نیب اس لحاظ سے بدقسمت ادارہ ہے کہ اس کی کارکردگی پر اپوزیشن ہمیشہ تنقید کرتی رہی ہے کہ یہ حکومت وقت کا آلہ کار ہے اور انتقامی کارروائیوں پر احتساب کا ملمع چڑھا کر ہر حکومت کے مفادات کی آبیاری کرتا ہے۔ اس کے علاوہ تاجراور صنعتکار بھی نیب سے شاکی رہتے ہیں، اب اس طویل فہرست میں خود وزیراعظم عمران خان بھی شامل ہوگئے ہیں "اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش"۔ وزیراعظم کا تازہ ارشاد ہے کہ نیب 23 سال سے کام کر رہا ہے(عمران خان کو بھی سیاست میں قریباً اتنا عرصہ ہو چکا ہے) لیکن کرپشن روکنے میں ناکام رہا ہے جس کی بنیادی وجہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ صرف چھوٹے لوگوں کی گرفت کی جاتی ہے جبکہ بڑے لوگ صاف بچ نکلتے ہیں، اگر طاقتور کو ہاتھ ڈالا جاتا تو کرپشن ختم ہو جاتی۔ انہوں نے اس ضمن میں چین کا فارمولہ اپنانے پر زور دیا جہاں ان کے مطابق بڑی مچھلیوں کے خلاف کارروائی کی گئی جن میں 425 کے قریب وزیر کی سطح کے لوگوں کو کرپشن پر سزائیں دی گئی ہیں۔ خان صاحب احتساب کے حوالے سے اکثر چین کی ہی مثالیں دیتے ہیں حالانکہ اس کی ترقی کے ماڈل کو فالو کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسری طرف چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال سے بھی نہیں رہا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے خلاف بلاجواز، جارحانہ اور منظم پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے یعنی کہ
دیکھا جو تیرکھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
وزیراعظم کی تنقید ان سے برداشت نہیں ہوئی۔ بہرحال اس مرحلے پر خان صاحب کے ریمارکس خاصے معنی خیز ہیں اور چیئرمین نیب کا جواب آں غزل کے طور پر یہ کہنا کہ "ہمارے خلاف جارحانہ اور منظم پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ کئی دفعہ کہہ چکا ہوں مثبت تنقید بے شک کریں، بلاجواز تنقید نہ کریں، تنقید وہی کرتے ہیں جنہیں آئین و قانون کا نہیں پتہ، یہ لوگ جب روسٹرم پرآتے ہیں تو کہتے ہیں نیب کا قانون بڑا ڈریکونین ہے، روسٹرم پر آنے والا بندہ سمجھتا ہے کہ اس کو ڈریکونین والا جملہ ضرور کہنا ہے"، وقت کے لحاظ سے خاصا اہم ہے۔ انہوں نے مصلحتاً یہ نشاندہی نہیں کی کہ آخر نیب کے خلاف یہ مہم کون چلا رہا ہے۔ ظاہر ہے چیئرمین نیب، خان صاحب کا نام تو نہیں لے سکتے تھے لیکن انہوں نے اصل سوال نہیں کیا کہ کیونکر اس مرحلے پر یہ بے بنیاد پراپیگنڈا شروع کیا گیا ہے۔ اب تک تو نیب کے لمبے ہاتھ اپوزیشن رہنماوں کی گردنوں تک ہی پہنچے ہیں اور بالعموم حکومتی ارکان بے لاگ احتساب کرنے والے ادارے کی دسترس سے باہر ہی رہے ہیں۔
تاہم اب جہانگیر ترین کی قیادت میں بننے والے ہم خیال گروپ جو32ارکان صوبائی اسمبلی کی حمایت کا دعویٰ کرتا ہے کو بھی غالباً نکیل ڈالنے کا وقت آگیا ہے۔ ہنوز حکومت ترین گروپ سے نرمی اور صلح جوئی سے کام لے رہی ہے۔ جمعہ کو ہی وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اس گروپ کے چیدہ افراد کو ظہرانے پر مدعو کیا اور ان کے گلے شکوے سنے جو میڈیا کے ایک حصے کے مطابق کوئی خاص نہیں تھے، دوسری طرف اس گروپ کے چند ارکان کی وزیراعظم سے بھی ملاقات ہوئی تھی جس میں انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ جہانگیر ترین سمیت کسی کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں ہوگی لیکن سابق دست راست کے بارے میں یہ واضح کر دیا کہ ترین صاحب بھی قانون سے بالاتر نہیں ہونگے۔ ظاہر ہے کہ نیب کے بارے میں اس نئی لائن سے کئی معانی اخذکیے جا سکتے ہیں۔ زیادہ تر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ خان صاحب کی طرف سے یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ اب نیب کا استعمال پارٹی کی بعض بڑی مچھلیوں کے خلاف بھی ہو سکتا ہے جن کے خلاف اب تک تو غالباً خان صاحب کے اشارے پر ہی کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی، ویسے اب تک وزیراعظم اپنی پارٹی میں اٹھنے والی بغاوت سے انتقامی ہتھکنڈوں کے بجائے سیاسی انداز میں ہی نبردآزما ہوئے ہیں۔
مثال کے طور پر شوگر بحران کی انکوائری سے نیب کو دور رکھا گیا ہے اور اس حوالے سے ایف آئی اے سرگرم عمل ہے۔ اس طرح ترین صاحب کا بنیادی مطالبہ بظاہر مان لیا گیا۔ بہرحال عمران خان پاکستانی سیاست کی دیرینہ روایت کہ مخالفین کے خلاف ڈنڈے اور گاجر دونوں استعمال کی جائیں کوبروئے کار لا رہے ہیں گویا کہ ان کے نئے پاکستان میں پرانے پاکستان والے ہتھکنڈے ہی استعمال کیے جا رہے ہیں۔