سخت سردیوں کے دن تھے۔ میں نے شام کو اپنے اسکول ٹیچر یونس بخاری صاحب کے دروازہ پر دستک دی۔ ان کاگھر ہمارے گھر کے پاس ہی ایک گلی میں تھا۔ ان کے پاس تاریخی کتب کا کافی نادر ذخیرہ تھا۔ میں بھی ان سے پڑھنے کے لیے کوئی نہ کوئی کتاب لے آتا تھا۔ اس روز بھی وہ حسب معمول گھر پر نہ تھے کیونکہ یہ وقت ان کی شعروادب کی محفلوں کا ہوتا تھا۔
جب ان کے گھر والوں نے بتایا " اومنشی صاحب ہوراں ول گے نے"، تو میں واپس شیشیانوالا گیٹ پہنچا اور جیسا کہ میرا اندازہ تھا، گلریز شوکت کی دکان پر محفل سخن جمی ہوئی تھی۔ گرم کوئلوں کی دہکتی انگیٹھی کے گردا گرد بخاری صاحب سمیت کچھ اور جانے پہنچانے چہرے بھی بیٹھے تھے، رمضان صائب، غلام مجتبیٰ، افتخار بھٹہ، مشاہدرضا، مگر سب سے نمایاں ہمیشہ کی طرح منشی لطیف صاحب گجراتی تھے۔
منشی صاحب کی طبع رواں تھی اوران کی گرجدارآواز میں گویا بادلوں کی گرج سمٹ آئی تھی۔
جے ٹٹ گیاای کاسہ آساں دا نہ بھن چھڈ شیشے گنگیاں وی
متاں وکھری زلف سنوارن لئی کدی فیرضرورت پے جائی
کسے اپنی یاد پرانی نوں بیتی ہوئی گھڑی سہانی نوں
متاں پرت کے واجاں مارن لئی کدی فیرضرورت پے جائی
…………
کی ہوگیا جھلیاں سدراں نوں کس موڑاتے آکھلیاں نے
بے نوراکھاں داویہڑا اے بے رونق دل دیاں گلیاں نے
دھپ تیز لطیف وچھوڑے دی پئی ساہ وی لین نہ دیندی سی
اک سوچ دلاسے دتے نے کجھ آساں پکھیاں جھلیاں نے
کیہڑی سُرجواساں نہ سُرکیتی کیہڑا رنگ جو اسی نہ لا بیٹھے
ناگن زلف دی آئی نہ کیل اندر رنگ رنگ وچ بین وجا بیٹھے
راہوں تکدیاں اکھاں بے نورہویاں ایویں جھوٹھ بھلاوڑے رہے پیندے
کدے دل دھڑکے کدے اکھ پھڑکے کدے کان بینرے تے آ بیٹھے
منشی لطیف صاحب گجراتی قادرالکلام پنجابی شاعرسائیں فیروز دین نگین کے انتہائی چہیتے شاگرد تھے۔ سائیں فیروز نے1924ء میں گجرات ہی سے منسوب رومانوی قصہ سوہنی ماہی وال کو منظوم کیا، جو اب تک اس قصہ پر اعلیٰ ترین کام مانا جاتا ہے۔ بابو غلام حسین ( راز گجراتی ) منشی صاحب کے ساتھ بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں " میں اور منشی صاحب تقریباً ہم عمر تھے، میں چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا، وہ پانچویں میں۔ شروع ہی سے ان کو ادب سے لگاؤ تھا اور وہ اپنے استاد سائیں فیروز نگین کا بستہ اٹھائے ان کے ساتھ مشاعروں میں دیکھے جاتے تھے۔
ادبی لحاظ سے اس وقت گجرات میں دو اکھاڑے مشہور تھے، پاسک والا، جو باغ کی چار دیواری کے اندر ٹاؤن ہال میں تھا، دوسرا چاردیواری سے باہر سید عابد علی عابدؔ کا گھر، جہاں لاہور سے اختر شیرانی سمیت دوسرے شعرا بھی آتے۔ "گھریلو حالات بس ایسے ہی تھے، چنانچہ اسکول سے فراغت پاتے ہی منشی صاحب بھی روزی روٹی کے لیے نوکری کی تلاش میں سرگرداں ہوتے۔
