گزشتہ دنوں میرے عزیز دوست جاوید اقبال یوسفزئی کی جانب سے ایک ویڈیو کلپ موصول ہوا، میرا دوست ابھی تک نئے پاکستان کے سحر میں مبتلا تبدیلی کے جھولے جھول رہا ہے۔
ویڈیو کلپ خاصا پرانا تھا لیکن اس میں جس انداز سے مدارس دینیہ پر بیجا تنقید کی گئی تھی مقصد مجھے سنانا تھا کیونکہ نئے پاکستان کے دعویداروں کے ایجنڈے میں مدارس دینیہ کا "کنٹرول" بھی شامل ہے۔
اسی لیے ان کی نظروں میں پاکستان کے مدارس شہتیر بن کر چبھ رہے ہیں۔ کسی کو شک ہو تو گزشتہ اڑھائی برسوں میں مدارس کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات کاجائزہ لے سکتا ہے جہاں آپ کو کہیں نصاب میں تبدیلی کا ہتھیار نظر آئے گا، کہیں اسلام آباد کیپیٹل ٹریٹری (آئی سی ٹی) وقف املاک ایکٹ 2020 دکھائی دے گا۔
میں نے بھی اس تناظر میں جواب یا مدارس کا مقدمہ اس نیت سے لڑنے کی ہمت کی، ادھر تو شاید زیر عتاب رہوں مگر حشر کے میدان میں شاید قرآن وحدیث کے مراکز اور دین مبین کے قلعوں کے حق میں لکھے گئے چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ کچھ آسانی پیدا کریں اور رب کی رضا کا ذریعہ بن جائیں۔
اب آتے ہیں ویڈیو کی طرف جس میں ایک ادھیڑ عمر شخص مسند نشین ہے، وہ اپنے بیان میں مدارس کے بارے خاصی زور دار تقریر جھاڑ رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ " پاکستان بنے ستر سال ہوگئے ہیں، ان ستر برسوں میں مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والا کوئی بندہ، کوئی جج، کوئی مجسٹریٹ، کوئی سیکریٹری، کوئی پولیس آئی جی، کوئی ڈی آئی جی، ایس پی، فوج کا کوئی جرنیل یا کم از کم سپاہی ہی سہی نہیں آیا۔
جب مدارس نے بندے تیار کرکے نہیں دینے تو ملک کا نظام وہی چلائیں گے جو دین سے واقف نہیں، پھر چیختے کیوں ہو، روتے کیوں ہو؟ پھر آپ کی ہڑتالیں کس کام کیں؟ یہ ہڑتالیں عہد نبوی، خلفائے راشدین، تابعین کے دور میں ہواکرتی تھیں؟ اسلام میں اس بات کا کوئی تصور ہے کہ راستے بند کردو، دکانیں بند کردو، گھر جلا دو، بندوں کو قتل کردو۔ یہ اسلام ہے؟
یہ اسلام کے نام پر کیا ہورہا ہے۔ کہتے ہیں حکومت خراب ہوگئی ہے، بھئی! حکومت نے تو خراب ہی ہونا ہے آپ نے حکومت کو کوئی نیک بندے دیے ہیں؟ آپ مدارس سے فارغ ہونے والوں کو پی ایچ ڈی کراتے، سول سروس میں بھیجتے، کوئی جج لگواتے، کوئی ہائی کورٹ کا جج، کوئی سپریم کورٹ کا جج ہوتا۔ اس ملک میں سب سے کم ہندو ہیں، ہندو بھی چیف جسٹس ریٹائر ہوا ہے مولوی کیوں نہیں ہوتا؟ "
یہ باتیں بظاہر ایک باریش کی ہیں لیکن یہ زبان مدارس کے کسی بڑے ناقد کی لگتی ہے، ایسی ہی تنقید مدارس مخالف لابی کرتی ہے۔ جو شاید بھول جاتی ہے کہ برصغیر میں انگریز کے آنے سے قبل اسکول، کالج یا یونیورسٹیوں کا کوئی تصور موجود نہیں تھا، صرف مدارس کا ہی ایک نیٹ ورک تھا جہاں دینی و دنیاوی تمام علوم پڑھائے جاتے تھے۔
