وہی ہوا جس کا خدشہ تھا، گیارہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اپنے بوجھ تلے ہی منہدم ہونے لگا ہے۔ بعض تجزیہ کار تو اب اس کے وجود سے ہی انکاری ہیں کیونکہ پی ڈی ایم فی الوقت اس پوزیشن میں نہیں رہی کہ متفقہ فیصلے کر سکے اور ان پر موثر طریقے سے عمل درآمد کر اسکے۔ ہم سب جمہوریت اور جمہو ری رویوں کا دم بھرتے ہیں، خاص طور پر اپوزیشن حقیقی جمہوریت کے احیا کی داعی ہے اوراسی لیے یہ اتحاد تشکیل دیا گیا لیکن عملی طور پر پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے مابین غیر مخلصانہ رویوں نے اتحاد کو یہاں تک پہنچا دیا ہے۔
اتحاد کے سربرا ہ مولانا فضل الرحمن کا بظاہر یہ اعلان کہ استعفے پہلے اور لانگ ما رچ بعد میں، پیپلزپارٹی کے موقف کے بالکل بر خلاف تھا اور پارٹی کی قیادت کو گلہ تھا کہ انہیں ا تنے کلیدی معاملے میں کیونکر اعتماد میں نہیں لیا گیا، دوسری طرف مسلم لیگ (ن) نے بھی کھل کر مولانا کے فیصلے کی تائید کر دی۔ یوں پارٹیوں کے اس اتحاد کے طفیل اسلام آباد میں یوسف رضا گیلانی کی سینٹ الیکشن پر جیت کا یہ سفر ایسی بے جا شرط پر منتہج ہو گیا۔ گیلانی کی کامیابی حکومت کی بڑی شکست تھی گویا کہ اپوزیشن کا اتحاد ایک خطرہ بن کر ابھرا لیکن جلدہی با ہمی اختلافات کی بنا پر اس غبارے سے پھونک نکلنا شروع ہو گئی۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو جو کل تک شیر وشکر تھے، ایک دوسرے کے بارے میں طنزیہ جملے کہنے لگے۔ مریم نواز کی بیماری اور کچھ لوگوں کی مصالحتی کوششوں کے نتیجے میں فی الحال سیز فائر ہو گیا ہے۔ لگتا ہے کہ ماحول مکدر کرنے کی ساری ذمہ داری مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے اپنے ناتواں کندھوں پر لے لی ہے۔ وہ اپنے مخصوص رعونت آمیز لہجے میں کہتے ہیں کہ بلاول کی اتنی عمر نہیں جتنا ہما را تجربہ ہے حالانکہ یہ دلیل انتہائی بودھی ہے، تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں نوجوان قیادتوں نے قوموں کی تقدیرکو بدل دیا۔ اب پیپلز پارٹی نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ پی ڈی ایم کے شو کاز نوٹس کا انتہائی سخت جواب دے گی۔
واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے کہا" سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی کے لیے حکومتی حلیف "باپ" سے ووٹ لینے پر پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سے وضاحت طلب کی ہے، انہیں دیا گیا نوٹس قانونی چارہ جوئی نہیں ہے، پی ڈی ایم ایک اتحاد ہے جس کے بیانیے کی نفی کی گئی اس پر اتحاد نے پوچھا ہے کہ یہ بتا دیں کہ آپ نے یہ کام کیوں کیا، یہ اتحاد کا اندرونی معاملہ ہے اور دو جماعتوں سے یہ بات پوچھی گئی ہے"۔
پی ڈی ایم کے سیکرٹری جنرل کا اعتراض اپنی جگہ بجا لیکن اس حوالے سے تحریری جواب طلبی، چہ معنی دارد۔ جیسا کہ پیپلز پارٹی کے چند رہنماؤں نے کہا ہے کہ اصولی طور پر اس حوالے سے زبانی طور پر گلہ شکوہ اور پوچھ گچھ ہو سکتی تھی لیکن جہاں تک تحریری جواب طلبی کا تعلق ہے ا س سے سیاسی نہیں بلکہ بیورو کریٹک رویئے کی بو آتی ہے۔ اب تو صورتحال اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ شاہد خاقان عباسی کو اے این پی کو منانے اور پیپلز پارٹی کو مزید سخت رویئے اختیار کرنے سے باز رکھنے کے لیے کوئی ذاتی کردار ادا کرنا پڑے گا بصورت دیگر میاں نوازشریف، آصف زرداری اور بلاول بھٹو کو مولانا فضل الرحمن سے مل کر سیز فائر کرانا ہو گا۔ مزید برآں آئندہ کے لیے اختلافی معاملات میڈیا کے بجائے افہام وتفہیم سے طے کرنے کے لیے ایس اوپیز وضع کرناہونگے۔
