Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Kot Lakhpat Ka Qadeem Qilah

Kot Lakhpat Ka Qadeem Qilah

کنہیا لال نے دیوان لکھپت رائے اور اس کے بھائی جسپیت رائے کی حویلی کے بارے میں تفصیل درج کی ہے۔ شاہ عالمی دروازہ کے اندر بازار ہٹیار میں یہ قدیم حویلیاں تھیں۔ دونوں حویلیوں کے درمیان ایک راستہ ہے جس کو لکھپت رائے کا پہلہ کہا جاتا۔ جنوبی حویلی دیوان لکھپت رائے کی اور شمالی دیوان جسپیت روئے کی تھی۔ عمارت ان کی چونہ گچ استرکار اور دو منزلہ و سہ منزلہ تھی۔ دونوں بھائی اس قدر دولت مند تھے کہ دیوان لکھپت رائے نے جب اپنے بیٹے کی شادی کی تو لاہور شہر میں فی کس ہندو، مسلمان ایک ایک گنڈورا ڈھائی ڈھائی سیر وزن کھانڈ کا تقسیم کیا۔

دونوں حویلیوں کے پاس کئی عالی شان عمارتیں ان کی اب تک یادگار ہیں۔ دیوان لکھپت رائے کا ایک بڑا طویلہ بازار پاپڑ منڈی میں تھا جو سکھ عہد میں ضبط رہا اور انگریز عہد میں نیلام کیا گیا۔ کنہیا لال کہتے ہیں کہ اس طویلے کا آدھا حصہ انہوں نے نیلامی میں خریدا اور آدھا حصہ سوہن شاہ نے لیا۔ دونوں بھائیوں نے یہاں دو پختہ تالاب بنائے تھے۔ رنجیت سنگھ کے وقت کالو نام کے ایک شخص نے جو اپنے آپ کو دیوان لکھپت رائے کی اولاد کہتا تھا سب جائیداد جدی فروخت کردی۔ یہ دونوں حویلیاں باقی تھیں جنہیں مہاراجہ رنجیب سنگھ نے ملتان کے نوابوں کو دے دیا۔

زکریا خان لاہور اور ملتان کا گورنر تھا۔ اس نے کوڑا مل کو ملتان کا دیوان مقرر کیا۔ 1746ء کے اوائل میں لاہور کا گورنر یحییٰ خان بنا۔ اس کے دور میں سکھوں سے مقابلے میں دیوان لکھپت رائے کا بھائی مارا گیا۔ دیوان لکھپت رائے نے جسپیت رائے کی موت کا بدلہ لینے کے لیے سکھ قوم کو ختم کرنے کی قسم کھائی۔ اس نے پہلے قدم کے طور پر لاہور کے ان سکھوں کو گرفتار کر کے قتل کرنے کا حکم دیا جو گھریلو ملازم اور چھوٹے دکاندار تھے۔ کوڑا مل نے لاہور کے بااثر ہندوئوں کو ساتھ لے کر لکھپت رائے سے ان بے گناہ سکھوں کی جان بخشی کی درخواست کی جو بیکار ثابت ہوئی۔ تمام گرفتار سکھوں کو 10 مارچ 1746ء کو قتل کر دیا گیا۔

لکھپت رائے خود ایک بڑا لشکر لے کر سکھوں سے لڑنے نکلا جو جنگلوں اور پہاڑوں میں روپوش تھے۔ لکھپت رائے کی یہ مہم یکم مئی 1746ء کو اس وقت ختم ہوئی جب لگ بھگ سات ہزار سکھ قتل ہوئے اور تین ہزار کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان کو بھی گرفتار کر کے لاہور لایا گیا اور بعد میں مار دیا گیا۔ کوڑا مل دل برداشتہ ہو کر ملتان چلا گیا۔ یحییٰ خان کا بھائی شاہنواز لاہور کا گورنر بنا تو اس نے لکھپت رائے کی جگہ کوڑا مل کولاہور کا دیوان بنا دیا۔ 11 جنوری 1748ء کو احمد شاہ ابدالی نے لاہور پر قبضہ کیا تو ایک افغان سردار جملہ خان کو اپنا گورنر بنایا اور دیوان لکھپت رائے کو پھر سے دیوان مقرر کر دیا۔ شاید دونوں کے درمیان سکھوں سے دشمنی کا مشترکہ جذبہ موجود تھا۔

