Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Farooqi Aik Bakamal Shakhsiyat

Farooqi Aik Bakamal Shakhsiyat

ثناء خوانی و نعت گوئی کو شاعری کا نگینہ قرار دیا جاتاہے۔ یہ فن بظاہر جس قدر آسان نظر آتا ہے، حقیقت میں اتنا ہی مشکل ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ناقدین کے نزدیک یہ ایک انتہائی مشکل صنف ِسخن ہے کیوں کہ ایک طرف وہ ذات ِ باری تعالیٰ ہے، جو تمام جہانوں کو پیدا کرنے والا اور تمام مخلوقات کو پالنے والا ہے، دوسری طرف وہ ذات گرامی ہے جس کی مدح خود رب العالمین نے کی ہے۔ اسی لیے ان پر لکھنے سے پہلے زبان اور شاعری کے جمالیاتی تقاضوں کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے، حمد و نعت کا حق وہی ادا کر سکتا ہے، جس کا قلب و ذہن جذبہ عشقِ رسولﷺ سے سرشار ہو۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ:

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

بظاہر ثنا خوانی و نعت گوئی آسان لگتی ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ اگر اللّٰہ تبارک وتعالی توفیق نہ دے تو نعت کہنا انسان کے بس کا کام نہیں۔ آپ اندازہ کیجیے کہ اللہ تبارک تعالیٰ جنھیں یہ توفیق بخشتے ہیں وہ کتنے عظیم لوگ ہوں گے۔ علماء و مشائخ نے جس طرح خطابت و امامت، درس وتدریس کے میدان میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اسی طرح اسلامی ادب اور اسلامی شاعری میں بھی بے پناہ نام کمایا ہے۔

دیگر فنون سے قطع نظر صرف شاعری ہی کو مد نظر رکھیں اور علماء شعرا کی ادبی خدمات اور ان کے دیرپا اور دور رس اثرات پر اک سرسری نظر ڈالیں تو ایسے بے شمار نام ملیں گے جو اسلامی اورعام ادبیات کی تاریخ میں نمایاں اور ممتاز مقام پانے کے مستحق قرار پائے، ایسے شعرا میں عہد صحابہؓ میں حضرت حسان ابن ثابتؓ، حضرت عبد اللہ ابن رواحہؓ، حضرت نابغہ جعدیؓ، حضرت کعب ابن مالک انصاریؓ، حضرت عدی ابن حاتمؓ، حضرت علیؓ اور بہت سے صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے نام آتے ہیں۔

اس کے بعد وعبل الحزاعیؒ، امام شافعیؒ، امام محمدؒ اور اموی و عباسی کے علاوہ دوسرے اسلامی الفکر شعراء اور خود ہندوستان کے فارسی گو اردوشعرا میں شیخ حسن صغانی، حسن دھلویؒ وغیرہ، عہد مغلیہ اور اس کے بعد شیخ ناصر علی سر ھندیؒ، مولانا عبد الجلیل بلگرامیؒ، مرزا مظہر جان جانانؒ، میر ناصر عندلیبؒ، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ، خواجہ عزیزالحسن مجذوبؒ، وصل بلگرامی ؒ ذکی کیفی، مولانا ابوذر بخاری، مولانا قاسم نانوتوی، پیر ذوالفقار نقشبندی، سید امین گیلانی کے نام آتے ہیں۔ پشتو زبان کے شعرا میں عبدالرحمان باباؒ، خوشحال خان خٹک جیسے متعدد نام ہیں جن کا کلام اہل دل کے لیے حرز جان ہے مگر تاریخ ادب میں ان کی ادبی خدمات کو ان کے شایان شان اہمیت نہیں دی گئی۔

