الحمدللہ ہم نے پاک وطن کی آزادی کی 73بہاریں دیکھ لی ہیں، خدا کرے کہ میرے ارض پاک کو ہر قسم کی آفات، بلاؤں، پریشانیوں اور مایوسیوں سے دور رکھے اوراسے اس منزل کے قریب کردے جس کے لیے ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔
اگست کی 14 تاریخ کو یہ مملکت خداداد دنیا کے نقشے پر ابھر کر سامنے آئی تھی، اسی لیے اسے ماہِ آزادی بھی کہا جاتا ہے، اور اس مہینے میں کراچی سے خیبرتک ملک بھر میں جشن آزادی کی تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے، امسال بھی ان تقاریب کا سلسلہ یکم اگست سے شروع ہوا اورآخر تک جاری و ساری رہے گا، چند روز قبل 14 اگست کے موقعے پر وطن عزیز کے گوشے گوشے میں جشن آزادی دھوم دھام سے منایا گیا، شہروں اور شاہراہوں پر جس طرح نوجوان شادمانی و مسرت کا اظہار کررہے تھے انھیں شاید معلوم نہیں کہ ان کی اس خوشی کے پیچھے کتنی آہیں اور سسکیاں چھپی ہوئی ہیں۔ پاکستان ملت اسلامیہ کی واحد ریاست ہے جسے کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کیا گیاتھا۔
اسی کلمہ کے نام پر قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال، مولانا محمد علی جوہر، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا شبیر احمد عثمانی ایسے اکابرین نے مسلمانوں میں وحدت ملی کا شعور بیدار کیا اور ہندو قوم کے تاریخی کردار اور اس کے عصری خطرناک عزائم کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کے دین و مذہب، جان و مال اور تہذیب و تمدن کی حفاظت کے لیے اپنی فکری اور عملی توانائیاں وقف کر دیں۔ ان اکابرین ملت کا خیال تھا کہ " آیندہ نسلوں کی فکر کرنا ہمارا فرض ہے۔
ایسا نہ ہو کہ ان کی زندگی ایسی اقوام کی طرح ہو جائے جو رفتہ رفتہ اپنے دین اور کلچر کو ہی فنا کر بیٹھیں "۔ اسی لیے ان اکابرین نے برصغیر میں مسلمانوں کے لیے ایک آزاد مملکت کا تصور ہزار سالہ اسلامی تمدن کی حفاظت اور بقا کے لیے پیش کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ اس ملک میں اسلام ایک تمدنی قوت کے طور پر زندہ رہے۔ یہ تبھی ممکن تھا جب ایک آزاد مملکت دنیا کے نقشے پر ابھر کر آتی جس میں کلمہ طیبہ کا نظام عملی طور پر رائج ہو سکے۔ الحمدللہ 14 اگست 1947کو اسلامی جمہوریہ پاکستان معرض وجود میں آیا، بلاشبہ یہ مملکت خدا داد خالص نعمتِ خدا وندی ہے۔
اللہ رب العزت نے ہمیں یہ آزاد مسلم ریاست ایسے حالات میں عطا فرمائی جب اسلام دشمن قوتیں اہل اسلام بالخصوص مسلمانان بر صغیر کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے گھناؤنے منصوبوں پر عمل پیرا تھیں۔ اسی لیے قیام پاکستان کے خاکے میں کم و بیش دو لاکھ مسلمانوں نے اپنے خون سے رنگ بھرے۔ ہندو، سکھ اور انگریز سب مل کر ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے کہ مسلمان الگ سے آزاد ریاست قائم نہ کرسکیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ظالم سامراج نے وہ کون سا ظلم تھا جو برصغیر کے مسلمانوں پر نہ کیا ہو، پورے بر صغیر میں لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا، جہاں کہیں مسلمان آباد تھے ان کے محلوں، قصبوں اور شہروں کو لوٹا گیا، گھروں اور دکانوں کو جلایا گیا، مساجد و مکاتب کی حرمت کو پامال کیا گیا، ہزاروں مسلمان بچیوں کی عصمت دری کی گئی۔
