Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Phir Irtaash?

Phir Irtaash?

ایف آئی اے کے سابق ڈی جی بشیر میمن نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی روداد بتا کر سیاست میں خاصا ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ بقول ان کے " اس ملاقات میں وزیر قانون فروغ نسیم، وزیر مملکت داخلہ و احتساب شہزاد اکبر اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان بھی موجود تھے۔ بشیر میمن کے مطابق عمران خان نے ان سے کہا وہ پہلے بھی بڑے اچھے کیس بناتے رہے ہیں، اس کیس میں بھی ہمت کرنی ہے اور اچھا کیس بنانا ہے۔ بشیر احمد میمن نے دعویٰ کیا کہ شہزاد اکبر کے دفتر میں جاکر انہیں پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ وزیر اعظم اندر کس کیس اور شخصیت کے متعلق تحقیقات کی بات کر رہے تھے۔ بشیر احمد میمن نے شہزاد اکبر اور اعظم خان دونوں سے سوال کیاآپ سپریم کورٹ کے ایک سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور انکی اہلیہ کے خلاف ایف آئی اے کی تحقیقات کی بات کر رہے ہیں، آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟ جس پر انہوں نے کہا ہمارے پاس کافی چیزیں ہیں، ریکارڈ موجود ہے آپ بس بسم اللہ کریں۔ بشیراحمد میمن کے بقول انہوں نے دونوں کو بتایا کہ ایف آئی اے اعلیٰ عدلیہ سمیت کسی جج کے خلاف تحقیقات نہیں کر سکتی، جب بات قانونی نکتے پررک گئی کہ ایف آئی اے کیسے سپریم کورٹ کے ایک سینئر اورحاضر سروسر س جج کے خلاف تحقیقات کر سکتی ہے تو اعظم خان اور شہزاد اکبر کہنے لگے کہ چلیں وزیر قانون کے پاس چلتے ہیں، جو آپ کو مزید اس پر بتا سکتے ہیں۔ ایف آئی اے کے سابق سربراہ کے مطابق وہ تینوں وہاں سے اٹھے اور وزیر قانون فروغ نسیم کے دفتر میں چلے گئے، جہاں پر ایف بی آر کے کمشنرانکم ٹیکس ڈاکٹر اشفاق احمد بھی پہلے سے ہی موجود تھے۔ بشیر میمن نے مزید کہا اس حوالے سے انہوں نے واضح انکارکر دیا اور کہا کسی جج کے خلاف کارروائی کا اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس ہے، ایف آئی اے ایسا نہیں کر سکتی لیکن حکومتی عہدیدار بضد رہے۔ ایک ماہ بعد شہزاد اکبر نے ان سے قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے اہل خانہ کی سفری تفصیلات مانگیں۔ لیکن انہوں نے دینے سے انکار کر دیا۔ بشیر میمن نے مزید الزامات عائد کئے وزیرِ اعظمعمران خان سابق وزیرِ اعظم نواز شریف، مریم نواز، شہباز شریف، خواجہ آصف، جاوید لطیف، رانا ثنا اللہ سمیت دیگر افراد کے خلاف سخت مقدمات چاہتے تھے اور انہیں بار بار ایسا کرنے کے لئے کہا گیا"۔

دوسری طرف وزیراعظم عمران خان نے سینئر صحافیوں کیساتھ گفتگو میں بشیر میمن کے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیدیا۔ ان کا کہنا تھا بشیر میمن جو بھی کہہ رہے ہیں، وہ جھوٹ ہے۔ میں نے انہیں جسٹس قاضیٰ فائز عیسیٰ، مریم نواز شریف اور دیگر کیخلاف مقدمات بنانے کا نہیں کہا۔ ریفرنس فائل کرنا بشیرمیمن کا کام نہیں تھا، انہیں کیوں کہتا؟ بشیر میمن کو خواجہ آصف کے اقامے کی تحقیقات کا کہا تھا جس کا فیصلہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا تھا، اس سے قبل میں انہیں جانتا تک نہیں تھا۔