وزیراعظم عمران خان کے قریب ترین ساتھی جہانگیر ترین جو بوجوہ ان سے دور ہو گئے ہیں، آہستہ آہستہ اپنے پتے دکھانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ بدھ کو بینکنگ جرائم کورٹ نے ایف آئی اے کو شوگر سکینڈل میں نامزد جہانگیر ترین اوران کے بیٹے علی ترین کو گرفتار کرنے سے روک دیااور ان کی عبوری ضمانتوں میں آج10 اپریل تک کی توسیع کردی۔ پیشی کے بعد جہانگیر ترین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا " ایف آئی اے نے ان کے خلاف تین کیسز بنائے ہیں، شوگر کمیشن انکوائری کے بعد سے خاموش بیٹھا ہوں، ایک سال گزر چکا ہے لیکن ایک لفظ ادا نہیں کیا، کسی کومیری وفاداری کا اور کیا ثبوت چاہیے؟ میری وفاداری کا امتحان لیا جارہا ہے اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کیا ہے، میں چاہتا ہوں کہ میری بات کا جواب دیا جائے، ظلم بڑھتا جارہا ہے، میرے اور میرے بیٹے کے بینک اکاؤنٹس منجمد کردئیے گئے، ابھی مقدمے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تو بینک اکاؤنٹس کیوں منجمد کئے گئے؟ ملک کی 80 شوگر ملز میں سے انہیں صرف جہانگیر ترین نظر آیا، میں تو دوست تھا مجھے دشمنی کی طرف کیوں دھکیلا جارہا ہے، اس لئے مجھے دوست ہی رکھو، وقت آگیا ہے کہ سازشی عناصر کو وزیر اعظم عمران خان، مخلص ووٹرزاور دیگر رہنما خود بے نقاب کریں "۔
انہوں نے اس بات کی بھی ترد ید کی کہ وہ اپنے برادر نسبتی مخدوم احمد محمو د کے ذریعے آ صف زرداری سے ملاقات کرنے والے ہیں اور واضح الفاظ میں کہا کہ وہ اب بھی تحریک انصاف کے مخلص رکن ہیں۔ لیکن سب سے زیا دہ غور طلب بات تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی راجہ ریاض، غلام بی بی بھروانہ، غلام محمد لالی، نعمان لنگڑیال، زوار وڑائچ، نذیر بلوچ، اسلم بھروانہ، عبدالحئی دستی، سلمان نعیم، لالہ طاہررندھاوااور خرم لغاری کا ان کے ہمراہ عدالت میں آنا تھا۔ علاوہ ازیں گزشتہ روز پہلے علی ترین اور بعد میں جہانگیر ترین ایف آئی اے میں اپنے وکلا کے ہمراہ پیش ہوئے اور اپنے اوپر مبینہ منی لانڈرنگ کے الزامات سے متعلق ریکارڈ پیش کیا۔ ایف آئی اے نے انہیں سوالات تھما دئیے ہیں۔ ایف آئی اے جہانگیر ترین سے دو اور علی ترین سے ایک کیس میں تحقیقات کر رہی ہے۔
ترین صاحب کو اچھی طرح علم ہے کہ خان صاحب سپر بیوروکریٹ اور اپنے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے ایما پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ خان صاحب کو ایک بیورو کریٹ کی وجہ سے اپنے سابق دست راست سے مخاصمت کی بھا ری قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے کیونکہ جہانگیر ترین سیاسی طور پر پی ٹی آئی میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے سا تھ بھی ان کے تعلقات خوشگوار بتائے جاتے ہیں۔