تاریخ اسلام اس بات کی شاہد ہے کہ اسلامی حکومتوں نے ان مدارس کی سرپرستی کی جہاں سے علم و حکمت اور سائنس کے بڑے بڑے موجد پیدا ہوئے۔ جابر بن حیان کیمیا کا موجد، ابن الہیشم طبیعات کا موجد، ابو الفیض بصریات کا موجد، عمر الخیام الجبرا کا موجد اور دیگر بے شمار سائنسدان جن کا اعتراف آج بھی مغرب کے محقق کرتے ہیں یہ سب کے سب مدارس ہی سے نکلے۔ زمین گول ہونے کا مسئلہ خلافت عباسیہ کا کارنامہ ہے، اسلامی اندلس میں سائنس کے ہر شعبے میں تحقیقات کی تمام تر سہولتیں میسر تھیں، طب کو بطور خاص فروغ حاصل ہوا۔
جامعہ قرطبہ میں کیمیا، جغرافیہ اور تاریخ کے شعبے شامل ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مسلمان عربی بولنے والے تہذیب و ثقافت کے عظیم مستقبل بردار ثابت ہوئے۔ بنوامیہ نے 661ء میں دمشق میں سائنسدانوں کو جمع کیا اور ان کی حوصلہ افزائی کی، اس وقت سب سے زیادہ پر مغز کتابیں سائنس اور حکمت کی تھیں اور وہ عربی زبان میں تھیں، اس کا سہرا مدارس ہی کے سر سجتا ہے۔
علم و حکمت کے اس دور میں مسلمان حکمرانوں نے مشرق وسطیٰ، اندلس اور پرتگال میں شاندار مدارس قائم کیے۔ جہاں سے مسلمانوں نے علم کی ہر شاخ اور ہر فن میں نئی تحقیقات کا آغاز کیا ان کے کارنامے رہتی دنیا تک قائم رہیں گے اور ان کے مقابلے میں مغرب کے معاصر سائنسدان کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ جدید سائنس کی بنیاد ہی انھیں مدارس میں مسلمان سائنس دانوں نے رکھی۔ دنیا پر انگریزی راج سے پہلے تک علم و حکمت اور سائنس کے مراکز یہ مدارس ہی تھے ہر طالب علم کے لیے علوم شریعہ کا حصول لازم ہوا کرتا تھا لیکن انگریز کے نزدیک دینی اور دنیاوی علوم جدا جدا تھے اس لیے انگریزوں نے تعلیم کو دینی اور دنیاوی دو حصوں میں تقسیم کردیا اور برصغیر پاک و ہند میں ایسا نظام تعلیم متعارف کرایا جو ان کے سیاسی مقاصد کی تکمیل کرتا تھاجب کہ مدارس کو صرف علوم شریعہ تک محدود کیا گیا۔
ایسے حالات میں مسلمانوں کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ ایک خالص دینی تعلیم کے قیام پر توجہ دیتے، یہ ایک دفاعی حکمت عملی تھی جو اس وقت اختیار کی گئی تھی جس کا مقصد اسلامی علوم و فنون کا تحفظ کرنا تھا۔ انگریزوں کے نظامِ تعلیم (لارڈ میکالے) کی آمد سے پہلے برصغیر میں تعلیم کا واحد ذریعہ یہی دینی مدارسِ عربیہ ہی تھے اور تحریک آزادی اور تحریک خلافت کی تمام قیادت ان مدارس سے فارغ التحصیل تھے۔
جب برصغیر میں انگریز نے قدم رکھے اس نے اسکول اور مدرسہ علیحدہ کردیے کیونکہ انگریز اس بات کو اچھی طرح جانتا تھا کہ اس کے عزائم کو خاک میں یہی مدارس سے نکلنے والے پکے سچے اور سْچے علماء ہی ملائیں گے۔ مدرسے اور اسکول کی تقسیم انگریز نے پیدا کی لیکن اسے دوام بخشنے میں انھیں انگریزوں کے کتے نہلانے والے جاگیرداروں کا کردار رہا اور آج بھی کسی نہ کسی سطح پر یہ کردار جاری ہے کیونکہ انھی لوگوں نے لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کو اسٹیٹس سمبل بنا کر معاشرے پر مسلط کردیا اور معاشرہ آج تک بھیڑ چال کی طرح اس نظام کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔
