اصل موضوع کی جانب بڑھنے سے پہلے اپنے قارئین کو انتہائی افسردہ دل اور نم آنکھوں کے ساتھ اطلاع دی جاتی ہے کہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر حضرت اقدس مولانا یوسف بنوری رحمہ اللہ علیہ کے گلشن جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کے محافظ شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر دار فانی سے دار بقا کوچ کر گئے ہیں (انا للہ وانا الیہ راجعون)۔ حضرت اقدس گزشتہ کچھ دنوں سے شدید علالت کے باعث کراچی کے ایک نجی اسپتال میں زیر علاج تھے۔
بیماری کی شدت کے باعث وہ وینٹی لیٹر پر رہے، پھیپھڑوں کا مسئلہ اپنی جگہ کافی متاثر تھا، پھر گردے بھی متاثر ہونے لگے جس کے باعث ڈائیلاسزمجبوری بن گئی تاکہ گردوں میں موجود انفیکشن کے باعث جو زہریلے مادے پیدا ہوئے ان کی صفائی ہوسکے اور ان کی طبیعت کی بحالی میں مدد مل سکے لیکن اللہ کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا، تمام تر تدبیریں تقدیر کے آگے بے بس ہوگئیں اور اس ولی کامل کو اللہ نے اپنے پاس بلا لیا ہے۔ میرے رب نے یقیناً انھیں ان کی مخلصانہ اسلامی و دینی خدمات کے صلے میں جنت النعیم کا وارث بنادیا ہوگا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت شیخ رحمہ اللہ علیہ کے درجات بلند فرمائے اور مجھ سمیت ان کے تمام متعلقین، شاگردوں اور خصوصاً انکے اہل و عیال کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
اسی طرح ہماری نسبتوں کی امین کئی اور اہم ترین شخصیات اس وقت شدید علالت کے باعث زیر علاج ہیں۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی جو ناصرف ایک بڑے علمی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں بلکہ خود بہت بڑی علمی شخصیت ہیں، وہ بھی کئی ماہ سے صاحب فراش ہیں، شدید علالت کے باعث زیر علاج ہیں۔ پاکستان ہی نہیں پاکستان سے باہر بھی ان کے لاکھوں چاہنے والے ان کی طبیعت کے حوالے سے اضطراب کا شکار ہیں۔
گزشتہ جمعہ کو ملتان سے خبر موصول ہوئی کہ ترجمان مدارس دینیہ، ناظم اعلی وفاق المدارس العربیہ پاکستان برادر عزیز مولانا قاری محمد حنیف جالندھری بھی عارضہ قلب میں مبتلا ہوگئے ہیں، سینے میں شدید تکلیف کے باعث انھیں فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے انھیں بروقت طبی امداد دے کر بچا لیا۔ ان کے مختلف ٹیسٹ لیے گئے جن سے معلوم ہوا کہ انھیں شدید نوعیت کا ہارٹ اٹیک ہوا تھا، ان کی اینجیو گرافی کے بعد ڈاکٹروں کی ماہر ٹیم نے انھیں اسٹنٹ ڈال دیا ہے، اب ان کی طبیعت بحالی کی طرف آرہی ہے۔
مولانا فضل الرحمان گزشتہ ہفتے کراچی پہنچے جہاں ان کی طبیعت بگڑ گئی تھی، جس کی وجہ سے انھیں فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا۔ مولانا کی طبیعت اب بہتر ہو رہی ہے۔ مولانا اس وقت دینی قوتوں کے ہی نہیں بلکہ ملک کی سیاسی قوتوں کے بھی امام ہیں، ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالنے کے لیے تمام چھوٹی بڑی جماعتیں مولانا پر اعتماد کررہی ہیں اور عوام کی نگاہیں بھی اسی مرد قلندر پر مرکوز ہیں وہ انھیں اپنا نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں۔ اس لیے ہر کوئی ان کی بیماری کی خبر سے دلگرفتہ ہے۔
