افغانستان کے کٹھ پتلی صدر اشرف غنی اینڈ کمپنی جو امریکا اور بھارت پر تکیہ کیے بیٹھے تھے۔ ان کے پاؤں تلے سے زمین سرک چکی ہے۔ گزشتہ بیس سال افغانستان پر قابض امریکا اپنا سب سے بڑا ہوائی اڈا بگرام ایئر بیس رات کے اندھیرے میں چھوڑ کر فرار ہوچکا ہے۔
امریکی حکام نے اپنے انخلاکی اطلاع اشرف غنی کو بھی دینا مناسب نہ سمجھا، اس اقدام سے امریکا نے ناصرف اپنی فطرت دکھائی ہے بلکہ افغان صدر اشرف غنی کو بھی اوقات یاد کرادی ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے اب تازہ فرمان جاری کیا ہے، جس کے مطابق افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا گیارہ ستمبر کے بجائے اب اگست کے آخری ہفتہ تک ہی مکمل کرلیا جائے گا۔ امریکی صدر کے اس تازہ فرمان نے کابل کے محل پر گویا بجلیاں ہی گرادیں، اشرف غنی اینڈ کمپنی شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ وہ کیا کرے۔
ہم نے گزشتہ کالم میں بھی ذکر کیا تھا کہ افغانستان کے جن اضلاع کا کنٹرول امریکا اور اس کی اتحادی افواج چھوڑ رہی ہیں، وہاں طالبان بلا مزاحمت اپنا سکہ جمارہے ہیں۔ طالبان کی پیش قدمی جاری ہے، اب تو بین الاقوامی میڈیا بھی بتا رہا ہے کہ افغانستان کے ایک تہائی حصے پرکنٹرول حاصل کرنے کے بعد گزشتہ ہفتے طالبان شمال مشرقی صوبے بدخشاں تک پہنچ گئے۔
یہ پہاڑی علاقہ چین کے صوبے شنکیانگ کے ساتھ سرحد پر واقع ہے۔ طالبان نے بغیر لڑائی کے بدخشاں کے متعدد اضلاع کا کنٹرول سنبھال لیا ہے، افغان فوجی ہتھیار پھینک کر تاجکستان فرار ہوگئے، اس بات کی تصدیق تاجکستان کی سکیورٹی کمیٹی نے بھی کردی کہ تین سو سے زائد افغان فوجی سرحد پار کرکے آئے ہیں۔
بدخشاں میں طالبان نے سرحدی کنٹرول سنبھال لیا ہے، اس علاقے کا کنٹرول اس اعتبار سے نہایت اہم ہے کہ یہ علاقہ امریکا کے اتحادی افغان سرداروں کا مضبوط گڑھ رہا ہے۔ ان افغان سرداروں نے بیس برس قبل افغانستان پر حملے کے لیے امریکا کی مدد کی تھی۔ صدر اشرف غنی اینڈ کمپنی بری طرح پھنس چکے ہیں۔ اپنی بوکھلاہٹ چھپانے کے لیے انھوں نے گزشتہ ہفتے بدخشاں ایئر پورٹ کے افتتاح کا فیصلہ کیا تاکہ دنیا کو بتایا جاسکے کہ طالبان کی کامیابیوں سے متعلق خبریں محض افواہ ہیں۔
اس ایئرپورٹ کے افتتاح کے لیے اشرف غنی اینڈ کمپنی آئی ضرور لیکن جس خوف اور ڈر کے بادل ان کے سروں پر منڈلا رہے تھے، اس کا بھانڈہ اس ایک ویڈیو نے بیچ چوراہے پھوڑ دیا جس میں وہ اور ان کے ہمنوا بدخشاں ہوائی اڈے سے عجلت میں نکلے، جس طرح یہ لوگ جہاز میں سوار ہورہے تھے اس سے صاف پتا چل رہا ہے کہ طالبان کا خوف ان کے سروں پر منڈلا رہا ہے۔
