چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے بھری محفل میں جو پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس تھا بڑے جوشیلے انداز میں پی ڈی ایم کے سیکرٹری شاہد خاقان عباسی کا جاری کر دہ شوکاز نوٹس پھاڑ دیا۔ واضح رہے کہ پی ڈی ایم نے پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کے انتخاب میں بلوچستان کی حکمران جماعت باپ، کی ووٹو ں کی عملی طور پر مدد حاصل کرنے پر نوٹس جا ری کیا تھا۔ گویا کہ بلاول نے اپنے نانا کی طر ح ڈرامائی انداز اختیار کر نے کی روایت کو اپنایا، ذوالفقار علی بھٹو نے سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے اقوام متحدہ کے اجلاس میں پولینڈ کی ایک مجوزہ قرارداد جس کا بظاہر مقصد پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی سمجھوتہ کرانا تھا، پھاڑ دی تھی۔ بھٹو کے نا قدین آ ج تک انہیں قرارداد کا مسودہ پھاڑنے کی بنا پر پاکستان کو دولخت کر نے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں حالانکہ پاکستان پہلے ہی ٹوٹ چکا تھا۔
سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد بلاول بھٹو نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ پیپلزپارٹی نے شوکاز نوٹس کو مسترد کر دیا ہے اور کہا کہ پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کے تمام عہدوں سے مستعفی ہو گئی ہے۔ بلاول نے دعویٰ کیاکہ پی ڈی ایم انہوں نے بنائی اور تسلیم کیا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے بغیر اتحاد نہیں چل سکتا لہٰذا شاہد خاقان عبا سی اپنے بیوروکریٹک رویئے پر معذ رت کریں اور انہیں فی الفور ایسا کرنا چاہیے۔ پیپلزپارٹی اور اے این پی کے بغیر پی ڈی ایم نہیں رہے گی۔ عوامی نیشنل پارٹی نے شوکاز نوٹس ملنے کے بعد اپوزیشن کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ سے را ستے جداکر کے اتحاد کی قبر کھو دی اور بلاول بھٹو کی زیر صدارت ہونے والے پیپلزپارٹی کے اجلاس نے اس کی تدفین کر دی ہے۔ بلاول بھٹو نے کہا ہم اپوزیشن کے خلاف اپوزیشن کی سیاست کی مذمت کرتے ہیں۔ ان کے مطابق آخری وقت پر استعفوں کا فیصلہ لانگ مارچ کے سا تھ نتھی کرنا اپوزیشن کے خلاف سازش تھی اور اس کا فائدہ حکومت کوہوا۔ بلاول نے یہ کہہ کرکہ پی ڈی ایم، اے این پی اور پیپلزپارٹی سے غیر مشروط معافی مانگے، واپسی کا راستہ کھلا رکھا ہے۔
دراصل پی ڈی ایم کا پیپلزپارٹی اوراے این پی پر اعتراض کسی حد تک جا ئز ہے کہ بغیر مشاورت کے ایک ایسی سیاسی جماعت کو گود میں بٹھا لیا گیا جس کے بارے میں سب کو معلوم ہے کہ اس کا وجود ہی مفاد پر ستوں کو اکٹھا کر کے اقتدار میں لا کر یا کچھ لوگوں کو باہر رکھ کر جیسا کہ یوسف رضا گیلانی کے کیس میں کیا گیا اسٹیبلشمنٹ نے اپنا الو سیدھا کیا تھا۔ شوکاز نوٹس جاری کرنے والے حضرات بالخصوص سابق وزیراعظم، مسلم لیگ ن کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی جو پی ڈی ایم کے سیکرٹری جنرل بھی ہیں کے دستخطوں نے جلتی پر تیل کاکام کیا۔ مخالفین کے مطابق نفسیاتی طور پر تصور کیا گیا کہ مسلم لیگ (ن) نے پی ڈی ایم کی آ ڑ میں اپنے خبث باطن کا اظہا ر کیا ہے۔ بلاول بھٹو نے متعد د مثالیں بھی دیں جہاں بقول ان کے مسلم لیگ (ن) نے پی ڈی ایم میں اتحا دی ہونے کے باوجود یکطرفہ فیصلے کئے، پنجاب میں سینٹ کی 5 نشستیں پی ٹی آئی کو دی گئیں لیکن پیپلزپارٹی نے کوئی شکایت کی اور نہ ہی پی ڈی ایم نے کو ئی نوٹس لیا۔ عزت اور برابری کے ساتھ سیاست کرنا جانتے ہیں اور کرتے رہیں گے، حکومت کو آرام سے بیٹھنے دیں گے اور نہ ہی بیٹھنے دیا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ اپوزیشن کے د رمیان ورکنگ ریلیشن شپ ہو تاتاکہ پارلیمان کے اندر اور باہر مل کر حکومت کی مخالفت کریں، جنہوں نے پارلیمان سے استعفے دینا ہیں دے دیں لیکن کسی پارٹی کو ڈکٹیٹ نہ کریں، ہم پر کوئی اپنے فیصلے مسلط نہ کرے، استعفے آخری ہتھیار ہونے چاہئیں، یہی ہمارا مؤقف رہے گا، یہ پی پی کا تاریخی موقف رہا ہے اور درست ثابت ہوا ہے، صرف ضمنی الیکشن میں حصہ لے کر پی ڈی ایم نے حکومت کو ایکسپوز کردیا، دنیا کو دکھادیا کہ عوام حکومت کے نہیں اپوزیشن کے ساتھ ہیں۔ جیساکہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے رہبر میاں نواز شر یف کو اپو زیشن الا ئنس کو بن کھلے مر جھا نے سے بچانے کے لئے خود متحرک ہونا پڑے گا۔
دوسری طرف پی ڈی ایم کے سیکرٹری جنرل شاہد خاقان عباسی نے ٹی وی اینکرز سے گفتگو میں کہا "پیپلز پارٹی کے سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں میرا خط پھاڑ کر پھینکا گیا ہے تو میرا جواب بھی ہے خدا حافظ، حکومت کی مدد سے اپوزیشن لیڈر بننے والے معافی مانگیں۔ ان کا کہنا تھاکہ معافی کس بات کی؟ مضحکہ خیز باتیں نہ کریں، بلاول کو ذمہ داری سے بات کرنی چاہیے، تماشا نہ لگائیں، بلاول نے جوباتیں کی ہیں اس سے اعتماد بحال نہیں ہوگا، پیپلزپارٹی ہمیں وضاحت دیتی اور اپنی مجبوری بتاتی کہ اس کوکرسی چاہیے تھی، جو جماعت اپنی زبان سے پھر جائے وہ پی ڈی ایم میں نہیں رہ سکتی، پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم میں رہنا ہے تو اپنا اعتماد بحال کرے۔ انہوں نے مزید کہا مسلم لیگ ن اسٹیبلشمنٹ سے سودے بازی نہیں کرے گی، ہم نے پیپلزپارٹی اور اے این پی سے اتحاد کو ٹھیس پہنچانے کی وضاحت مانگی تھی جو ابھی تک نہیں آئی"۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے گزشتہ روز پی ڈی ایم کا اجلاس اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر طلب کیا جس میں 8 اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا، اجلاس میں پیپلزپارٹی اور اے این پی کو دعوت نہیں دی گئی تھی۔
بزرگ صحافی نظریاتی طور پر کمیونسٹ خیالات کے حامل اور انسانی حقوق کے علمبردار محترم ابن عبد الرحمن جو آئی اے رحمن کے نام سے مشہور ہیں کانو ے برس کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ آئی اے رحمن اگر چہ کافی عرصے سے ایک انگریزی اخبار میں ہفتہ وار کالم لکھنے اور بعض سیمینار میں شر کت تک محدود ہو گئے تھے، تاہم ہر فورم پر پاکستان میں جمہوری اور انسانی حقوق کے حوالے سے اپنے روشن خیال نظریات کا پر چار کرتے رہتے تھے۔ میرا ان سے قر یبی تعلق رہا۔ آئی اے رحمن پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر بھی رہے اور اس کے بعد وہ ہیومن رائٹس کمیشن آ ف پاکستان میں بطور ڈائریکٹر کام کرتے رہے۔ بطور ہیومن را ئٹس ایکٹوسٹ انہوں نے گرانقدرخدمات انجام دیں جن کے اعتراف میں انہیں محترمہ عاصمہ جہانگیر کی بھرپور حمایت حاصل رہی۔ ان کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ انتہائی سادہ زند گی گزارتے تھے۔ جب میں حمید نظامی روڈ (ٹیمپل روڈ) پر رہتا تھا توان کا مکان بھی اسی سڑ ک پر تھا اور اکثر میں نے دیکھا وہ پیدل ہی دفتر جا تے اور آتے تھے۔ ان کے بر خوردار اشعر رحمن بھی منجھے ہوئے صحافی اور ڈان لاہور کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر رہے ہیں۔ جمہوری جدوجہد اور انسانی حقوق کے حوالے سے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رہیں گی۔