Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. 11 September, Kya Khoya Kya Paya

11 September, Kya Khoya Kya Paya

2001 میں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا۔ اس کے بعد تقریباً پہلے 6 سال میں نے مسلسل اْس وقت کے حالات و واقعات کو مد نظر رکھ کر " گیارہ ستمبر، کیا کھویا کیا پایا " کے عنوان سے مستقل لکھا۔ میں نے تمام کالم ہمیشہ اعلائے کلمۃ الحق بلند کرنے، کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان اور امت مسلمہ کی ترجمانی کی نیت سے لکھے۔

میں نے جنرل پرویز مشرف کو بھارت کے شہر آگرہ میں سنا، وہاں انھوں نے جس دبنگ انداز میں پاکستان کا مقدمہ پیش کیا، ان کی اس جرات و بہادری کو دیکھ کر میں نے انھیں اپنا ہیرو مان لیا، میں نے ان پر لکھا لیکن اسکے بعد افغانستان کے معاملے میں جب مشرف نے بزدلانہ کردار ادا کیا تووہ میرے دل سے اتر گیا اور اپنے احساسات کے مطابق اسکے ہر قول و فعل پر لکھا۔

اْس وقت جب حالات میرے لیے دردناک اور اذیت ناک بن گئے تو میں نے اپنے قلم کا گلہ گھونٹ ڈالا۔ میں اگر ان حالات میں اپنے جذبات اور احساسات کے مطابق لکھتا تو پرویز مشرف ڈالرکی خاطر گواتنانا موبے داخلہ نہ بھی دلواتا تو کم از کم میرے لیے غداری کا سرٹیفیکیٹ ضرور تیار پڑا ہوتا۔ میں نے 2007 کے بعد آج ایک مرتبہ پھر اسی موضوع پر لکھنے کے لیے قلم اٹھایا۔

11ستمبر 2002میں شائع ہونے والے ایک کالم میں ہم نے نائن الیون کے بارے لکھا تھا کہ "حیرت کی بات یہ ہے کہ جو سوال کسی بھی ردعمل سے پہلے ہونا چاہیے تھا وہ آج بھی جواب طلب ہے، اس دہشت گردی کا ذمے دار کون ہے؟ اگر اسامہ یا کوئی اور مسلمان ہے تو پوری دنیا کو جنگ میں دھکیلنے سے پہلے ثبوت کیوں نہیں پیش کیے گئے۔ اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں اول یہ کہ ان کے پاس ثبوت نہیں، دوسری یہ کہ جس طرح کوئی چوہدری عام لوگوں کے سامنے ثبوت پیش کرنا توہین سمجھتا ہے اسی طرح امریکا اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ امریکا کا تو اشارہ ہی کافی تھا"۔

آج ہماری بات سچ ثابت ہوگئی، بیس سال تک امریکا افغانستان جیسے پسماندہ اور غریب ملک کی اینٹ سے اینٹ بجاتا رہا، بے گناہ اور معصوم لوگوں کے خون سے ہولی کھیلتا رہا۔ اس گھناؤنے کھیل میں آدھی دنیا سے زائد ممالک اس کے ساتھ تھے۔ کون سا وہ ظلم تھا جو امریکا اور اس کے حواریوں نے طالبان اور افغانوں پر نہ ڈھایا ہو؟ امریکا کے کمانڈروں نے ایسے کتے پال رکھے تھے جن کی بھوک مٹانے کے لیے انھیں زخمی اور گرفتار جنگجوؤں پر چھوڑ دیا جاتا تھا، حال ہی میں ایسا درندہ طالبان نے پکڑا اور اس نے اقرار بھی کردیا۔

کسی بہن، بیٹی کی عصمت محفوظ تھی نہ چادر و چاردیواری کی حرمت۔ امریکی فوجی جسے چاہتے ظلم و بربریت کا نشانہ بنا دیتے، جسے چاہتے انسانیت سوز عقوبت خانوں میں ڈال دیا جاتا تھا۔ گزشتہ 20 سال کے دوران کابل سے قندھار تک ہر افغان شہری نیٹو افواج کے اس ظلم و بربریت سے تنگ آچکا تھا، اسی لیے جب انھوں نے امارت اسلامی کے شیروں کی پیش قدمی دیکھی تو ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔

امارت اسلامی افغانستان کے سرفروشوں کی استقامت سے اللہ رب العزت نے بدر جیسی نصرت سے نوازا اور نیٹو افواج کے تمام زورآوروں اور عصر حاضر کے ابوجہل (امریکا) کے سروں کو امارت اسلامی افغانستان کے فقیروں کے قدموں میں رکھا گیا۔ کل تک پوری دنیا خاص کر نیٹو جسے سپر طاقت سمجھ کر اس کے پیچھے دم ہلاتے تھے وہی آج اسے سپر طاقت ماننے سے انکار کررہے ہیں۔

اللہ کی قدرت کہ 11ستمبر 2001 کو ہونے والی مشکوک دہشت گردی کے واقعہ کو امریکا پر حملہ تصور کیا گیا اور امریکا نے اس کی آڑ میں ایک آزاد خودمختار افغانستان پر بدمست ہاتھیوں کی طرح آدھی دنیا کی فوج لے کر حملہ کیا۔