یہ چاروں شخصیات اپنی اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں، پاکستان کے اسلام پسند عوام کے دلوں کی دھڑکن، ان کی عقیدتوں اور امیدوں کا محور ہیں۔ اللہ کریم انھیں کامل شفا عطا کرے اور ان کا سایہ سلامت رکھے۔ بلاشبہ یہ شخصیات پاکستان کے مسلمانوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔
اب ہم آتے ہیں اپنے موضوع کی جانب۔ چند روز قبل لاہور کے ایک بڑے دینی ادارے جامعہ منظورالاسلامیہ کے ایک65 سالہ استاد عزیزالرحمان اور اپنی ہی ایف آر (NC-6/16/2021-5370) کی رو سے اقراری شریک جر م24 سالہ صابر شاہ کا شرمناک اسکینڈل سامنے آیا ہے۔ صابر شاہ کی ایف آئی آر کے مطابق عزیزالرحمان گزشتہ تین سال سے اس کے ساتھ بد فعلی کرتا رہا۔
جب بھی کوئی جرم کرتا ہے تو مجرم کی مذمت اور اس جرم سے نفرت کی جاتی ہے مگر اس واقعے کی آڑ میں اسلام دشمن اور مذہب بیزار لوگوں نے مجرموں (فاعل اور مفعول) کی بجائے مدارس و مساجد اورعلماء ومشائخ کو نشانے پر رکھ کر جو طوفان بدتمیزی برپا کیا، خدا کی پناہ۔ حقیقت میں یہ وہ طبقہ ہے جو اسلام دشمنی کے مواقعے کے لیے ہمیشہ گھات لگائے بیٹھا رہتا ہے جونہی ان کے ہاتھ کوئی ایشو آتا ہے یہ چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔
اللہ نہ کرے مجھ سمیت کوئی بھی مسلمان عزیز الرحمان یا صابر شاہ کے دفاع کا سوچ کر اپنے منہ پر کالک ملے، ان دونوں نے جوقابل نفرت اور غلیظ عمل کیا ہے، اس پر دونوں کو شریعت محمدی کے مطابق سزا دی جائے۔ ریاست قدم بڑھائے شرعی سزاؤں کا آغاز اسی کیس سے کرے، بہت سے علماء کرام اور مشائخ نے تجاویز دی ہیں کہ انھیں مینار پاکستان سے گرا دیا جائے، یاسنگسار کیا جائے یا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فیصلوں سے ایک سزا جلانے کی بھی ملتی ہے۔ ان میں سے ریاست کوئی بھی شرعی سزافاعل اور مفعول کو جلداز جلد دے، تو پاکستان کے بائیس کروڑ عوام اور خصوصاً علماء کرام ریاست کے فیصلے کی تائید میں کھڑے ہوں گے۔
اور جو لوگ اس غلیظ اور قبیح جرم کی آڑ میں مدارس و مساجد، وفاق المدارس عربیہ اور اہل مدارس کو بدنام کرنے کی گھناؤنی سازش کر رہے ہیں۔ ریاست ان کو بھی روکے، تا کہ قرآن وسنت کی ترویج کے اداروں کو ان کے شر سے محفوظ رکھا جائے۔ اس سے چشم پوشی اللہ کے قہر کو دعوت دینا ہوگی جس کا کوئی بندہ یا ریاست متحمل نہیں ہوسکتا۔
اس دنیا میں تو عزیز الرحمان اور صابر شاہ کے اس فعل کو کیمرے کی آنکھ نے دیکھ لیا، عزیزالرحمان نے اپنے مقدس منصب اور نہ ہی اپنی عمر کا لحاظ رکھا، اور صابر شاہ اس بدفعلی کے اس قبیح جرم میں شریک رہا۔ ہر مسلمان کی طرح میں بھی غصے، دکھ اور ذہنی کوفت اور اذیت سے دوچار ہوں۔
اپنی عاقبت برباد کرنے والاعزیزالرحمان توپکڑا گیا، اس کے خلاف مقدمہ درج ہوچکا ہے اور اسی مقدمے پر عدالت میں ٹرائل چل رہا ہے، اسے سزا ضرور ملے گی، اگر یہ سزا سے بچ بھی گیا تو اس کی باقی ماندہ زندگی ذلت میں گزرے گی۔ اس نے اپنی زندگی میں بہت سے نیک اعمال بھی کیے ہوں گے، لیکن بدنامی کے ایک داغ نے سب ملیامیٹ کر دیا۔