مدارس کے نظام کو بچانے کے لیے انگریز دور کے علماء نے جو دفاعی پوزیشن اختیار کی تھی آج بھی ہمارے علماء اسی پوزیشن پر کھڑے ہیں کیونکہ انگریز تو چلا گیا لیکن اس کی باقیات آج بھی مدارس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہے۔ کون سا دور ایسا گزرا جس میں مدارس کو آزادانہ طور پر کام کرنے دیا گیا ہو یا انھیں پابندیوں کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔ انتہائی مشکل حالات کے باوجود ہر دور میں علماء نے مدارس میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم بھی پڑھائے۔
بہت سے مدارس میں ریاضی، طبعیات، ارضیات، فلکیات، طب نبوی اور کئی دوسرے عصری علوم کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں مگر ہمارے حکمرانوں نے اس نظام کی سرپرستی کیا کرنی تھی مسلسل مدارس کی بیخ کنی کرتے رہے۔ اس لیے اگر مدارس کوئی آئی جی، ڈی آئی جی، کوئی جرنیل یا کوئی جج پیدا نہیں کرسکے تو اس میں مدارس کا قصور نہیں اور نہ ہی ان پر یہ اعتراض بنتا ہے، یہ سوال جاکر حکمرانوں سے پوچھا جائے کہ آپ نے دینی مدارس کے ساتھ انگریزوں کی طرح دشمنی کیوں کی؟
موجودہ حالات میں مدارسِ کو انجنیئر اور ڈاکٹر پیدا نہ کرنے کا طعنہ بالکل ایسا ہے انجینئرنگ یونیورسٹی سے یہ گلہ کہ وہاں سے سرجنز اور فزیشن پیدا نہیں ہوتے اسی طرح میڈیکل یونیورسٹی سے یہ گلہ کہ آج تک کوئی انجینئر پیدا نہیں کیا، ذی شعور بندہ نہیں کرسکتا مگر افسوس کہ اگر شعور بکتا تو ضرور خرید کر معترضین کو دے دیتے۔
باقی گلہ کرنے والے مدارس مخالف لابی کے لیے اطلاعاً عرض کرونگا کہ تمام اسکولوں اور کالجوں میں اسلامیات، عربی اور قرآن کریم پڑھانے والے اساتذہ ان مدارسِ سے فارغ التحصیل ہیں اور پاکستان آرمی میں مدارس کے فارغ التحصیل علماء کرام کمیشنڈ آفسیرز بھی ہیں اور شریعت کورٹ کے جج بھی مگر اس بیچارے کو تو پرچہ تھما دیا گیا تھا اس نے وہی پڑھنا تھا سو پڑھ دیا۔
مگر لمحہ فکریہ اور تشویشناک بات یہ ہے کہ مدارس کو انجینئر اور ڈاکٹر پیدا نہ کرنے کے طعنے دیے جارہے ہیں اور دوسری طرف سیرت النبیﷺ اور اسلامی تاریخ کے مضامین نصاب سے نکالنے کی کوشش ہوتی ہے، گزشتہ دنوں پنجاب حکومت کی جانب سے ایسی ہی ایک کوشش ہوئی جسے علماء نے ناصرف بے نقاب کیا بلکہ حکومت کو وہ نوٹیفکیشن واپس لینے پرمجبور کردیا۔
اتاترک کا جانشین بننے کی کوشش تو پرویز مشرف نے بھی کی تھی مگر اب عمران خان کی حکومت کے تیور بھی ایسے ہی نظر آتے ہیں، اس ملک میں کوئی اجنبی ایجنڈا کسی صورت آگے نہیں بڑھ سکتا، کسی کو شوق ہے زور لگا کر پورا کرلے، اس کے اپنے ساتھی ہی دیوار بن کر کھڑے ہوں گے۔