11 ستمبر2021 کوطالبان نے اس بدمست ہاتھیوں کی فوج کو دھول چٹا کے بھگا دیا اور امارت اسلامیہ افغانستان کا دوبارہ قیام کرکے ثابت کردیا کہ یہ طالبان اور مسلمانوں کا نائن الیون ہے۔ مگر آج پوری دنیا نے مان لیا کہ امریکا کی جنگ بدنیتی، جھوٹ اور دھوکے کی بنیاد پر مبنی تھی جب کہ طالبان کی جنگ نیک نیتی، سچائی اور حق کی لڑائی تھی۔ اللہ نے فتح مکہ کی یاد تازہ کردی حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ طالبان نے امریکا کو ایسا سبق سکھایا کہ وہ آئندہ کسی ملک پر پیشگی حملے کی خود ساختہ ڈاکٹرائن کی آڑ میں حملے کی جرات نہیں کریگا۔

امارت اسلامی افغانستان پر امریکی جارحیت کے بعد جب امریکی سرپرستی میں کابل پر شمالی اتحاد کے وحشی درندوں کا قبضہ ہوا وہاں سے پاکستان آنے والے ہر انسان کا دل دکھی اور آنکھیں نم ہوتی تھی۔

میرے باباجانؒجامعہ فاروقیہ کابل کی تقریب دستاربندی و ختم بخاری کے بعد جب آئے تو وہ امریکی مظالم اور بربریت کے عینی شاہد تھے، پاکستان آنے کے بعد تورخم بارڈر پر انھوں نے بہتی آنکھوں کے ساتھ ہمیں بتایا کہ آنے سے پہلے وہ 8 کم سن بچوں کا اجتماعی جنازہ پڑھ کر آئے ہیں۔ نہتے افغانوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر کر تے ہوئے شیخ القرآن و الحدیث حضرت ڈاگئی باباجی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ "امریکا امارت اسلامیہ افغانستان کے ساتھ نہیں اللہ رب العزت سے لڑنے آیا ہے اور طالبان منتقم اللہ کی طرف سے ابابیل بن کر لڑ رہے ہیں۔

طالبان کی استقامت کو دیکھتے ہوئے میرا ایمان کہتا تھا کہ اللہ کریم کی نصرت ضرور آئے گی اور جب اللہ کی نصرت آتی ہے تو دنیا کی تمام حملہ آور قوتیں خس و خاشاک کی طرح ثابت ہوکر نیست ونابود ہوجائینگی اور روس کی طرح امریکا بھی بکھر جائیگا"۔ ولی کامل ڈاگئی بابا جی رحمہ اللہ کی اس پیشن گوئی کو دیکھتا ہوں تو اب صرف امریکی جھنڈے پر موجود ستاروں کا بکھرنا باقی ہے۔

جس کا منظر پورا عالم دیکھے گا۔ ملا عبدالسلام راکٹی کہتے ہیں کہ میں نے ملا محمد عمر مجاہد مرحوم سے کہا کہ آپ کے پکڑے جانے کا خطرہ ہے۔ انھوں نے کہا مجھے امریکی نہیں پکڑسکتے، میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ آسمان سے ایک خیمہ آیا ہے اور میرے اوپر کھڑا ہے۔ میں مطمئن ہوں کہ وہ میرے ساتھ امریکیوں کے مقابلے میں اللہ کی مدد ہے۔ بیشک ملا محمد عمر مجاہد مرحوم کا خواب اللہ نے سچ ثابت کردکھایا۔

میرے خیال میں ہر ملک کو یہ سوچنا چاہیے کہ انھوں نے اس جنگ میں امریکا کا ساتھ دے کر کیا کھویا، کیا پایا۔ اس جنگ نے امریکی معیشت کا بیڑا غرق کر دیاان کے معاشی بت سے ہوا نکل گئی، یہ 20 سالہ جنگ امریکا کے لیے سپر سے صفر تک کا سفر ثابت ہوئی۔

امارت اسلامی افغانستان کے شیروں نے قربانیوں کی لازوال داستان رقم کی مگر دین و دنیا میں سرخروئی اور سرفرازی ملی، ننگے پیر اور روایتی اسلحے کے ساتھ لڑنے والے مجاہدین نے ثابت کردیا کہ سپر پاور صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے۔

دوسری طرف طالبان نے اس جدوجہد کے دوران بہت نقصان اٹھائے مگر ہر مصیبت یہاں تک کہ اپنوں کی شہادتوں کے باوجود وہ خوش اور انکے دل مطمئن رہے اور ہر لمحے شہادت کے آزرو مند رہے اور دنیاوی اعتبار سے جس حالت میں وہ کابل سے نکلے تھے اللہ کی نصرت سے اس سے لاکھ درجے بہتر کابل میں داخل ہوئے۔ لب لباب یہ کہ طالبان نے دین و دنیا میں پایا ہی پایاہے کھویا کچھ نہیں اور امریکا سمیت ہر حملہ آور نے کھویا ہی کھویاہے، پایا کچھ نہیں۔