امریکا نے ان کے ساتھ جو کچھ کردیا ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان کے علاوہ کوئی بھی ملک انھیں پناہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ ان کٹھ پتلیوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ ان کے آقا انھیں آدھے راستے میں تنہا چھوڑ دیں گے۔ ان کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہ ہوگی کہ ایک دن امریکی صدر وائٹ ہاؤس میں بیٹھ کر میڈیا سے گفتگومیں یہ بات کہے گا کہ ان کے سامنے افغان جنگ کا نام نہ لیا جائے۔ کیونکہ افغان جنگ امریکا جیسی سپر طاقت کے لیے ایک ڈراؤنا خواب تھی جسے وہ یاد بھی نہیں کرناچاہتے۔
افغانستان کا منظر نامہ بڑا واضح ہے، امریکا اور اس کے اتحادی وہاں سے جا چکے ہیں، اب بھارت کا مستقبل کیا ہوگا، اس سے جوبائیڈن کو کوئی سروکار نہیں، اب صرف بھارت اپنی مکارانہ چالوں سے افغانستان میں خونریزی کو ہوا دینا چاہتا ہے، مگر امریکا کی طرح بھارت کے منصوبے بھی افغانستان کے پہاڑوں میں غرق ہوجائیں گے۔
بھارت نے قندھار میں اپنا قونصل خانہ بند اور ملک کے دیگر شہروں میں اکثر قونصل خانے بند کردیے جواس نے پاکستان میں تخریب کاروں کی سہولت کاری کے لیے بنائے تھے، بھارت نے جو طیارے سفارتی عملہ واپس لانے کے لیے بھیجے، انھی طیاروں میں 80 ٹن سے زائد گولہ بارود اشرف غنی سرکار کے لیے بھیجا ہے جو طالبان کے خلاف استعمال ہوگا یعنی ایک طرف بھارت اپنی افغانستان میں ڈوبتی ہوئی سرمایہ کاری بچانے کے لیے طالبان سے مذاکرات کرتا ہے اور دوسری طرف طالبان مخالف قوتوں کو بھاری اسلحہ پہنچا کر طالبان کی پیٹھ میں چھرا گھونپتا ہے، اسے کہتے ہیں "بغل میں چھری منہ میں رام رام"۔
مودی سرکار نوشتہ دیوار پڑھ لے، بہت جلد امریکا کی طرح بھارت کے پاؤں تلے سے بھی زمین سرکنا شروع ہونے والی ہے۔ بھارت کا بھیجا ہوا 80 ٹن گولہ بارود بہت جلد نیٹو فورسز کے جنگی ساز و سامان کی طرح طالبان کے مال غنیمت کے گوداموں میں ہوگا، جو کچھ بھارت طالبان کے خلاف کرچکاہے، طالبان اس کا جواب ضرور دیں گے۔
رہی بات کہ افغانستان کے مستقبل کی، اس بارے گزشتہ دنوں تحریک طالبان افغانستان کے ترجمان سہیل شاہین نے میڈیا چینلز پر اظہار خیال کرتے ہوئے واضح روڈ میپ دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "جو بھی مذاکرات کی میز پر فیصلہ ہوگا وہ ہمیں قبول ہوگا لیکن افغانستان کا نظام اسلامی ہی ہوگا۔ یہ ہماری پالیسی ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، ٹی وی چینلز پر حکومت کا احتساب ہوسکے گا، تنقید بھی ہوگی اور خواتین اس میں پردے کے بغیر نہیں آسکیں گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ انڈیا افغانستان کے مسئلے میں غیر جانبدار رہے۔ پاکستان ہمارا پڑوسی اور مسلمان ملک بھی ہے، پائیدار امن کے حوالے سے وہ مشورہ دے سکتے ہیں، مدد کرسکتے ہیں لیکن کوئی بھی ہمیں ڈکٹیشن دے، یہ ہمارے اصولوں کے خلاف ہے اور عالمی اصولوں کے مطابق بھی نہیں ہے۔ اسلامی امارات کی پالیسی یہ ہے کہ کوئی بھی فرد ہو یا گروپ ہو ہم افغانستان کی سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ ہم ٹیکنالوجی کے خلاف نہیں ہیں، اگر اسلامی نظام آجائے تو ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کی کوشش کریں گے اور یہ اسلام کے مطابق ہے۔ جو اضلاع ہمارے قبضے میں آگئے ہیں ہم نے یہی بیان دیا ہے کہ اس علاقے میں جو میڈیا یا اخبار ہیں ان کو فنکشنل ہونا چاہیے جیسے ماضی میں تھے اور بھی چینلزآجائیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس کا مواد ہماری روایت و معاشرے کے مطابق ہوگا"۔
افغانستان کا موجودہ داخلی و خارجہ منظر نامہ بتا رہا ہے کہ افغانستان کا مستقبل طالبان سے جڑا ہے۔ طالبان کے مطابق75فیصد افغانستان پر ان کا کنٹرول ہے۔ یہ سمجھنا آسان ہے کہ آیندہ ایک مہینے میں افغانستان پر کس قوت کی حکومت ہوگی؟
کچھ لوگ افغان طالبان کے بارے میں آج بھی ایک غلط فہمی پال کر بیٹھے ہیں کہ طالبان جدید دنیا کے طور طریقوں اور اسلوب سے ناواقف ہیں اور اس بنا پر وہ ناکام ہوں گے مگر میری معلومات کے مطابق، افغانستان میں طالبان اپنی کمزوریوں اور صلاحیتوں کاباقاعدہ جائزہ ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی میں لیتے ہیں تاکہ اپنی کمزوریوں کو ختم اور اپنی صلاحیتوں کو مزید تقویت دیں۔ طالبان فضائیہ اور میڈیا پر کام کر رہے ہیں۔ طالبان زمینی جنگ میں ہمیشہ سرخرو اور کامران رہے مگر ان کے پاس فضائی حملوں کو روکنے کا کوئی بندوبست یاصلاحیت اور استعداد نہیں تھی، یہ کمزوری اب بھی موجود ہے۔
ادھر ایسی اطلاعات ہیں کہ طالبان افغان ایئرفورس کے پائلٹس سے رابطہ بنا رہے ہیں تاکہ انھیں اپنے ساتھ ملایا جاسکے۔ میری اطلاعات کے مطابق کئی پائلٹس اس پر راضی ہوچکے ہیں اور مناسب موقع پر سامنے آجائیں گے اور طالبان کی ایئر فورس کا حصہ بن جائیں گے۔
دوسری ترجیح یہ ہے کہ ان پائلٹس کو سرینڈر ہونے پر راضی کیا جائے اور جو ملک سے جانا چاہتاہے تو اس جانے کی اجازت ہوگی، سننے میں آرہا ہے کہ اکثریت دوسرے ممالک میں سیاسی پناہ کے آپشن پر غور کر رہی ہے۔
ادھر افغان پائلٹس کی ٹارگٹ کلنگ کی خبریں بھی آئی ہیں، ابھی تک 8 یا 9 پائلٹس کو مارا جا چکا ہے۔ اگر طالبان بزور اقتدار پر قابض ہوگئے تو وہ امارت اسلامیہ افغانستان کے قیام کا اعلان کردیں گے اور ان کے پاس ایک مناسب فضائیہ بھی موجود ہوگی۔
افغان طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں کو خیال ہے کہ طالبان دور حکومت میں ان کے پاس اپنا میڈیا ہاؤس نہیں تھا، طالبان کے پاس اپنا سافٹ امیج اور افغانستان میں امن کے قیام کو پوری دنیا کو دکھانے کے لیے کوئی پلیٹ فارم نہیں تھا، اس لیے مغربی میڈیا نے ان کے بارے میں دنیا کو ان سے متنفر کیا مگر اب طالبان سوشل میڈیا اور دوسرے میڈیا پر بھر پور طریقے سے متحرک ہیں اور طالبان کا ایک مثبت تاثر غیر متعصب دنیا لے چکی ہے اور روز بروز اس میں اضافہ ہو رہا ہ۔