لاہور کے کئی معروف علاقے ہیں، ان میں سے کچھ کے نام عجیب سے ہیں۔ شاید اس لیے عجیب ہیں کہ جو فاضل لوگ ان ناموں کا پس منظر جانتے تھے وہ سب معلومات سینے میں لیے قبروں میں جا سوئے یا پھر انہیں کوئی ایسا طالب علم نہ ملا جسے کتابوں کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے اور ماضی کی کھوج کا شوق ہوتا۔ ایسے علاقوں میں سے ایک گڑھی شاہو ہے۔ چند ماہ پہلے اس پل پر کھڑا تھا۔ نیچے رہائشی فلیٹ تھے، ریلوے کے لائنیں، ایک دوسرے میں گھسے مکان اور دکانیں، پیں پیں کرتی گاڑیاں اور پل تک اٹھتا ان کا دھواں۔ صدیاں پھلانگ کے کوئی کیسے دیکھے کہ ان منظروں کے پیچھے کتنی کہانیاں ہیں۔
اکبر بادشاہ کے دور میں اس جگہ ایک بستی ہوا کرتی تھی۔ بستی کو آباد اور ترقی دینے کا کام اکبر کی توجہ سے ہوا اس لیے لوگ اسے اکبر کے لاڈلے بیٹے شیخو کی نسبت سے شیخوگڑھی کہنے لگے۔ اکبر خود شیخ سلیم چشتی کے احترام میں بیٹے سلیم کو شیخو بابا کہہ کر پکارتا۔ شاہجہان کے عہد میں بغداد سے ایک لائق اور فاضل عالم مولانا ابوالخیر لاہور وارد ہوئے۔ جلد ہی ان کی شہرت گھر گھر پہنچ گئی۔ شاہجہان نے انہیں ایک مدرسہ قائم کرنے کا کہا اور سرکاری خزانے سے مدد کی۔ شیخو کی گڑھی میں یہ مدرسہ ایک عالی شان عمارت میں قائم ہوا۔ عمارت کے ساتھ ایک وسیع مسجد تھی۔ طلباء کے قیام کے لیے آرام دہ حجرے تھے۔ اس عالی شان مدرسے کی فصیل اور دیواریں قلعہ نما بنائی گئیں۔ مدرسے کا تمام خرچ لاہور کے شاہی خزانے سے ادا ہوتا۔
تذکرہ نگار لکھتے ہیں کہ مولانا ابوالخیر نے بہت طویل عمر پائی۔ کہا جاتا ہے کہ مولانا نے پوری ایک صدی درس و تدریس کے فرائض ادا کئے اور 1723ء میں انتقال کیا۔ مولانا ابوالخیر کے بعد ان کے خلیفہ مولانا محمد نعیم نے مدرسے کا انتظام سنبھالا۔ ان کے دور میں سکھ غارت گروں نے لوٹ مار مچا دی۔ سارا لاہور ان کے مظالم کا نشانہ بنا ہوا تھا۔ دوسرے علاقوں کی طرح یہ علاقہ بھی ویران ہوگیا۔ مدرسہ اجڑ گیا۔ 1756ء میں ماجھے کے علاقے سے شاہو نام کا ایک تیلی ادھر آ نکلا۔ وہ سارا دن بکریاں چراتا اور رات کو ڈاکے ڈالتا۔ اس کی دہشت کے باعث شیخو گڑھی، گڑھی شاہو کہلانے لگا۔ مولانا ابوالخیر کا مزار گڑھی کی چار دیواری کے اندر چند اور قبروں کے ساتھ بلند چبوترے پر تھا۔ مسجد اور مدرسے کا نام و نشان مٹ چکا ہے۔
بندہ بیراگی 1670ء میں پونچھ کے قصبے راجوری میں پیدا ہوا۔ اس کا نام لچھمن دیو تھا۔ یہ ڈوگرہ راجپوت تھا۔ شروع میں بیراگی بنا اور سادھوئوں کے ساتھ گھومتا ہوا دکن پہنچا۔ وہاں گورو گوبند سے ملاقات ہوئی۔ گورو گوبند سنگھ کی ہدایت پر مغلیہ حکومت کے خلاف پنجاب کے سکھوں کی رہنمائی کے لیے آیا۔ بندہ بیراگی ایک سفاک انسان تھا۔ اسے جہاں مسلمانوں کی بستی نظر آتی تاراج کردیتا حالانکہ گورو گوبند صرف حکومت کی فوج سے لڑتے عام لوگوں سے تعرض نہ تھا۔ اس نے مشہور کر دیا کہ وہ ایسا جادو رکھتا ہے جس کے اثر سے کوئی فوج اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
