20 ویں صدی کے آخری اور 21 صدی کے پہلے 20 سال، دوسری جنگ عظیم کے بعد اس لحاظ سے بڑے عبرت آموز ہیں کہ40 سال کے اس ہیجان انگیز دور میں دنیا کی دو سب سے بڑی عالمی طاقتوں ( روس اور امریکا ) کو، جو ایٹمی اسلحہ سے بھی لیس ہیں، یکے بعد دیگرے افغانستان کے میدان جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ قبل ازیں یہ دونوں عالمی طاقتیں کم ازکم فوجی اعتبار سے ناقابل تسخیر تصور کی جاتی تھیں۔
عالمی سطح پر ان کی فوجی ہیبت کا یہ عالم تھا، بلکہ myth بن چکا تھا کہ جہاں بھی ان کے لشکر درانداز ہو جائیں، وہاں سے ان کی مرضی کے خلاف ان کو نکالنا مشکل ہی نہیں، ناممکن بھی ہے۔ لیکن آج کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان کے حریت کیش عوام نے نہ صرف امریکا اور روس کی اسmythکو تحلیل کر دیا، بلکہ ایک بار پھر دنیا پر آشکار کر دیا کہ انسانی عزم وہمت اور قومی غیرت و حمیت سے بڑی کوئی چیز نہیں ہے۔
افغانستان میں روس اور امریکا کی اس فوجی ہزیمت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آج سے 32 سال پیشتر 1988ء میں جب سوویت یونین، افغانستان سے پسپائی اختیار کر رہا تھا تو ایک طبقہ، جس کی ہمدردیاں اس کے نظریاتی پس منظر کی وجہ سے امریکا کے خلاف سوویت یونین کے ساتھ تھیں، سوویت یونین کی فوجی شکست کا تمام ترکریڈٹ امریکا اور سی آئی اے کو دیتا تھا اور اس میں جنرل ضیاالحق، جنرل اختر عبدالرحمان اوران کے زیر کمان آئی ایس آئی کے کردار کو اہمیت دینا تو درکنار، سرے سے اس کو تسلیم کرنے سے انکاری تھا۔
اس کا دعوی تھا کہ یہ جنگ ساری کی ساری امریکا کی تھی اور امریکا ہی نے جیتی ہے۔ اگر سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں امریکا کی فوجی طاقت اتنی ہی موثر تھی کہ پھر اس سے دو گنا عرصہ میں، اس سے کئی گنا زیادہ فوجی قوت بروئے کار لانے کے باوجود وہ افغانستان کو تسخیر کرنے میں کامیاب کیوں نہیں ہو سکا ہے۔
بروس رائیڈل Bruce Riedel کا شمار امریکا کے ممتاز ترین مورخین اور عسکری ماہرین میں ہوتا ہے۔ تقریباً30 سال سی آئی اے سے وابستہ رہے ہیں۔ Brookings Institution کے سینئر فیلو اور ڈائریکٹر ہیں۔ جارج بش اور بارک اوباما سمیت امریکا کے چار صدور کے مشیر برائے جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ رہ چکے ہیں۔ سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ کے پس منظر میں ان کی دو تحقیقی کتابیں What We Won، Americas Secret War in Afghanistan 1979 – 89 اور Avoiding Armageddon اس موضوع پر امریکی نقطہء نظر سے لکھی جانے والی بہترین اور مستند کتابیں سمجھی جاتی ہیں۔
سوویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران میں خود بھی سی آئی اے سے وابستہ تھے اور اس حیثیت میں انھوں نے اس جنگ اور اس کے اتار چڑھاؤ کو بہت قریب سے دیکھا اور پرکھا ہے۔ (CENTCOM Central Command of US military on Pakistan and Afghanistan ) کے انتہائی حساس فوجی سیمیناروں میں باقاعدگی سے مدعو کیے جاتے ہیں۔ 2011ء میں ایک ایسے ہی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے امریکی کمانڈروں سے سوال کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکا کامیاب رہا تھا، لیکن اب اپنی تمام تر فوجی طاقت اور حکمت کاری کے باوجود ناکام ہے۔
یہ سوال کرنے کے بعد وہ لمحہ بھر کو رکے، ان کے متحیر چہروں کو دیکھا، پھر کہا:In 1980s President Ronald Reagan enjoyed Pakistans support and won the war . Now in twenty first century، America and Pakistan an opposite sides in Afghan civil war. It is a lot harder to envision success . کی افغان جنگ میں ریگن انتظامیہ کو پاکستان کی مکمل حمایت حاصل تھی، وہ کامیاب رہی۔ آج21 ویں صدی میں پاکستان اور امریکا افغان جنگ میں ایک دوسرے کے حریف ہیں، لہٰذا اس میں امریکا کی کامیابی کا امکان کم، بہت کم ہے۔ ) بروس رائیڈل کی یہ پیش گوئی آج حرف بہ حرف درست ثابت ہو رہی ہے۔