اتفاق سے گجرات میونسپل کمیٹی ہی میں ملازمت مل گئی، جہاں ان دنوں پیر فضل گجراتی اور استادامام دین گجراتی بھی اپنی معیشت کی گاڑی کھینچ رہے تھے۔ کمیٹی کے احاطہ میں ہر ہفتے کی شام کو باقاعدہ مشاعرہ ہوتا اور طرح مصرع پرکلام پیش کیا جاتا۔ پنجاب میں اس زمانہ میں موہن سنگھ دیوانہ، درشن سنگھ آوارہ، فقیر محمدفقیر اور پیر فضل گجراتی پنجابی میں نت نئے تجربات کر رہے تھے۔
منشی صاحب کی شاعری میں اگرچہ اپنے استاد فیروز نگین کا استادانہ رنگ بھی جھلکتا تھا، لیکن رفتہ رفتہ انھوں نے اپنا علیحدہ بلکہ اپنے ہم عصروں سے بھی جداگانہ رنگ پیدا کر لیا۔ اوپر سے ان کا جلالی انداز بیاں، وہ جو کہتے ہیں " وہ آئے اور چھا گئے " کچھ ایسے ہی منشی صاحب بھی شعروسخن کی مقامی محفلوں پر چھا گئے۔ ان کا جادو ایسے سر چڑھ کر بول رہا تھا کہ سائیں فیروز نگین کے ناقد پیر فضل گجراتی بھی منشی صاحب کی قادرالکلامی کا برملا اعتراف کرتے اور ان کو سراہتے تھے۔
جب بھٹو صاحب نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تو منشی صاحب کو یہ نعرہ بہت بھایا۔ ایک شام ڈیرہ مشتاق حسین پگانوالہ میں پیپلزپارٹی کا کوئی جلسہ تھا، بھٹو صاحب بھی آئے ہوئے تھے۔ جب منشی صاحب اسٹیج پر آئے اور انھوں نے اپنی مشہور نظم " اللہ میاں نوں غریباں ولوں پاکستان دے دورے دی دعوت" سنائی اور جلسہ لوٹ لیا۔ بقول وسیم بیگ مرزا، یہ اور’مزدور دا جرم کی اے، اور ’اللہ میاں نال دو گلاں، جیسی نظمیں پاکستان کی سماجی ثقافتی اور معاشی صورتحال کی سچی ترجمانی کرتی ہیں۔
مسعود راٹھور اس وقت اسٹیج پر بیٹھے تھے، ان کا کہنا ہے، بھٹو صاحب نے بڑی توجہ سے پوری نظم سنی اور کرسی صدارت سے اٹھ کران کو داد دی۔ یہیں ڈیرہ پگانوالہ میں ہونے والی ایک اور محفل مشاعرہ کا آنکھوں دیکھا ہمارے اردو کے استاد سیف الرحمن سیفی صاحب اس طرح بیان کرتے ہیں، " رات بھیگ چکی تھی جب منشی صاحب نے اپنی یہ غزل چھیڑی،
کی پچھناایں کی دساں میں کیوں بڈھے وارے پیتی اے
پیتی ہوئی سی وچ جوانی جو اوعادت پوری کیتی اے
ڈیرہ پگانوالہ کے عین مقابل نکڑ پر ایک طرف عیسائیوں کا گرجا اور دوسری طرف محمود شاہ گجراتی کی مسجد تھی۔ منشی صاحب نے باری باری دونوں طرف اشارہ کرکے جیسے ہی اگلا شعر پڑھا محفل مشاعرہ کا گویا رنگ ہی بدل گیا،
نہ گرجے وچ نہ مندروچ نہ ملدارب مسیتی وچ
جے نیت ہووے ملنے دی مل پینداچپ چپیتی اے
کایا ہی پلٹ گئی، لوگوں پر جیسے ’حال، طاری ہو گیا۔ مجھے یاد ہے کہ کافی عرصہ بعد تک اس محفل مشاعرہ کا یہ واقعہ لوگ ایک دوسرے کو سناتے رہے اور منشی صاحب کو داد دیتے رہے۔ "