جلد ہی لٹیرے، اوباش اور جرائم پیشہ افراد اس کے ساتھ آ ملے۔ پروفیسر گنڈا سنگھ، بھائی پرمانند، لالہ دولت رام جیسے غیر مسلم مورخین بھی اس کے مظالم کا اقرار کرتے ہیں۔ بندہ بیراگی نے بٹالہ کو برباد کیا، شالامار باغ سے پرے مضافات لاہور کو لوٹا تو لاہور میں سنسنی پھیل گئی۔ نواحی دیہات کے لوگ لاہور میں پناہ کے لیے آنے لگے۔ اس وقت سید محمد اسلم نائب صوبہ لاہور اور کاظم خان دیوان لاہور تھے۔ شاہ عالم اول کو پنجاب کی صورت حال کا علم ہو چکا تھا مگر وہ مدد کرنے سے قاصر تھا۔
لاہور کے ہندو اور مسلمان باشندوں نے مل کر ایک رضا کار فوج بنائی اور اس کا نام حیدری فوج رکھا گیا۔ راجہ ٹوڈرمل کی اولاد میں سے ایک امیر راجہ بہار مل نے بھی کھل کر اس فوج کی مدد کی۔ علما نے بندہ بیراگی کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا۔ رضا کار فوج تشکیل دینے کے بعد جہانگیر دور میں بنائی گئی عید گاہ میں جہاد کا سبز ہلالی پرچم نصب کیا گیا۔ تاریخ میں سبز رنگ پر چاند والا یہ پہلا جھنڈا تھا۔
آج جس مقام پر گڑھی شاہو اوور ہیڈ برج ہے اس کے نیچے یا آس پاس وہ مقام ہے جہاں جھنڈا نصب کیا گیا۔ عید گاہ مسجد کے ساتھ ایک بازار تھا جسے اس وقت بازار ترپولیہ کہا جاتا۔ حیدری فوج چونکہ غیر تربیت یافتہ افراد کی تھی اس لیے شہر کے مضامات میں بندہ بیراگی کے چھاپہ مار دستوں سے لڑنے کے لیے جاتے وقت بعض نامناسب سرگرمیاں اور غیر سنجیدہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا۔ بندہ بیراگی جہاں دار شاہ کے دور میں 1715 کو گرفتار ہوا اور عبدالصمد خان کے ہاتھوں انجام پہنچا۔
شیخو گڑھی میں جہانگیر نے جو عید گاہ تعمیر کرائی اس کے ساتھ دیگر عمارتوں پر اس زمانے میں بیس لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ ان دنوں یہ عید گاہ لاہور سے امرتسر جانے والی سڑک کے کنارے تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جب لاہور ریلوے سٹیشن کو وسعت دی گئی تو مسجد ختم کردی گئی۔ عید گاہ کے تین اطراف بازار تھے۔ ہر بازار میں ستر دکانیں اور بالا خانے تھے۔ عید گاہ مسجد کے عین درمیان بہت بڑا گنبد تھا۔ دائیں بائیں نسبتاً چھوٹے گنبد۔ چاروں کونوں میں ہشت پہلو مینار ایستادہ تھے۔
گڑھی شاہو پل کے اوپر کھڑا ہو کر میں ادھر ادھر متلاشی نظروں سے دیکھتا رہا۔ بظاہر کوئی آثار نہیں۔ شائد کسی پرانے مکان میں کچھ نشانیاں باقی ہوں۔ ہو سکتا ہے یہاں کے قدیمی خاندانوں کے کچھ بزرگ جہانگیر عہد کی نشانیوں یا اس جگہ کی نشاندہی کرسکیں جہاں سبز ہلالی پرچم لہرایا گیا تھا اور جہاں حیدری فوج نے لاہور کو بچانے کے لیے مذہب اور نسل سے بالاتر ہو کر لڑنے کا عہد کیا۔