شاہنواز کو دلی فرار ہونا پڑا۔ 12 مارچ 1748 کو سرہند کے قریب شکست کھانے کے بعد احمد شاہ واپس چلا گیا۔ معین الملک لاہور کا گورنر مقرر ہوا، کوڑا مل کو دیوان کے طور پر بحال کیا گیا اور ملتان کا نائب گورنر بھی بنا دیا گیا۔ دیوان لکھپت رائے کو گرفتار کر لیا گیا، اسے تیس لاکھ جرمانہ کیا گیا جس کا وہ صرف ایک فیصد ادا کرپایا۔ کوڑا مل نے بقیہ رقم ادا کر کے اسے سکھوں کے حوالے کردیا جنہوں نے اسے ایک کوٹھڑی میں بند کر دیا۔ لاہور کے خزانوں کا مہتمم دیوان لکھپت رائے چھ ماہ تک بھوک پیاس اور ذلت برداشت کرتا مر گیا۔

کوٹ سنسکرت کا لفظ ہے جس کا مطلب بہت سے حصے اور فصیل بند علاقے کے ہیں۔ جہاں جہاں کسی علاقے کے ساتھ کوٹ کالفظ آتا ہے مستنصر حسین تارڑ صاحب بتا رہے تھے کہ اس سے مراد قلعہ ہے، معروف محقق اقبال قیصر نے بھی کوٹ کے لفظ کا یہی پس منظر بتایا۔ کوٹ لکھپت کی پرانی آبادی ایک ٹیلے پر معلوم ہوتی ہے۔ اردگرد سے بلند یہاں قلعہ والی مسجد کے نام سے ایک قدیم مسجد ہے۔ میرے ایک دوست اس مسجد کے قریب گلی میں رہتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ 1980ء کے لگ بھگ جب ان کے والد نے یہاں گھر بنایا تو زمین سے پرانے زمانے کی بنی چھوٹی اینٹیں نکلیں۔ ایسی اینٹیں اس علاقے کے کئی مقامات سے برآمد ہوتی رہیں۔ گمان ہے کہ کوٹ لکھپت کا قدیم قلعہ اسی مسجد کے قریب تھا، جناب اقبال قیصر شجرہ و حقیقت دیہہ کوٹ لکھپت 1868 کا حوالہ دے کر بتاتے ہیں کہ یہ قلعہ ہزاروں برس قدیم تھا جسے لکھپت رائے مرمت کر کے اپنے استعمال میں لے آیا۔ آہستہ آہستہ سارے علاقے پر مکانات تعمیر ہو گئے۔ کوٹ لکھپت کے کھنڈرات زمین میں دفن ہو گئے۔

دوران تحقیق مجھے بھارتی گجرات میں کوٹ لکھپت کے قصبے کا علم ہوا۔ اس قلعہ نما قصبے کی فصیل اور دروازہ اچھی حالت میں ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ یہاں ویرانی اور بھوتوں کا ڈیرہ ہے۔ بھارت کی کسی مشہور فلم کی شوٹنگ اس قلعہ میں ہوئی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کوٹ لکھپت کو آباد کرنے والے کا نام رائو لکھپت بتایا جاتا ہے۔ یعنی لاہور والے لکھپت رائے اور گجرات والے لکھپت راو میں صرف رائو اور رائے کا فرق ہے۔ یہ فرق بھی اس وقت کوئی حیثیت نہیں رکھتا جب معلوم ہو کہ یہ دونوں نام راجپوت قوم کی پہچان ہیں۔ گجرات کا کوٹ لکھپت 1750ء کے لگ بھگ قائم ہوا۔ وہاں کوئی آبادی نہیں۔ کیا معلوم اسے بھی دیوان لکھپت رائے نے ہی تعمیر کرایا ہو لیکن وہاں سکونت اختیار کرنے کا موقع نہ مل سکا۔

دیوان لکھپت رائے ایک تاریخ ساز شخصیت تھی۔ اس نے حساب دانی کے ساتھ تلوار کے جوہر بھی دکھائے۔ ممکن ہے کوٹ لکھپت کے ٹیلوں پر بنے کسی مکان کی کبھی کھدائی کی جائے اور اندر سے تیار سینکڑوں سال پرانے نوادرات مل جائیں۔ ضروری تونہیں تاریخ ساریشہادتیں ایک ہی وقت میں سامنے لے آئے، کئی حقائق پردے کے پیچھے پڑے رہتے ہیں، ہم پردہ ہٹاتے ہیں تو سامنے آ جاتے ہیں۔