ربیع الاول کی مناسبت سے بات ثناء خوانوں اور نعت گو شعراء کی چل نکلی ہے تو آج کے اس کالم میں آپ کی ملک کے نامور ثنا خواں اور نعت گو شاعر سے ملاقات کراتے ہیں، جو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پشتو اور اردو بولنے والا دنیا کے جس کونے میں بھی آباد ہے وہاں وہاں مقبول ہیں۔ عشق مصطفی ﷺ میں ڈوبی ہوئی اس عظیم شخصیت کا نام مولانا احسان اللہ فاروقی ہے، جن کا تعلق میرے ضلع صوابی کے علاقے مانکی سے ہے۔

میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اس وقت سے مولانا احسان اللہ فاروقی کواور ان کے کلام کو سنتا چلا آرہا ہوں، عقیدت و محبت میں ڈوبا ہوا ان کا کلام سماعتوں پرجو روحانی اثرات چھوڑتا ہے، قلب و ذہن اس کی مہک سے معطر ہوجاتے ہیں۔ مولانا احسان اللہ فاروقی نے میٹرک تک عصری تعلیم اپنے ہی علاقے سے حاصل کی اور اس کے بعد ان کا رجحان دینی علوم کی جانب مائل ہوا، انھوں نے علوم شرعیہ کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے اپنے ہی علاقے کی ایک درسگاہ میں داخلہ لیا اور مولانا محمد مصطفی اور شیخ الحدیث عبدالہادی رحمہ اللہ علیہ جیسے جید اکابرین کی شاگردی اختیار کی، مولانا احسان اللہ فاروقی نے عظیم روحانی شخصیت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد فرید رحمہ اللہ علیہ کے بعیت یافتہ ہیں۔

انھیں سب سے زیادہ پذیرائی جمعیت علماء اسلام کے اسٹیج سے ملی، جہاں انھوں نے اپنے اشعار کے ذریعے اعلائے کلمۃ الحق بلند رکھا اور عوام کے دلوں کو اپنی ولولہ انگیز انقلابی شاعری سے گرماتے رہے اور گرما رہے ہیں۔ مولانا احسان اللہ فاروقی خوش الحان نعت خوان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین شاعر بھی ہیں جو اسلامی الفکر شعرا کی صف میں شامل ہوکر اسلامی شاعری کا حق ادا کرتے ہوئے میدان عمل ہیں اور حق اور اہل حق کی نمائندگی اپنے کلام میں کرتے ہوے نظر آرہے ہیں۔ ایسے دور جس میں شعر وشاعری کے معنی ہی بدل گئے ہیں اور شعر وسخن میں رفعت وطہارت کی جگہ ابتذال وپست مذاقی حقیقت طلبی وحق پسندی کے بجائے مجاز پسندی اور شاہد پرستی اور ہر طرح کی بد مذاقی اور تسفل نے لے لی ہے۔

خوش مذاقی وبلند فطرتی اعلیٰ ظرفی وبلند نگاہی، حق طلبی و حقیقت سنجی، سوز گداز اور درد ومحبت کی پاکیزہ روایات قائم رکھے ہوئے ہیں اور بڑھاپے میں بھی ان کی شاعری جوان، پرکیف، روح پرور اور دل افروز ہے۔ کیوں نہ ہو جو شیخ المشائخ مفسرقرآن، شیخ الحدیث حضرت اقدس مولاناحمداللہ جان باباجی رحمۃ اللہ علیہ کا لاڈلا ہو، ان کی صحبت میں بیٹھنے والا ہو، اپنے دامن کو ان کی دعاؤں سے بھرنے والا ہو، ان کاتربیت یافتہ ہو، ایسے عالم دین شاعر کا کلام اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت کرنے والوں کے دلوں پر اپنے نقوش کیسے نہ چھوڑے۔ مولانا احسان اللہ فاروقی حضرت اقدس باباجی رحمۃ اللہ علیہ کے ہرپروگرام میں شریک سفر رہتے۔ انھیں حضرت اقدس باباجی کی خدمت کا بہت موقع ملا اور ان کی خوب خدمت کی اور ان سے دعائیں لیں۔ یہ اللہ والوں ہی کی دعاوں کا اثر ہے کہ آج پشتو اوراردو بولنے والے ان کی حمد اور نعتیں خشوع و خضوع سے سنتے ہیں اور اپنے دلوں کو آقا کریمﷺ کی محبت سے منور کرتے ہیں۔ مولانا کی حمد کے چند اشعار جنھیں بے حد پذیرائی ملی.