اپوزیشن نے اس معاملے کو آڑے ہاتھوں لیا ہے کہ بشیر میمن کے دعوے کے مطابق وزیر اعظم ڈی جی ایف آئی کی پیٹھ ٹھونک کر کہتے ہیں کہ آپ ایک انتہائی قابل آدمی ہیں اور آپ میں یہ صلاحیت ہے کہ نواز شریف اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مکو ٹھپیں۔ فطری طور پر اپوزیشن ان انکشافات پر سراپا احتجاج ہے، اس کے مطابق جو الزامات اپوزیشن موجودہ حکومت پر لگاتی ہے کہ حزب اختلاف کی قیادت اور رہنماؤں کے خلاف کارروائیوں کیلئے براہ راست وزیر اعظم عمران خان براہ راست حکم دیتے ہیں وہ درست ثابت ہو رہے ہیں۔ گویا کہ اپوزیشن کے مطابق تو وزیر اعظم ہاؤس ان بے نامی کارروائیوں کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ یہ کسی بھی جمہوری ملک کی حکومت کیلئے قابل فخر بات نہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ یہ حضرات اتنے سنگین الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے عبوری طور پر ہی سہی اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیتے، بجائے اس کے شہزاد اکبر نے تو بشیر میمن کو 50 کروڑ روپے کا قانونی نوٹس بھیج دیا ہے۔ فروغ نسیم جو پہلے ہی ایک متنازعہ وزیر ہیں اصرار کر رہے ہیں کہ بشیر میمن کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ خود لڑوں گا۔

نہ جانے کیوں خان صاحب کے دور حکومت کے تقریباً تین سال اس قسم کے انہوں نے اور غیرروایتی واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔ مثال کے طور پر جو کچھ سینیٹ کے انتخاب میں ہوا، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی قومی اسمبلی میں جہاں حکومت کو عددی اکثریت حاصل ہے، اپوزیشن میں ہونے کے باوجود حکومتی ووٹوں کے ذریعے ہی سینیٹ میں لیڈر آف اپوزیشن منتخب ہو گئے۔ اسی طرح تحریک لبیک پاکستان کے حالیہ دھرنے کا اختتام کچھ اس طرح ہوا کہ سانپ بھی نہ مرا اور لاٹھی بھی ٹوٹ گئی جبکہ 2017 میں جب ٹی ایل پی کے بانی علامہ خادم رضوی کی کال پردو ہفتوں سے زائد فیض آبادمیں دھرنا دیا گیا تھا لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی کہ ان سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ اس وقت بھی پاک فوج کے کلیدی رول سے اس دھرنے کو ختم کر دیا گیا تھا۔

نام نہاد اپوزیشن الائنس پی ڈی ایم جو مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان اختلافات کی نذر ہو گیا ہے اور خان صاحب اپوزیشن کی یہ حالت زار دیکھ کر یقیناً مزے لے رہے ہیں۔ صورتحال اتنی دگرگوں ہے کہ ایک طرف تو مولانا ہیں وہ کسی بھی طرح بہلا پھسلا کر پیپلزپارٹی کو اتحاد میں واپس لانا چاہتے ہیں جبکہ بلاول بھٹو اور آصف زرداری واپس آنے کو تیار نہیں ہیں اور نہ ہی اپوزیشن کے رہنماؤں بالخصو ص شاہد خاقا ن عباسی سیاستدان سے زیا دہ بیوروکر یٹ کی طر ح ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں اوراپنے شو کا ز کے نوٹس کے جواب پر اصرار کر رہے ہیں۔ اپوزیشن کی جماعتوں میں یہ گھڑ مس خان صاحب کو سوٹ کرتا ہے کہ ان کے لیے ستے ہی خیراں ہیں لیکن اس کے باوجود یہ بات پوری طر ح عیاں ہو گئی ہے کہ پی ٹی آ ئی کی حکومت کے خلا ف اپوزیشن کا اتحا د زمینی حقائق ان کے حق میں ہونے کے باوجود ٹھس ہو گیا ہے۔ موجودہ حکومت کی ا س سے بڑ ی اور کیا خو ش قسمتی ہو سکتی ہے کہ ان کولانے والے اب بھی ان کے سا تھ ہی ہیں اور اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ حالیہ مہینوں میں سینیٹ الیکشن، قاضی فائز عیسیٰ کیس، تحریک لبیک کے احتجاج سمیت جتنے بھی اہم واقعا ت ہو ئے ہیں فوجی قیا دت کا رول غیر جانبدار ہی رہا ہے۔