Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Wasi Al Bunyad Amarat e Islami

Wasi Al Bunyad Amarat e Islami

طالبان نے وادیِ پنجشیرکے سوا پورے افغانستان کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ وادیِ پنجشیر کا بھی محاصرہ کر رکھا ہے، لیکن ان کی ترجیح یہ ہے کہ بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل ہو جائے، ورنہ طالبان کے کہنے کے مطابق اگر وہ راہ راست پر نہ آئے تو 24 گھنٹے کے اندر پنجشیر کو فتح کریں گے، اور یہ بات احمد شاہ مسعود کے ہم نام بیٹے اور چند کابل سے بھگوڑوں کی سمجھ میں آچکی ہے۔

جو مبصرین 2021 کے پنجشیر کو 1995 کا پنجشیر اور 2021 کے طالبان کو 1995کے طالبان سمجھ رہے، وہ بہت بڑے مغالطے میں ہیں۔ 1995 کے پنجشیر کے محاذ پر قیادت اس احمد شاہ مسعود کے پاس تھی جو روس جیسے سپر پاور کے خلاف بہادری سے لڑے۔ اس دوران وہ کبھی پنجشیر سے نہیں نکلے اور نہ روسی افواج کبھی پنجشیر میں داخل ہوئی۔ جب روس افغانستان سے نکلا تو دنیا اس شیر پنجشیر کو جان گئی جس نے روسی افواج کی عبرتناک شکست میں بنیادی کردار ادا کیا۔

روس کے انخلاء کے بعد پشاور میں ہر دوسرے رکشے کے پیچھے شیر پنجشیر کا ایک مخصوص فلیکس لگا ہوتا تھا، وہ ایک فاتح تھا۔ اور دوسری طرف طالبان اگرچہ سارے کے سارے مجاہد اور روس کو دریائے آمو کے پار دھکیلنے والوں میں شامل تھے مگر بحیثیت تنظیم طالبان نو وارد اور جنگی حکمت عملی میں احمد شاہ مسعود سے کمزور اور رحم دلی میں ان سے بہت آگے تھے۔ انھی وجوہات کی بنیاد پ طالبان پنجشیر فتح نہیں کر سکے۔

مگرصورتحال بدل چکی ہے۔ احمد شاہ مسعود کا ہم نام بیٹا غلام افعانستان اور آسائشوں میں پلا بڑھا، وہ جنگ سے ناآشنا ہے، دوسری طرف 2021 کے طالبان امریکی مال غنیمت میں آئے ہوئے جدید اسلحے سے لیس، 20 سال کا جنگی تجربہ اور میدان جنگ سے لے کر مذاکرات کی میز پر عالمی قوتوں کو شکست دینے والوں کا مورال آسمان کی بلندیوں پر ہے۔

افغانستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ طالبان نے تقریباً پورے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔

افغانستان کی تمام سابقہ حکومتیں کابل کے کنٹرول پر اکتفا کرکے قبائلی اشتراک سے معاملات کوچلاتی رہیں اور پوری دنیا نے بھی کابل کو افغانستان سمجھ کر سابقہ حکومتوں کو تسلیم کیا۔ جس کے پاس کابل تھا اسے افغانستان کا حکمران مان لیا گیا۔

آج جب طالبان95% افغانستان اور کابل پر کنٹرول حاصل کرچکے ہیں۔ بجائے ان کی حکومت تسلیم کرنے کے دنیا نے وسیع البنیاد حکومت کے قیام کی آڑ میں طالبان مخالف گروپوں اور شخصیات کے فضائل پر لکھنا اور بولنا شروع کردیا ہے۔

حالانکہ ان سب کی اہلیت کا یہ حال ہے کہ امریکی سرپرستی کے افغانستان پر ایک دن حکومت کرنے کے قابل نہیں۔ ابھی امریکی افواج کابل شہر میں موجود تھیں اور اشرف غنی فرار ہوگئے ہیں۔ اگر دنیا وسیع البنیاد حکومت اس کو کہتی ہے کہ ان بھگوڑوں اور چلے ہوئے کارتوسوں کو طالبان اپنے اقتدار میں شامل کرلیں تو ان کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے اور اگر وسیع البنیاد حکومت سے مراد یہ کہ ایک ایسی حکومت جس میں تمام زبانیں بولنے والوں اور ہر شعبے سے وابستہ افراد اپنی اہلیت کی بنیاد پر حصہ دار ہوں تو یہ نہ صرف مناسب بلکہ ایک مستحسن سوچ اور مطالبہ ہے۔

دنیا حکومت سازی میں تاخیر پر پریشان ہے مگر اس کے اسباب پر کوئی غور نہیں کررہا ہے، طالبان کو کابل شہر میں امریکی انخلا کے بعد داخل ہونا تھا اور باقاعدہ اشرف غنی سے پر امن انتقال اقتدار کے کاغذات پر دستخط لے کر پہلے کابل شہر کا کنٹرول سنبھالنا تھا پھر حکومت ذمے داران کا اعلان ہونا تھا، مگر طالبان کی طرف سے کئی بار عام معافی کے اعلان کے باوجود، شاید اشرف غنی کو اپنے جرائم ناقابل معافی لگ رہے تھے اس لیے وہ ایسا بھاگا کہ پوری دنیا سمیت طالبان کے لیے بھی غیر متوقع تھا، جب سربراہ مملکت ڈر کے مارے بھاگ جائے تو باقی ماندہ حکومتی ذمے داران اور سرکاری اہلکاروں نے کہاں رکنا تھا۔