ہمارا اور تمہارا اللہ ہی کا سہارا

جسکاہے جہاں سارا اللہ ہی کاسہارا

جن وبشر ہے اسکا شجر حجر ہے اسکا

ھوں ظلمتوں کا مارا اللہ ہی کا سہارا

کوئی نہیں ہے جسکا وہی ہے فقط اسکا

دیتاہے سب کوپیارا اللہ ہی کا سہارا

سارے جہاں کاخالق ہے ہرکسی کارازق

اس کے رہو خدارا اللہ ہی کا سہارا

یہ زندگی اسی کی ہے بندگی اسی کی

اللہ ہو اللہ نعرا اللہ ہی کا سہارا

وہ عظمتوں کا مالک وہ رفعتوں کا مالک

کافی ہے اک اشارے اللہ ہی کا سہارا

فاروقی سیاہ کارہے بدکاروگنہگارہے

ڈوبا ہوا ہوں سارا اللہ ہی کا سہارا

سبحان اللہ، سبحان اللہ

مولانا احسان اللہ فاروقی کی نظریاتی شاعری نے انھیں بڑے بڑے اکابرین کے قریب کردیا۔ شیخ غریب اللہ بابا، شیخ غلام حیدر بابا، شیخ عبدالحنان بابا، شیخ عبدالواجد بابا، شیخ فیض الرحمان بابا، شیخ جمال الدین گلستان باباجی، شیخ شمس الہادی بابا، شیخ فضل الٰہی بابا، مفتی ضیاء الحق، شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی، مولانا عبداللہ درخواستی، شیخ عبدالحق بابا، شیخ عبدالحلیم بابا، مولانا شیرعلی شاہ بابا، مولانا قاری محمد اجمل خان، مولانا عبیداللہ انور، مولانا مفتی محمود، مولانا غلام غوث ھزاروی، مولانا ایوب جان، مولانا جلال خالق، مولانا فضل مولا، مولانا عزیزالرحمان ڈھکی، قطر کے یوسف القرضاوی، پیر طریقت مولانا عبدالحفیظ مکی ایسے بزرگوں کی نسبتوں کے حامل ہیں۔

1977 سے شروع ہونے والا ان کی شاعری کا سفر الحمدللہ ابھی تک جاری ہے، پاکستان کے علاوہ وہ سعودی عرب، دوحہ، قطر، عرب امارات، مسقط، کویت، تھائی لینڈ، ملائشیا، سری لنکا، برما، ہانگ کانگ، چین، افغانستان میں اپنے ہنر کا لوہا منوا چکے ہیں، ان ممالک میں بے شمار عقیدت مند موجود ہیں۔ مولانا نے جو کتابیں لکھیں ان میں دجواھرو خزانہ، کلام د پنزو شاعرانو، دضمیراواز، داحساساتو پہ دار، زما خائستہ محبوبہ ڈیر خکلہ شامل ہیں۔

تقریباً پچاس تک منظوم اور نثری کتابیں منظرعام پر لانے کے منتظر ہیں لیکن حالات کی گردش کی وجہ سے اتنا بڑا علمی ذخیرہ طباعت کے مراحل تک پہنچنے سے قاصر ہے۔ مولانا احسان اللہ فاروقی آج کل کراچی میں مقیم ہیں۔ ایسی شخصیات ملک و ملت کا اثاثہ ہواکرتے ہیں جن کی قدر ہم سب پر فرض بھی ہے اور قرض بھی۔