وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر عوام کی ٹیلی فون کالز سننے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ ، عوام بھی یہی کہتے ہونگے۔۔۔۔
کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائوں
ہزاروں ہی شکوے ہیں کیا کیا سنائوں
کیونکہ عوام کی روز مرہ زندگی کے معاملات اتنے گھمبیرہوچکے ہیں کہ اب یہ فونز پر سننے کا نہیں بلکہ عمل کا وقت ہے۔ ویسے بھی پارلیمانی نظام میں عوام کی نمائندگی ارکان اسمبلی کرتے ہیں لیکن ہم ایسے نام نہاد پارلیمانی جمہوری دور میں رہ رہے ہیں جہاں وزیراعظم اور ان کی ٹیم عوام کے منتخب ایوان میں جوابدہی سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ وہاں 'سب اچھا ہے' کی آوازوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی تلخ باتیں بھی سننا پڑتی ہیں۔ تمام تر دعوئوں کے باوجود اب ہماری اقتصادی صورتحال اتنی بدحال ہو گئی ہے کہ آئی ایم ایف سے پچاس کروڑ ڈالر کی قسط حاصل کرنے کے لیے حکومت نے تین آرڈیننسوں کے ذریعے منی بجٹ لانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت ایف بی آر کی طرف سے کارپوریٹ ٹیکسز میں استثنیٰ اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ ایک خودکار نظام کے تحت ہوگا۔ گویا کہ حکومت بھی چاہے تو بجلی کی قیمتوں میں اضافے کو نہیں روک سکے گی۔ منی بجٹ میں 290 ارب روپے کے اضافی ٹیکسز، نیز 140 ارب روپے کے انکم ٹیکس کی چھوٹ ختم اور دوسرے آرڈیننس کے ذریعے بجلی کے گردشی قرضے کنٹرول کرنے کے لیے صارفین پر 150 ارب روپے کا سرچارج لگایا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ آئی ایم ایف کی بدھ کو پاکستان حکام کے ساتھ میٹنگ میں پچاس کروڑ ڈالر کی قسط کی منظوری کے لیے کیا جا رہا ہے۔
ان ہنگامی اقدامات سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اس وقت حالات انتہائی مخدوش ہیں اور حکومت کے لیے آئی ایم ایف سے قسطلینے کی خاطر بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے سامنے سجدہ سہو بھی کرنا پڑرہا ہے۔ اس وقت زمینی حقائق یہ ہیں کہ مہنگائی، کسادبازاری اور بے روزگاری کی بنا پر عام آدمی کا جینا دوبھر ہوتا جا رہا ہے۔ آٹا، چینی، گھی، دالیں اور روز مرہ استعمال کی دیگر اشیاء سب کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ اس پر مستزاد رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ ذخیرہ اندوز اور منافع خور من مانی کر رہے ہیں اور بیچاری حکومت ان مافیاز کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ حکومت کے بے بس ہونے کا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ بنیادی اقتصادیات کے بارے میں پالیسی معاملات بھی اسمبلی میں لے جانے کے بجائے صدارتی آرڈیننسوں کے ذریعے نافذ کیے جا رہے ہیں، حالانکہ حکومت کو اس ضمن میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا جہاں نہ صرف اپوزیشن بلکہ حکومتی اتحاد سے تعلق رکھنے والے ارکان کو بھی بحث میں حصہ لینے کا موقع ملتا لیکن کہنے کو تو یہ پارلیمانی جمہوریت ہے لیکن عملی طور پر نیم دروں نیم بروں یہ صدارتی، پارلیمانی اور مقتدر حلقوں کا ملغوبہ ہائی برڈ نظام بن کر رہ گیا ہے۔ وزیراعظم بھی قوم کو وعظ کرنے پر ہی مامور ہیں۔ چند ہفتے قبل بھی وزیر اعظم عمران خان نے عوام سے براہ راست ٹیلی فونک گفتگو کی تھی، بعض ناقدین کا کہنا تھا عوام کے تو نمبر نہیں ملے البتہ 'اپنوں 'کے ضرور ملے۔
دوسری طرف کورونا وائرس کی تیسری لہر تیزی سے پھیل رہی ہے اور ملک بھر میں انفیکشن کا شکار ہونے والوں کی شرح ساڑھے نو فیصد سے بھی زیادہ ہوگئی ہے جو خطرے کی گھنٹی ہے۔ ترجمان محکمہ صحت کے مطابق لاہور میں کورونا کیسز مثبت آنے کی شرح 14 فیصد ہے۔ ترجمان نے اسے انتہائی تشویشناک قرار دیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کاکورونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔ اس بات کی تصدیق وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر فیصل سلطان نے ٹویٹ کرتے ہوئے کی ہے۔ ڈاکٹر فیصل کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے خود کو اپنے گھر میں قرنطینہ کر لیا ہے۔ ماضی کے برعکس جب حکومت نے کورونا وبا کو اچھے طریقے سے کنٹرول کیا اس مرتبہ یہ موذی مرض جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا ہے۔ اگرچہ چینی ویکسین ہیلتھ ورکرز اور بزرگوں کو لگائی جا رہی ہے لیکن ویکسین درآمد کرنے کے معاملے میں حکومت نے کسی عجلت کا مظاہرہ نہیں کیا جبکہ آرڈیننس جاری کرنے اور اداروں سے سینگ پھنسانے میں ذرا دیر نہیں لگاتی۔
حکومت آئی ایم ایف کے آگے اس حد تک بے بسی کی تصویر بنی نظر آتی ہے کہ بعض کلیدی معاملات پر بھی بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی شرائط تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔ آئی ایم ایف کی یہ شرط نئی نہیں کہ سٹیٹ بینک خودمختار ادارے کے طور پر کام کرے لیکن حکومتیں یہ بات مدنظر رکھتی ہیں کہ خود مختاری سے مراد مادرپدر آزاد اور پارلیمنٹ کے کنڑول سے مبرا ہونا نہیں چاہئے۔ اب جا کر جبکہ سٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر ہیں، جو یہاں تقرری سے پہلے آئی ایم ایف کے اعلیٰ عہدیدار تھے، حکومت پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اس نے سٹیٹ بینک کو بھی آئی ایم ایف کے کنٹرول میں دے دیا ہے۔ یقیناً ایسا نہیں ہوگا۔ تاہم حکومت کے حالیہ اقدامات سے اپوزیشن کے اس پراپیگنڈاکو تقویت حاصل ہوئی ہے کہ معاملات پر اس کی گرفت کمزور پڑتی جا رہی ہے۔