بروس رائیڈل اس تاثر کی بھی نفی کرتے ہیں کہ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شمولیت سراسر امریکا کے ایما پر تھی، اس کے برعکس ان کا کہنا ہے کہ سوویت یونین کے افغانستان میں فوجیں داخل کرنے پر صدر ضیاء نے فوری طور پر آئی ایس آئی سے رجوع کیا اور اس پر جنرل اختر سے رائے مانگی۔ جنرل اختر کی رائے یہ تھی کہ افغانستان میں قدم جمانے کے بعد سوویت یونین کا اگلا ہدف بلوچستان ہو گا، تاکہ بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک رسائی حاصل کر سکے، اس صورت میں پاکستان مشرق کی طرف سے بھارت اور مغرب کی طرف سے سوویت یونین کے گھیرے میں آجائے گا۔
اس خطرے سے بچنے کی ایک ہی طریقہ ہے کہ : Pakistan substantially increase its aid to mujahedin therefor bogging Moscow down in the qaugmire، it the 40th army was neutralized by mujhedin، it would not be able to threaten Pakistan . ( پاکستان مجاہدین کی بھرپور مدد کرے اور افغانستان کو سوویت فوج کے لیے دلدل بنا دے۔ اس طرح اگر مجاہدین کے ہاتھوں سوویت فوج کی طاقت غیر موثر ہو جاتی ہے، تو وہ پاکستان کے لیے خطرہ نہیں بن سکے گی۔ )
یہی وہ نکتہ ہے، جس کی طرف بروس رائیڈل نے سینٹ کام کے سیمینار میں اشارہ کیا: "امریکی فوجی منصوبہ ساز پاکستان کو اس کی مغربی سرحد کی طرف سے، جب کہ پاکستان کے فوجی پالیسی ساز خود کو مشرقی سرحد کی طرف سے دیکھتے ہیں، یہی اس وقت افغانستان میں امریکا کی کمزوری ہے۔" آگے چل کر بروس رائیڈل واضح طور پر اعتراف کرتے ہیں : "سوویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکا کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، کیونکہ افغانستان کے اندر جا کر اس نے آپریٹ کیا ہی نہ تھا۔ یہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی تھی، جس نے سوویت یونین کے خلاف افغان مجاہدین کو لیڈرشپ، ٹریننگ اور اسٹرٹیجی مہیا کی اور یہ افغان عوام اور پاکستان ہی ہیں، جنھوں نے اس عظیم جنگ کا تمام تر خطرہ مول لیا اور قربانیاں دی تھیں۔"
پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں، جو آج بھی انتہا پسندی کے حوالہ سے اس خطہ کی حالیہ مشکلات کا ذمے دار سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ اور اس میں اس وقت کی پاکستان کی قیادت کے کردار کو ٹھہراتے ہیں، اس کے برعکس امریکا اور مغرب میں اس کے برعکس آج یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اگر17 اگست 1988ء کو جنرل ضیاالحق کا طیارہ کریش نہ کرتا، اور وہ اور جنرل اختر زندہ رہتے تو کیا اس صورت میں بھی اس خطہ کی وہی مشکلات درپیش ہوتیں، جو آج ہیں۔
بروس رائیڈل اس سوال کے جواب میں جو کہتے ہیں، وہ بھی انتہائی معنی خیز ہے، لکھتے ہیں : " آج اس مفروضہ پر بات کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اگر جنرل ضیاء اور جنرل اختر مزید زندہ رہتے تو اس کے بعد کی تاریخ کتنی مختلف ہو سکتی تھی۔
آج ایک رائے یہ بھی ہے کہ اگر وہ زندہ رہتے تو1989ء میں بے نظیر بھٹو کے برعکس کابل پر قبضہ کرنے کے لیے مجاہدین کی صفوں میں وہ ہم آہنگی اور ڈسپلن پیدا کرتے، جس کی سوویت فوجوں کی واپسی کے بعد مجاہدین کو اشد ضرورت تھی۔ Their suspicious death ultimately left Pakistan without the decisive victory and left a very unstable region حقیقتاً ان کی پراسرار موت ( 17 اگست 1988ء ) نے پاکستان کو افغان جنگ میں فیصلہ کن فتح سے محروم کر دیا، جس کی انھوں نے شدید خواہش کی تھی، بلکہ اس خطہ کو بھی مستقل طور پر عدم استحکام سے دوچار کر دیاہے۔"
قصہ کوتاہ یہ کہ آج سے 40 سال پہلے افغانستان پر سوویت یونین کی ناجائز فوج کشی کے خلاف پاکستان کا تاریخی اور فیصلہ کن کردار آج ایک ایسی حقیقت بن چکا ہے کہ امریکا کے اعلیٰ ترین فوجی اور تزویراتی ادارے بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں، اس کی تائید کرتے ہیں اور اس کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں کہ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