نوجوان طالبان الحمدللہ، اللہ اکبر، اللہ اکبر کہہ رہے تھے، شہر کا اہم علاقہ ان کے نعروں سے گونج رہا تھا، سڑک پر افغان فوج کی بکتر بند گاڑیاں، بندوقیں، بلٹ پروف جیکٹس اور دو سرا فوجی سامان بڑی مقدار میں موجود تھا۔ اب یہ سب نہتے لڑ کر امریکہ کوبھگانے والے طالبان کے قبضے میں آرہا ہے۔ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ اگلے چند دن میں افغان صدر اور دیگر حکام چپکے سے کابل چھوڑ کر امریکہ نکل جائیں۔
امریکی افواج کے انخلا کے فوری بعد افغانستان گویا ٹائم مشین کے ذریعے ایک بار پھر نائن الیون سے پہلے والے زمانے میں پہنچ جائے گا لیکن اس بار طالبان کا رویہ دنیا سے الگ تھلگ رہنے کی بجائے ایک وسیع تر علاقائی اتحاد کو مضبوط بنانے والا ہو سکتا ہے۔
حالیہ دنوں ایسی کچھ اطلاعات آئی ہیں جن پر پاکستان میں تشویش کا اظہار کیا گیا۔ پہلی اطلاع یہ کہ بھارت طالبان کے ساتھ تعلق بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے بھارتی وزیر خارجہ دوبار دوحہ گئے اور قطری حکام کے توسط سے طالبان کے ساتھ رابطہ کیا۔ ایک خبر یہ آئی کہ طالبان پاکستان کے ساتھ غیر مشروط تعاون پر شاید آمادہ نہیں۔
پھر معلوم ہوا کہ پاکستان ترکی کے ذریعے عبدالرشید دوستم اور ان کے شمالی اتحاد سے تعلق بہتر بنانے کا خواہشمند ہے تاکہ افغانستان میں طاقت کا نیا توازن اپنے حق میں رکھا جا سکے۔ ایک اطلاع ایسی آئی جس سے پریشانی محسوس ہوئی۔ اطلاع یہ تھی کہ ترکی نے کابل ایئرپورٹ کا انتظام سنبھالنے پر آمادگی ظاہر کی جس پر بعض طالبان حلقوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ ان بہت سی خبروں میں کتنا سچ اور کتنا جھوٹ ہے اس کا اندازہ تجزیئے کی کسوٹی پر کیا جا سکتا ہے۔
پہلی حقیقت یہ ہے کہ یہ شمالی اتحاد اب نوے کے عشرے والی قوت نہیں رہ گئی۔ غیر ملکی افواج کے خلاف مزاحمت کی کسی تحریک میں شمالی اتحاد شامل نہ رہا، اس لیے انخلا کے بعد اس کا کردار نمایاں نظر نہیں آتا۔ دوسرا یہ کہ شمالی اتحاد کے پاس کوئی نمایاں رہنما نہیں۔ ایک جنرل عبدالرشید دوستم ہیں جو اب جسمانی طاقت کھو چکے ہیں۔
جنرل دوستم عرصے سے ترکی میں پناہ گزیں ہیں۔ امریکہ نے جب افغانستان پر یلغار کی تو جنرل دوستم نے طالبان پر ظلم کے پہاڑ توڑے، صرف ایک قلعہ جنگی کی جیل میں آٹھ ہزار طالبان کو قتل کیا گیا۔ طالبان کی گردن کاٹ کر گردن والے حصے پر تیزاب انڈیلا جاتا تو دھڑ تکلیف سے جلنے لگتا۔ لاشوں کی اس بے حر متی کو شمالی اتحاد رقص کا نام دیتا۔ شمالی اتحاد کے فوجی قہقہے لگاتے۔
اب جنرل دوستم افغانستان میں داخل ہوئے تو شاید طالبان ان کے ٹکڑے کردیں۔ سو شمالی اتحاد کو ترکی سے تعلق کے حوالے سے قبول کیا جا سکتا ہے لیکن اس بات کا امکان نہیں کہ وہ مستقبل قریب میں کوئی بڑا کردار ادا کرسکے۔
سوال تو یہ بھی اہم ہے کہ ترکی کابل ایئرپورٹ کا کنٹرول کیوں سنبھال رہا ہے۔ جواب یہ نہیں کہ طالبان کو یہ پسند نہیں۔ جواب یہ ہے کہ طالبان کو اس بار دنیا سے سفارتی تعلقات بحال کرنا ہیں۔ یہ تعلقات اس وقت تک استوار نہیں ہو سکتے جب تک کابل میں موجود غیر ملکی سفارتخانوں کا عملہ خود کو محفوظ تصور نہ کرے۔
امریکہ، برطانیہ اور ان کے اتحادیوں نے جو کچھ بیس برسوں میں کیا اس سے انہیں خوف ہے کہ طالبان انہیں یہاں سے بھاگنے تک کا موقع نہیں دیں گے۔ ترکی گویا ایک ضامن کا کردار ادا کر رہا ہے کہ کسی ملک کا سفارتی عملہ جب چاہے کابل ایئرپورٹ سے پرواز کرسکتا ہے۔ اس خوف کی ایک وجہ ہمارے دوست وہ واقعہ بتاتے ہیں جب نجیب اللہ نے ایئرپورٹ سے فرار ہونا چاہا تو یہاں طالبان کا قبضہ تھا۔ وہ بھارت سمیت کئی ممالک کے سفارتخانوں میں گیا لیکن کسی نے پناہ نہ دی۔ آخر اقوام متحدہ کے کمپائونڈ میں ڈیڑھ برس مقیم رہا اور پھر سرعام مار دیا گیا۔
کابل ایئرپورٹ ترکی کے کنٹرول میں رہا تو طالبان کے سابق دشمنوں کو تسلی ملے گی کہ افغانستان بین الاقوامی قوانین اور پرامن عمارتوں کا احترام کرے گا۔ طالبان کو ملک کی تعمیرنو کے لیے پاکستان کی زمینی و فضائی راہداری درکار ہے۔ وزیراعظم عمران خان طالبان کے ساتھ ہیں۔ طالبان نے مشکل ایام کے دوران پاکستان اور ایران میں اپنے خاندان رکھے۔
کاروبار کئے اور معمولات انجام دیئے۔ طالبان کو ہسپتالوں سے علاج درکار ہیں، انہیں غذا اور خوراک چاہیے، ٹرانزٹ ٹریڈ کا معاملہ ہے۔ یہ ضروریات پاکستان سے پوری ہوں گی۔ پاکستان کے لیے اچھی خبر یہ ہو سکتی ہے کہ کرزئی اور اشرف غنی نے پاکستان سے درآمدات میں مسلسل کمی کی جو پالیسی اختیار کی وہ ختم ہورہی ہے۔ امید ہے کہ اگلے برس پاکستان سے افغانستان برآمدان ۵ ارب ڈالر ہو جائیں گی۔ ایسا ہوا تو مجموعی برآمدات تئیس ارب ڈالر کو چھونے کے قابل ہو سکتی ہیں۔
طالبان اس بار سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر انحصار نہیں کر رہے۔ انہیں اقوام متحدہ میں اپنے دفاع کے لیے ایک مضبوط علاقائی اتحاد اور ویٹو طاقت کی ضرورت ہے۔ پاکستان، چین، روس، ایران اور ترکی اس کی یہ ضرورت پوری کرسکتے ہیں۔