Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Sharai Parda Aur Taliban (2)

Sharai Parda Aur Taliban (2)

"پردے اور باحیا لباس سے بیزار مرد و خواتین خاص کر کالج اور یونیورسٹی (اب تو بات اسکولوں تک آگئی) کے طلبہ اور طالبات سے جب بھی شرم و حیاء کے بارے بات کی جائے تو تقریباً ایک جیسا بلکہ ایک ہی جواب دیتے ہیں ِ، " حیاء تو دل میں یا آنکھوں میں ہوتی ہے، اس کا لباس سے کیا تعلق ہے۔"

جب ان کو سمجھائیں کہ شرم و حیاء کا لباس سے گہرا تعلق ہے۔ جو لڑکی اپنے جسم کو اچھی طرح ڈھانپتی ہے وہ حیاء کا پیمانہ ہے اور اگر کوئی لڑکی ایسا کرنے میں شرم محسوس کرتی تویہ بے حیائی کا پیمانہ ہوتا ہے"۔

تو نوجوان نسل اس سوچ و فکر کو دقیانوسی اور مخاطب کو اجڈ، جاہل، ظالم و جابر اور عورتوں کے حقوق کے غاصب کا ٹائٹل دینے میں دیر نہیں لگاتی، ان سے صرف یہی درخواست کی جاسکتی ہے، چلیں جاہلوں اور غیرمہذب لوگوں کی نصیحت کو نہ مانو مگر ان کی تو مان لو جن کی پیروی آپ کرنا چاہتے ہیں۔ سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلیئر کی بیگم کی سگی بہن لارن بوتھ اور جاپانی نو مسلمہ خولہ لکاتا اور ان جیسے دوسرے نو مسلموں کو ہی سن کر ان کی مان لو۔

میرا جسم میری مرضی کی فکر و سوچ اور بے پردگی کے موجودہ رجحان ہی مینار پاکستان کے واقعے کے محرکات ہیں۔ مینار پاکستان کا واقعہ ہماری ریاست اور قوم کے اجتماعی شعور کو جھنجھوڑ کر متنبہ کررہا ہے کہ " نئی نسل کو بے حیائی سے بچانا ہر مسلم معاشرے کے لیے دہشت گردی سے بڑا چیلنج ہے۔"

بے حیائی اور بے پردگی کے سیلاب کو روکنے کے لیے بند باندھنے میں بنیادی کردار ریاست کا ہونا چاہیے کیونکہ ریاست ماں ہوتی ہے، اس کے بعد ماں، باپ، بھائی اور استاد کا ہے۔ سب کو بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ اہل رائے اور دانشور حضرات کے کندھوں پر بھی یہ ذمے داری ہے کہ قوم کی بچیوں کی راہنمائی کریں اور ہر فورم پر بے حیائی کے خلاف ڈٹ جائیں اور پوری جرأت سے اس کے خلاف نفرت کا اظہار کریں۔ یہ میری یا آپ کی نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی ہر باشعور مسلمان کی ذمے داری ہے اور اگر اس میں غفلت و کوتاہی برتی تو ہم اپنی آیندہ نسلوں کے مجرم ٹھہریں گے۔

اگر ہم کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان میں بطور ریاست پردے کا اہتمام امارت اسلامی افغانستان کی طرح نہیں کرسکتے تو اس پر امارت اسلامی افغانستان کو تنقید کا نشانہ بنانا اور اسے عورتوں کے حقوق کو غضب کا نام دے کر ان کے خلاف محاذ بنانے والوں کی صف میں کھڑے ہونا بھی بہت بڑی زیادتی ہے۔

افغانستان میں شرعی پردے کی پابندی ہورہی، ہم اگر تعریف نہیں کر سکتے تو تنقید اور مذاق تو بالکل نہ اڑائیں، کیونکہ پردہ اللہ کا امر ہے۔ پردہ قرآن کے حکم کے مطابق فرض ہے، شریعت مطہرہ کا بنیادی اصول ہے۔ اﷲ سب مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کرے۔ میری ایک ہی درخواست ہے ایسے لوگوں سے جنھوں نے پردے اور دوسرے فرائض کے بارے ابہام کا شکار ہیں، وہ اس معاملے میں کسی مستند اور با اعتماد عالم دین و مفتی سے شریعت مطہرہ کی روشنی میں رائے ضرور لیں، ایسا نہ ہو کہ مذاق مذاق میں ایمان سے فارغ ہوجائے۔

اب میں اپنے ملک کے لبرل مرد اور خواتین کو پردے کے حوالے سے اپنی تہذیبی روایات بتانے کی کوشش کرتا ہوں۔ پردہ ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی روایت اور قدر ہے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ہماری مائیں بہنیں اپنے اپنے انداز میں پردہ کرتی ہیں۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ شرعی اعتبار سے بھی اور ہماری معاشرتی اور تہذیبی اقدار کے اعتبار سے بھی پردہ لازم ہے۔ یاد رکھیں یہ پردہ محض روایت نہیں بلکہ شرعی حکم اور عورت کے تحفظ کا ضامن ہے۔