کا فی عر صے بعد کسی پاکستانی حکمران کا کو ئی غیر ملکی دورہ ہوا ہے جسے کسی حدتک کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے۔ سعودی ولی عہد اور عملی طور پر حکمران شہزادہ محمد بن سلمان جنہیں ایم بی ایس بھی کہا جا تاہے اور پا ک فوج کے سر براہ جنر ل قمر جا وید باجو ہ کی ان کے چار روزہ دورے کے موقع پر دوطرفہ ملاقات سے ہی یہ انداز ہ ہو گیا تھا کہ متذ کر ہ دورہ سعو دی عرب پر ٹھونسا نہیں گیا بلکہ سعودی حکومت کی اس خواہش کا مظہر تھا کہ پاکستان کے سا تھ تعلقا ت بہتر بنا ئے جا ئیں۔ غالبا ً اسی بنا پر خان صا حب کے جمعتہ الوداع کے روز سعودی عرب پہنچنے سے پہلے ہی قر یبا ً تمام معاملا ت پر عمومی اتفاق رائے پایا جا تا تھا لیکن دونوں ملکوں کے درمیان تعلقا ت کو بہتر بنا نے کے لیے سب سے اہم سپر یم کوآر ڈ ینیشن کونسل کے قیام کا فیصلہ ہے، اس کے علا وہ اقتصا دی، دفا عی اور سٹر ٹیجک تعلقا ت پر مبنی مفا ہمت کی پا نچ یا دداشتوں پر بھی دستخط ہو ئے۔
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق "پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان رابطہ کونسل کے قیام سمیت پانچ اہم معاہدوں پر دستخط ہوئے، ایک معاہدے کی رو سے سعودی عرب، پاکستان کو سعودی ڈویلپمنٹ فنڈ سے 50 کروڑ ڈالر کی رقم فراہم کرے گا جو پاکستان میں انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ، آبی وسائل کی ترقی اور ہائیڈرو پاور ڈویلپمنٹ کے لیے خرچ کی جائے گی۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس ملاقات میں افغان امن عمل سمیت خطے کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا، سعودی عرب اور پاکستان کے مابین ایک اعلیٰ سطح کی رابطہ کونسل کا قیام معرض وجود میں آئے گا، جس کے تحت ہمارے درمیان مستقبل میں ادارہ جاتی سطح پر ایک 'سٹرکچرڈ انگیج منٹ پلان' ترتیب دیا گیا ہے، ہم نے باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں بالخصوص توانائی، اقتصادی تعاون، سرمایہ کاری اور روزگار کےمواقع میں آگے بڑھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے، سعودی ولی عہد نے ہمیں سعودی عرب کے 'وژن 2030' کے خدوخال سے تفصیلی طور پر آگاہ کیا ہے، ان کے مطابق اس وژن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہیں اگلے دس سال کے دوران ایک کروڑ افرادی قوت درکار ہوگی۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ مطلوبہ افرادی قوت کا زیادہ حصہ پاکستان سے لیا جائے گا، علاوہ ازیں دو معاہدے بالترتیب قیدیوں کے تبادلے اور جرائم کی بیخ کنی کے حوالے سے طے پائے جن پر وزیر داخلہ شیخ رشید نے دستخط کیے۔
حالیہ دورے کی اصل اہمیت سعودی عر ب اور پاکستان کے درمیان دفاعی تعاون کا فروغ ہے۔ اسی بنا پر جنر ل باجوہ کا چندروز پہلے ہی سعودی عرب مد عو ہونا خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ آرمی چیف کے چار روز ہ دورے میں جاری کر دہ بیانات کے مطابق خصوصی اہمیت علاقائی امن اور سکیورٹی کے لیے دو طرفہ تعاون کو دی گئی۔ اس ضمن میں سعو دی عر ب کے نائب وزیر دفاع خالد بن سلمان کی جنرل باجوہ کے سا تھ ملاقات کے موقع پر ولی عہد کی موجودگی کودی گئی۔
واضح رہے کہ قریبا ً ایک برس سے زا ئد عر صے سے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقا ت میں پہلے جیسی گرمجوشی نہیں رہی تھی، سب سے پہلے تعلقا ت کو دھچکا اس وقت لگا جب پاکستان نے یمن کی جنگ میں سعودی عرب کا دامے درمے سخنے سا تھ دینے سے لیت ولعل سے کام لیا۔ اس پر مستز ادیہ کہ وزیر خا رجہ شا ہ محمو د قر یشی نے کھل کر یہ گلہ کیا کہ سعودی عرب مسئلہ کشمیر کے بارے میں اس طر ح پاکستان کا سا تھ نہیں دے رہا جیسے اسے دینا چا ہیے تھا۔ علا وہ ازیں اسلامی کا نفر نس تنظیم اوآ ئی سی جس کا تاریخی طور پر سعو دی عرب ہی مدارالمہام ہے اس کی موجودگی میں ملا ئیشیا کے اس وقت کے وزیر اعظم مہا تیر محمد کی سر براہی میں ایک متبا دل اسلامی فورم تشکیل کا سا تھ دیا تاہم خو ش قسمتی سے یہ بیل منڈھے نہ چڑ سکی۔ اسی دوران سعودی عر ب نے پاکستان کو جو قر ضہ دے رکھا تھا اس میں سے ایک ارب ڈالر واپس مانگ لیا۔ یہ رقم پاکستان کوچین سے ادھار لے کر ریا ض کو واپس کرنا پڑ ی۔
یہاں یہ سوال پید اہو تا ہے کہ سعو دی عرب کو اس مر حلے پر پاکستان کے سا تھ تجد ید تعلقا ت کی ضرورت کیوں پیش آ ئی۔ بعض مبصر ین کے مطابق گزشتہ برس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی انتخابات میں شکست فاش ہونے کی وجہ سے محمد بن سلمان اپنے انتہا ئی قا بل اعتما د ساتھی سے محروم ہو گئے اور ان کی جگہ جو با ئیڈن نے لے لی جو سعودی عرب کے لیے کو ئی نر م گو شہ نہیں رکھتے بلکہ سعودی صحا فی عدنان خشو گی کے قا تلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا کئی مر تبہ عند یہ دے چکے ہیں۔
سعودی عر ب بھی دوستوں کے بارے میں اپنی سب مانوں کی رٹ میں تبد یلی لے آیا ہے۔ کوئی پاکستانی حکمران چار برس کے بعد ریاض کا باقاعدہ سرکاری دورہ کررہا ہے۔ یہ صو رتحال یقینا پاکستان کے لیے سودمند ہے اوروہ اس خطے میں فائد ہ اٹھانے کی پو زیشن میں ہے کیونکہ سعودی عرب کی جانب سے خان صا حب کو جی آیاں نو ں کہناخو ش آ ئند تو ضرور ہے لیکن کیا پاکستان کو مسئلہ کشمیر پر برادرملک کی اتنی حمایت ملے گی جس کی ہم جا ئز طور پر تو قع کر تے ہیں۔ اسی طر ح سعودی عرب سے یہ تو قع کرناکہ وہ فرانس میں شا ئع ہونے والے گستاخانہ خاکوں کی بھر پو ر مخالفت کر ے گا عبث ہے۔