مگر افسوس کہ شریک جرم صابر شاہ آزاد پھر رہا ہے اور کچھ لوگ اس کو ہیرو بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، انصاف کا تقاضہ ہے کہ اپنی ہی ایف آئی آرمیں جرم کے اقرار پراسے بھی گرفتار کیا جائے اور دونوں پرایک ہی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔
یہ ان دو افرادکا فعل تھا مگر ایک سازش کے تحت اس غلیظ جرم کو ایک طبقہ مدارس، مساجد، وفاق المدارس عربیہ اور کچھ سیاسی لاوارث اور نابالغ، جمعیت علماء اسلام پاکستان سے منسوب کرکے اس غلاظت کو اپنے منہ پر ملنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
بے شمار لوگ اس سازش کا شکار بنے اور انھوں نے سوشل میڈیا پر اپنے اپنے انداز میں اس معاملے کو وائرل کر کے اپنے دین کی تعلیمات کو فراموش کر کے ہوا کے رخ پر چل دوڑے۔ اسلام ہمیں پردہ پوشی کی تعلیم دیتا ہے اور ہم نے اسلام کی ان تعلیمات کو روندتے ہوئے سوشل میڈیا پر تماشہ لگا دیا پھر اس تماشے کا ہدف یہ دو افراد نہیں ٹھہرے بلکہ مدارس و مساجد اور علماء کو بنایا گیا۔
یہ کام کرنے سے پہلے کسی نے اپنی ذات کا محاسبہ کرنے کی کوشش نہیں کی، کہ ہمارے کتنے برے کام کیمرے کی آنکھ سے چھپے ہوئے ہیں؟ ہماری زندگی میں بھی بداعمالیاں ضرور ہوں گی لیکن فی الحال ان دونوں کی طرح بدنام نہیں ہوئے، اللہ تعالیٰ نے اپنی ستاری کی چادر میں ہمارا پردہ قائم رکھا ہوا ہے۔ کبھی کسی نے سوچا کہ ہمارے اعمال کے سبب کہیں ہم بھی گرفتاری اور قید کے مستحق تو نہیں؟ کہیں ہمیں بھی سنگسار کرنے کی ضرورت تو نہیں؟ کیا ہمارا نفس باکردار اور پاکیزہ ہے؟ یادرکھیں، ایک سپر کیمرہ بھی ہے، جو ہمارے ہر عمل کو لمحہ بہ لمحہ ریکارڈ کر رہا ہے۔ وہ سپر کیمرہ کبھی خراب نہیں ہوتا، اور نہ ہی اس کی ویڈیو میں فوٹو شاپ کی گنجائش ہے، بڑے مضبوط نیٹ ورک سے جڑا ہوا ہے، اس کا رزلٹ بہت اچھا ہے، اس کی ویڈیو کبھی ڈیلیٹ نہیں ہوتی۔
بدکاری سے بچنے کا حکم تمام مسلمانوں کے لیے ہے نہ کہ صرف مولوی کے لیے۔ روز آخرت اس کی سزا ہر بدکار کو ملے گی، نہ کہ دنیا کی طرح صرف بدنام اور پکڑے جانے والوں کو۔ کیا ہم اپنی اپنی ذات میں کہیں عزیزالرحمان یا صابر شاہ سے زیادہ برے تو نہیں؟ اس کی ویڈیو تو سب نے سوشل میڈیا پر دیکھی۔ ہمیں اس دن کابھی انتظار کرنا چاہیے جب ہمارے سامنے ہماری ویڈیوزاللہ رب العزت کی عدالت میں چلائی جائے گی، جہاں کسی کی سفارش نہیں چلے گی اور سپر کیمرے کی ویڈیو پر ہمارے اعضاء گواہ بن کر کھڑے ہوں گے۔
جس طرح اس کیس کی آڑ میں مدارس و مساجد اور علماء کو ٹارگٹ کیا گیا۔ میں ذاتی طور پر اس واقعہ سے دلگرفتہ ہوں، میری طرح لاکھوں کروڑوں اسلام پسند بھی اس صدمے سے دوچار بیٹھے ہوں گے۔ جو لوگ مدارس، مساجد، وفاق المدارس عربیہ، اہل مدرس، (طلباء اساتذہ اور منتظمین) کے خلاف اس مہم میں سوچ سمجھ کر ایک خاص ایجنڈے کے تحت شامل ہیں۔ ہم ان کو منتقم اللہ کے حوالے اس امید کامل کے ساتھ کرتے ہیں کہ اللہ قرآن و سنت کے ترویج کے اداروں اور منبر رسول کے وارثوں کا حساب ان سے خود لے لیں گے۔
مگرجو لوگ دانستہ یا غیردانستہ دوسروں کی دیکھا دیکھی اس مہم میں شامل ہوگئے ہیں ان سے میری دردمندانہ اپیل ہے کہ یہ ظلم نہ کریں، اور اللہ کریم سے رجوع کرکے اپنے لیے اس واقعے میں اللہ کی رضا والے طرزعمل اور موقف پر ڈٹے رہنے کی دعا کریں۔ میرا ایمان ہے کہ اللہ ہماری خطاؤں کو معاف اور حق پر استقامت دیں گے۔