آزادی کے متوالوں نے پھانسی کے پھندے چومے، ہزاروں کڑیل جوانوں نے ارض پاک کے حصول کے لیے کارزار کی پیاسی زمین کو اپنے لہو سے سیراب کیا، بہتے دریاؤں کواپنے خون کا خراج دیا، گنگا، جمنا، راوی اور ستلج نے بے کسوں کے خون کی سرخ چادر اوڑھی، کئی سہاگ سسکیوں میں گم ہوگئے، ہزاروں معصوم شیرخوار بچے موت کی وادی میں جا سوئے، بر صغیر کا مسلمان سمجھتا تھا زندہ قوموں کے لیے غلامی سوہانِ روح ہے، اس لیے وہ ہر طرح کی ذہنی کوفت، قلبی اذیت، بے چینی، بے قراری اور درد و کرب کو ہنس کر برداشت کرتے رہے۔ برصغیر میں لگنے والی آگ بہار سے لے کر مشرقی پنجاب تک کو جھلسا رہی تھی، پلاسی کے میدان سے لے کر سرنگاپٹم تک اور پانی پت سے لے کر کرنال تک کی سرزمین لہو لہو تھی۔
کتنی انفرادی داستانیں ہیں جو تقسیم ہند سے جڑی ہیں، ہر داستان ایک سے بڑھ کر ایک، اور دل دہلا دینے والی ہے، سب کا ذکر کرنا ممکن نہیں لیکن ایک داستان قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ نکاح کی تقریب جاری تھی، نکاح خوان نے دلہا سے اس کا نام پوچھ کر لکھا اور پھر اس کے والد کا نام پوچھا۔ دلہا اس سوال سے گھبرا گیا اور نکاح خوان سے کہا ہم گھر میں دو ہی افراد ہیں، میں اور میری ماں، میں نے کبھی اپنی والدہ سے اپنے والد کا نام پوچھا ہی نہیں لہٰذا میں اپنی والدہ سے پوچھ کر آتا ہوں۔ یہ کہا اور گھر چلا گیا۔
محفل میں موجود لوگوں میں سے کسی کو بھی اس کے والد کا نام معلوم نہ تھا۔ گھر میں داخل ہو کر اس نے والدہ سے اپنے والد کا نام پوچھا۔ والدہ بھی گھبرا گئی، جیسے اس کی زبان پر تالا ہی لگ گیا ہو۔ دلہا نے کئی بار اپنی والدہ سے پوچھا، جواب نہ ملنے پر شدید طیش میں آگیا اور غصے میں اپنی ماں سے نہ جانے کیا کیا اول فول بکتا رہا۔ گھر میں جمع تمام عورتیں بھی خاموشی سے ماں بیٹے کا مکالمہ سنتی رہیں اور حیران تھیں کہ آج تک یہ سوال کرنے کا خیال ہمیں کیوں نہیں آیا۔
(جاری ہے)
جب کہ ماں بیٹے کی زندگی اسی محلے میں گزری ہے۔ یہ چھوٹا سا تھا جب سے ہم ان دونوں کو اپنی گلی میں اسی مکان میں دیکھ رہے ہیں۔ اس عورت نے شاید اپنے بچے کو سکول بھی اسی لیے داخل نہیں کرایا کہ اس کے باپ کا نام تو جانتی نہیں۔ اچانک اس نے اپنی ماں سے کہا اگر تو مجھے میرے باپ کا نام نہیں بتاسکتی، تو اس شرمندگی کی زندگی سے بہتر ہے میں خودکشی کرلوں۔ جیسے ہی ماں نے بیٹے کے یہ الفاظ سنے، تو تڑپ اٹھی اور بھاگ کر اسے روکا اور کہا میری بات سن لو پھر جو جی میں آئے کرلینا۔ پورے گھر میں خاموشی طاری تھی سبھی اس عورت کے لب ہلنے کے منتظر تھی۔
وہ گویا ہوئی " پاکستان بننے کے بعد ہمارے والد اور خاندان کے تمام مرد و عورتیں ہجرت کرکے پاکستان کے لیے عازم سفر ہوئے، راستے میں کسی جگہ ہمارے قافلے پر ہندو بلوائیوں نے حملہ کردیا۔ ہمارے مرد جان توڑ کر لڑے، ان کی تعداد اور اسلحہ کی وجہ سے ہماری حفاظت نہ کرسکے او رسب شہید ہوگئے۔ لڑائی کے دوران میرے والد نے رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر ہم عورتوں کو نکالنا چاہا، لیکن میرے علاوہ کسی کو بھی بچانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ میرے خاندان کی باقی عورتوں کا کیا حال ہوا میں نہیں جانتی۔
مردوں اور عورتوں میں سے کوئی زندہ بچا بھی یا نہیں، مجھے کچھ پتا نہیں۔ وہاں سے بھاگنے کے بعدمیں انتہائی خوفزدہ حالت میں دن تو چھپ کر گزار دیتی اور رات کو اللہ کا نام لے کر اس راستے پر چل پڑتی، جس کا روانگی سے پہلے ہمارے مرد حضرات آپس میں تذکرہ کرتے تھے۔ ایک رات دوران سفر میں نے کسی جگہ پر ایک بچے کے رونے کی آواز سنی، آگے جاکر دیکھا تو کئی لاشوں کے درمیان ایک شیر خوار بچہ پڑا رو رہا تھا۔ میں نے اسے اٹھالیا، سینے سے لگائی سفر کرتی آخر کار پاکستان پہنچ گئی۔ مہاجر کیمپوں میں کسی جگہ بھی مجھے اپنے خاندان کا کوئی فرد نظر نہ آیا اور یوں میری دنیا صرف میرے اور اس بچے تک محدود رہ گئی۔
