ہیں اور اس پہلو کو مد نظر نہیں رکھا گیا۔ بین الاقوامی اداروں، آ ئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی تر قیا تی بینک کے امور سے شیخ صا حب پو ری طر ح واقف ہیں، وہ آ صف زرداری کے دور صدارت میں بھی مشیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ انہیں خوب معلو م تھا کہ اب آ ئی ایم ایف سے پیسے لینے کے لیے ان کی کڑی شر ائط پر صاد کرنا ہو گا، وزیراعظم کو خدشہ تھا کہ اس سے افراط زر میں بے پنا ہ اضا فہ ہو جا ئے گا۔
بڑ ھتی ہو ئی مہنگا ئی بالخصوص اشیا ئے خو ر ونوش کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں کے حوالے سے اپوزیشن ہا تھ دھو کر حکومت کے پیچھے پڑ ی ہو ئی ہے۔ اسی بنا پر وزیر اعظم عمران خان نے اپنے مخصوص انداز میں یو ٹرن لیااور شیخ صا حب کو بر طرف کر دیا لیکن اس مر تبہ آ ئی ایم ایف اپنے مو قف پرڈٹ گیا ہے کہ حکومت پاکستان آ ئی ایم ایف کے سا تھ طے کئے ہو ئے امور سے کیسے پیچھے ہٹ سکتی ہے۔ آ ئی ایم ایف کے تر جمان نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہہ دیاہے کہ اب پاکستا نی حکام کے سا تھ بھرپور مذاکرات کرنے ہیں جن میں ہما را ارادہ ما لیا تی امور پر ٹیکس اور دیگر طے شد ہ ما لیا تی ایجنڈے پر بات چیت کا ہے لیکن فی الحال تو آ ئی ایم ایف کا پروگرام معطل نظر آ رہا ہے۔ ہما ری حکومت نے مختلف با نڈز فلو ٹ کر کے ڈالر کمانے کا فیصلہ کیا ہے اور فی الحال یہی حکمت عملی لگتی ہے کہ معاملے کو جتنا طول دیا جا سکتا ہے دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ پاکستان کی دیگر ذرائع سے مزید قرضے لینے کی حکمت عملی اس کی کر یڈیبلٹی سے بھی مشروط ہے، اسی بنا پر آ ئی ایم ایف کے پروگرام کو خیر با د نہیں کہنا چاہیے۔ آئی ایم ایف بھی پاکستان کو مزید موقع دینا چاہتا ہے کہ وہ نئے بجٹ میں اکانومی کو فروغ دینے کے اقدامات کو آزما لے لہٰذا اس کا بھی عجلت میں پروگرام چھوڑنے کا ارادہ نہیں لگتا۔
بہر حال یہ تا ثر دینے کے باوجود کہ اکانومی زبردست ترقی کر رہی ہے، حکومت کو یہ احساس ہوا ہے کہ کپا س کی فصل بر ی طر ح ناکام ہو ئی ہے اور اعدا دو شما ر کے مطابق پنجاب اور سندھ میں کاٹن کی پیداوارمیں بالترتیب 34 اور 38 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ گزشتہ سال 85 لاکھ گانٹھیں حاصل ہوئی تھیں تاہم اس سال فروری تک صرف 56 لاکھ گانٹھیں حاصل کی جاسکی ہیں۔ اسی لئے وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں اپنی پیش کی گئی سمریمیں فی من کپاس کی مداخلتی قیمت 5 ہزار روپے مقرر کرنے کی تجویز دی، اس مداخلتی قیمت سے کپاس کی پیداوار 10 فیصد تک بڑھنے کی توقع ہے۔ کپا س کے حوالے سے ایک سکینڈل بھی سامنے آیا ہے جس میں وزیراعظم کے خصو صی معاون برا ئے فوڈ سکیو رٹی جمشید اقبال چیمہ جو خو د بھی زرعی اجناس کا وسیع کا روبا ر کرتے ہیں کانام آرہا ہے، ان کی کمپنی کپاس کے غیرقانونی ہائبرڈ بیج کے کاروبار میں ملوث نکلی، کمپنی نے پاکستان میں ممنوعہ بی ٹی کاٹن بیج جس کا نام وائٹ گولڈ، رکھا فروخت کر دیا اور اسے کاشت کیا گیا جس سے دس ہزار ایکڑ فصل کپاس کو نقصان پہنچا۔
خان صا حب اکثرمافیاز کا ذکر کر تے رہتے ہیں انہیں اس قسم کے خودساختہ دانشوروں جن کا مشن خزانے کو لو ٹنے کے سوا کچھ نہیں کو نہ صرف فارغ کردینا چا ہئے بلکہ قانونی کا رروائی بھی کر نی چا ہیے۔ یہ خبر یں بھی گشت کر رہی ہیں کہ حکومت نے کپاس کی پیداوار بڑ ھانے اور قیمتیں مستحکم کر نے کے لیے سی پیک، کے تحت چین سے مد دمانگی ہے اور اس حوالے سے سی پیک اتھارٹی کے سر بر اہ لیفٹیننٹ جنر ل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو تیار کیا جا رہا ہے۔ گو یا کہ اب کپا س کی فصل جو ٹیکسٹا ئل مصنوعات کی صورت میں پاکستان کی سب سے بڑ ی بر آمد ہے۔ کی خاطر ہما ری فوجی قیادت اور سی پیک کو بھی فعال کیا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت کا زراعت کو فروغ دینے پر بظاہر بڑا زور ہے لیکن عملی طور پر معاملا ت مایوس کن ہیں۔ بہر حا ل غنیمت ہے کہ خان صا حب نے اپنے تین سالہ دور اقتدار میں چوتھے وزیر خزانہ شو کت تر ین کو آن بورڈ لے کر اچھا اور مثبت قدم اٹھا یا ہے، اگر انہیں آ ئند ہ دوبرس فری ہینڈ دیا گیا تو وہ کچھ کردکھا ئیں گے بصورت دیگر اکانومی کے حالا ت رجعت قہقر ی کا ہی شکا ر رہیں گے۔
قومی اسمبلی میں لیڈر آف دی اپو زیشن شہبازشر یف میر ی عیا دت کے لیے گھر تشریف لا ئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی جما عت نے اپوزیشن میں ہونے کے باوجود تر ین صاحب کے خلاف ہتھ ہولا رکھا ہواہے، جہاں تک بجٹ کے مندر جا ت کا تعلق ہے، اپو زیشن بجٹ کے حوالے سے حکومت پر تنقید کر رہی ہے لیکن ذا تی سطح پر ترین صاحب پر حملے نہیں کئے جا رہے۔ واضح رہے کہ اسحق ڈار بطور وزیر خزانہ تر ین صا حب کو دور رکھتے تھے لیکن اس دور میں بھی وہ برادر خوردکے بہت قر یب تھے۔