اچانک کابل شہر میں لوٹ مار شروع ہوگئی جسے روکنے کے لیے طالبان شہر میں داخل ہوگئے اور دنیا نے چند گھنٹوں کے اندر کابل پرسکون اور لوٹ مار کرنے والوں کو بندھے ہاتھوں میڈیا کے سامنے دیکھا۔

اس غیر متوقع فتح کے علاوہ، امریکا نے کابل ایئرپورٹ پر امریکی شہریت اور سیاسی پناہ کا اتوار بازار لگایا، جس کی وجہ سے ایئرپورٹ پر ہزاروں افغانوں کا جم غفیر جمع ہو گیا، پورا ملک اور پُر امن فتح کابل میں ایک پرندہ نہیں مرا، مگر امریکی کمانڈ میں واحد ایئرپورٹ پر افعانوں کا ارزاں خون بہتا رہا، دوسری طرف امریکا بہادر نے آئی ایس کے کی طرف سے خودکش حملے کی وارننگ جاری کی اور ایک نہیں تین حملے امریکی میرینز کے زیر کنٹرول علاقے میں ہوئے مگر افسوس چند امریکیوں کے علاوہ 200 کے قریب افعان جان سے گئے اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔

ایئرپورٹ پر یہ رش طالبان کے خوف اور ڈر کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے اور امریکا اور یورپ میں اچھے روزگار کی امید پر ہے۔ اگر یہی امریکی جہاز کل پاکستان میں لاہور، کراچی، اسلام آباد، یا کسی دوسرے ایئرپورٹ پر اس آفر کے ساتھ کھڑے ہوجائیں کہ پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر امریکی شہریت اور سیاسی پناہ کے لیے ایئرپورٹ پہنچ جائے تو امریکی شہریت کے رجحان اور شوق میں قومی سوچ کو دیکھتے ہوئے میرے خیال سے 50% فیصد آبادی ایک دوسرے کے سروں پر پیر رکھتے ہوئے ائیر پورٹ کی دیواریں پھلانگنے میں دیر نہیں کرینگے۔ لہٰذا جیسے ہی امریکا یہ ڈرامہ بند کریگا تو حکومت کے تشکیل سمیت بہت سارے معاملات واضح ہوجائیں گے۔

طالبان نے اگر دنیا کو کہا ہے کہ وسیع البنیاد حکومت بنے گی تو ضرور بنے گی، اگر 1995 کے امارت اسلامیہ افغانستان کے کلیدی ذمے داران میں ہر زبان بولنے والے شامل تھے تو2021کے امارات اسلامیہ میں یہ تعداد کئی گناہ بڑھ چکی ہے اور جیسا کہ ہم پہلے کالموں میں ذکر کرچکے ہیں کہ افعانستان کے طول و عرض اور قریہ قریہ میں شوریٰ کے اراکین اور امیر المومنین شیخ الحدیث مولانا ہیبت اللہ اخونزادہ کے نامزد علماء کرام اور مشائخ کے ہاتھ ہزاروں افراد بیعت ہورہے ہیں جس میں ہر زبان بولنے والے اور ہر قوم و قبیلے کے افراد شامل ہیں۔

اب تک بیعت ہونے والے افراد میں بہت سارے نامی گرامی اور دنیا کی نظر میں مقبول چہرے سامنے آئے ہیں اور روز بیعت ہورہے ہیں، ہزارہ شیعہ کمیونٹی سمیت ہر قوم و قبیلے پر مشتمل امارت اسلامی افغانستان کی حکومت سامنے آئے گی تو دنیا یہ مان لے گی کہ واقعی افعانستان کی تاریخ میں پہلی وسیع البنیاد حکومت ہی ہوگی۔

اپنے مشورے سے پہلے دنیا نے اور خصوصاً پاکستان کے حکومتی ترجمانوں نے کبھی یہ سوچا ہے کہ جب طالبان کے پرانے دشمن حکومت میں ان کے شراکت دار ہونگے تو کیا وہ طالبان کو کامیاب ہونے دیں گے؟ کبھی نہیں، وہ ہر معاملے میں مشکلات پیدا کریں گے۔ سب سے پہلے افعانستان کی سرزمین کو دوسرے ممالک خصو صاً پاکستان کے مفادات کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔

افغانستان میں را کا نیٹ ورک 20 سال تک فعال رہا تو وہ کس کی مدد سے چل رہا تھا، انڈیا کے پے رول پر یہ ہی حکمرا ن اور ان کے کارندے تھے جب وہ حکومت کا حصہ ہونگے تو وہ پاکستان دشمنی سے کیوں باز آئینگے؟ انکو لگام تب ڈالی جائے گی جب امارت اسلامی افغانستان کی ذمے داری صرف اور صرف طالبان کے کندھوں پر ہوگی۔ اللہ نہ کرے ایسا ہو کہ پرانے حکمران طالبان کے اقتدار میں شراکت داربنے ورنہ دنیا پرامن افعانستان کا خواب نہ دیکھیں۔ اور اگر افغانستان پر امن نہیں ہوگا تو پورے خطہ میں کبھی امن قائم نہیں ہوسکے گا۔

طالبان کو اشرف غنی حکومت کے مقابلے میں عوامی تائید و حمایت حاصل ہے۔ وہ بہتر نتائج دینے کی پوزیشن میں ہیں لیکن اقوامِ متحدہ اور مغربی طاقتوں نے ردِّعمل دینے میں انتہائی عجلت سے کام لیا، تنبیہات جاری کرنا اور مطالبات کی فہرستیں پیش کرنا شروع کر دیں، امداد روک لی، یہ انتہائی عاقبت نااندیشی ہے۔