میری عمر کم تھی اورابھی میری شادی بھی نہ ہوئی تھی۔ اپنی باقی زندگی میں نے اس بچے کی خاطر تنہا گزار دی اور آج وہ بچہ میرے سامنے کھڑا ہے۔ اب بتاؤ رات کے اندھیرے میں لاشوں کے درمیان سے اٹھائے گئے بچے کے باپ کا نام مجھے کون بتاتا؟ ماں کی بات مکمل ہونے تک ہر آنکھ اشکبار تھی، اور وہ بیٹا جو کچھ دیر پہلے ماں کو جلی کٹی سنا رہا تھا، حیرت اور ممنونیت کا پہاڑ بنا کھڑا تھا۔ پھر شرمندگی کے ساتھ آگے بڑھا اور اس عورت کے حسانات کا بوجھ اٹھائے اس کے قدموں میں گر گیا۔ یہ ایک داستان ہے، ایک کروڑ انسانوں کی ہجرت میں ایسی لاکھوں داستانیں مل سکتی ہیں۔ اس ہجرت کو دنیا کی سب سے بڑی ہجرت قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی منزل پاکستان تھا ایک ایسا پاکستان جسے اسلام کی تجربہ گاہ بننا تھا، جس میں کلمہ طیبہ کا عملی نفاذ ہونا تھا۔
آج 73 سال بیت چکے ہیں لیکن ہم ابھی تک اپنی منزل حاصل نہیں کرسکے، ہم نے لاکھوں شہداء کے خون سے وفا نہیں کی، ہم نے تحریک پاکستان کے ہیروز اور ان کی قربانیوں کو فراموش کردیا، تحریک پاکستان میں ہر اول دستے میں شامل علماء کی تعلیمات اور خدمات پر پانی پھیر دیا، اسی لیے اب ہر گزرنے والا دن ہمیں ہماری منزل سے دور کرتا چلا جارہا ہے۔ آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ نظریاتی یکجہتی، فکری وحدت اور اتحاد و اتفاق سے محرومی ہے۔ سات دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن ہم اپنے گلوں کو محرومی کے طوق سے نجات نہیں دلاسکے۔ بس شتر بے مہار کی طرح دوڑے چلے جارہے ہیں، رستے کا پتا ہے نہ منزل کی خبر، بس دوڑے چلے جارہے ہیں۔
قائد اعظم کا نظریئہ پاکستان بڑا واضح تھا، اس میں کوئی کنفیوژن نہیں تھا، جن اکابرین اور مسلمانوں نے تحریک پاکستان میں مسلم لیگ کا ساتھ دیا ان کی سوچ میں بھی کوئی ابہام نہ تھا، جب جب پوچھا گیا کہ پاکستان کا مطلب کیا؟ تب تب ببانگ دہل بتایا گیا "لا الہ الا اللہ"۔ لیکن اس کے باوجود چند کھوٹے سکوں نے پوری قوم کو بھٹکا دیا، منزل سے دور کردیا۔ آج انھی کھوٹے سکوں کی نام نہاد روشن خیال اولادیں سوال کرتی ہیں کہ پاکستان بنانے کا مقصد کیا تھا؟ یہ سوال ان لاکھوں شہدائے آزادی کی روحوں کو تڑپا رہا ہے۔
یہ شہداء جنہوں نے ایک اسلامی پاکستان کے لیے اپنی جانیں قربان کیں، اب توان کی اولادیں بھی اپنے بزرگوں کا خواب شرمندئہ تعبیر ہونے سے پہلے دنیا سے جارہی ہیں، لیکن جو زندہ ہیں وہ آج بھی اس ملک کوحقیقی اسلامی مملکت کے طور پر دیکھنے کے لیے کوشاں ہیں اور اس کی حفاظت کے لیے ہمہ وقت تن، من دھن کی بازی لگانے کے لیے مستعد ہیں۔ میرے باباجی شیخ القرآن والحدیث حضرت مولانا حمد اللہ جان ڈاگئی باباجی فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان کی حفاظت ہمارا ایمان اور نظریہ ہے، کیونکہ یہ ملک لاالہ الا اللہ کے نام پر بنا ہے اور یہی اس کی بقا کا ضامن ہے اس لیے جس طرح لا الہ الا اللہ کی حفاظت ہمارے ایمان کا حصہ ہے عین اسی طرح اس ملک کی حفاظت بھی ہمارے ایمان کا جزو لازم ہے۔
لیکن گزشتہ سات دہائیوں میں اس مملکت خداداد کا اقتدار جن کے پاس رہا وہ اللہ کی عدالت میں کیا منہ لے کے جائیں گے، اسے کیا جواب دیں گے؟ وہ ان سے پوچھے گا کہ میں نے تمہیں اقتدار دیا اختیار دیا پھر بھی تم اس ملک میں کلمہ طیبہ والا نظام رائج نہیں کرسکے… ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہوگا، وہ خدا کے سامنے بھی شرمندہ ہوں گے اور ان لاکھوں شہدائے آزادی کے سامنے بھی جنہوں نے اس ملک کی بنیادوں کو اپنے لہو سے سینچا۔