ایک صاحب ہیں، آپ کہہ سکتے ہیں وہ ایک موٹیویشنل لکھاری ہیں، کہانیاں گھڑتے ہیں۔ اصل ہدف تاریخ کے حقائق پیش کرنا نہیں بلکہ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے فرضی اور جھوٹے واقعات کا استعمال ہے۔ مدت سے انہیں پڑھنا چھوڑ رکھا ہے۔ لکھنے والا جب تیل مالش والا بن جائے تو اسے کون پڑھے گا۔ چند روز پہلے موصوف نے ایک کالم لکھا۔ برادرم عامر خاکوانی نے ایک پر مغز جواب دیا لیکن ایک پنجابی کے طور پر مجھے موصوف کی تحریر نے کسی اور حوالے سے متوجہ کیا۔ تعصب کے مارے افراد اگر معلومات کی کمی کا شکار ہوں تو ان کو آگاہ کیا جا سکتا ہے لیکن اگر یہ اپنا آپ فروخت کرنے کا معاملہ ہو تو کوئی ایسے افراد کی مدد نہیں کر سکتا۔ میری طرح کروڑوں پنجابی قومی یکجہتی اور اتحاد کی خاطر عموماً اپنے آئینی اور اخلاقی حقوق سے دستبردار ہو جاتے ہیں جس کا نفرت کے کچھ سوداگر غلط مطلب لے لیتے ہیں۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ دس سال قبل جب حکومت نے پنجاب کی ثقافتی، سیاسی اور سماجی تاریخ پر کام شروع کیا تو اس کے چند باب لکھنے کی ذمہ داری مجھے عطا ہوئی۔ پنجاب اور پنجابیوں پر وہ گروہ مسلسل بہتان باندھ رہے ہیں جو کبھی حملہ آور کی حیثیت میں یہاں آئے اور پھر پنجاب کے لوگوں کی محبت اور خلوص نے انہیں اپنا بنا لیا۔ ایسا نہ ہوتا تو بلوچ، پشتون، کشمیری، افغانی، ترک، عرب، ایرانی اور یونانی یہاں کیوں آباد ہوتے۔ کوئی ایسی جگہ اپنا خاندان لے کر نہیں آ جاتا جہاں اس کی عزت جان اور مال غیر محفوظ ہو۔ کالم نگار موصوف نے پنجاب پنچایت کے ادارہ پر تنقید کی آڑ میں ہزاروں سال سے امن و امان کے محافظ نظام پر تنقید کر کے سماجی معاملات میں اپنی جہالت کا ثبوت دیا۔
موصوف اس خطے کے روایتی نظام انصاف کا تقابل کرنے کی صلاحیت رکھتے تو انہیں اندازہ ہوتا کہ پنجاب کی پنچایت باقی علاقوں کے جرگے اور پنچایت سے کس قدر مختلف ہے۔ یہاں ظالم اور مظلوم دونوں کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع ملتا ہے۔ افسوس موصوف خود پنجابی ہوتے ہوئے یہ نہیں جانتے کہ پنچایت کسی ایک شخص کے عدالتی اختیارات کا نام نہیں بلکہ موقع پر موجود ہرشخص اس جیوری کارکن ہوتا ہے۔ اپنی تاریخ سے ناواقف یہ صاحب کہتے ہیں کہ 12 کروڑ پنچابیوں کی سوچ یہ ہے کہ وہ خود کچھ کرتے ہیں نہ کسی دوسرے کو کرنے دیتے ہیں۔ پنجابی مر جائیں گے لیکن اپنی چودھراہٹ نہیں جانے دیں گے۔ موصوف ایک ایسے طبقے کے فرد ہیں جو اپنی ابلاغیاتی صلاحیت فروخت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تقسیم کے دوران جو ہوا وہ پنجابی کلچر ہے۔ کوئی اسے پڑھائے کہ تقسیم کے دوران اکائی کے لحاظ سے صرف بنگال اور پنجاب تقسیم ہوئے تھے۔ باقی علاقے پہلے ہی الگ انتظامی اکائیاں ہونے کی وجہ سے فسادات سے محفوظ ہو چکے تھے۔ آزادی کے وقت بنگالی مرے یا پنجابی۔
پنجاب کا سماج ہزاروں برس سے موجود ہے۔ بددیانتی کی انتہا یا پھر کم علمی کے باعث تاریخ کے اتنے بڑے دورانیے کو فراموش کر کے پنجاب کے مزاج کو سکھ اورانگریز دور کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک ایسا پرامن علاقہ جو خطے کے دیگر علاقوں کی نسبت غذائی پیداوار میں خودکفیل رہا، جہاں امن تھا اور لوگ جانتے تھے کہ امن کیسے قائم رکھنا ہے۔ جہاں قبل از اسلام بھی رشتوں کا تقدس موجود تھا۔ جہاں کے شہہ زور اپنی طاقت کو لوٹ مار پر ضائع نہیں کرتے تھے۔ یہ پنجاب ہی ہے جہاں ہڑپہ اور ٹیکسلا کی تہذیبیں ٹائون پلانروں سے لے کر انجینئرز تک سے آج بھی داد پا رہی ہیں۔ جہاں ادب اور سیاست پر لکھا گیا۔ پنجاب کے علمی ذخیرے میں رامائن اور گوروگرنتھ صاحب شامل ہیں۔ پنجاب کی لوگ دانش وارث شاہ اور میاں محمد بخش کے کلام میں زندہ ہے۔ پنجاب وہ سرزمین ہے کہ جہاں زمین سبز اور تخلیقی صلاحیت عروج پر ہے۔ برصغیر میں فنون لطیفہ کے اعتبار سے دو علاقے سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔ پنجاب اور بنگال۔
چند ہفتے قبل ایک ریٹائرڈ ایڈمرل اور تحریک انصاف کے سابق عہدیدار نے تحریک آزادی کے دوران پنجاب کے کردار پر سوال اٹھایا تھا۔ میں ان کے تعصب کو اخبار میں زیر بحث نہیں لانا چاہتا تھا اس لیے انہیں سوشل میڈیا پر ہی جواب دے دیا۔ پھر ایک صاحب نے سرائیکی پنجابی تعصب میں مسلسل لکھنا شروع کردیا۔ ان کے بقول ہر خرابی کی جڑ پنجابی ہیں۔ میرے جواب پر ریٹائرڈ ایڈمرل نے پوزیشن بدلی کہ مغربی پنجاب کے لوگوں کی جدوجہد بتائیں۔ میں نے کچھ لوگوں کا نام لیا تو ایک بار پھر ڈھٹائی سے مطالبہ کیا کہ یہ تو سکھ ہیں مغربی پنجاب کے مسلمانوں کے کردار پر بات کریں۔ میں نے ایک قدیم ریکارڈ میں موجود پنجابی حریت پسندوں کی فہرستیں بھیج دیں، تاہم مغربی پنجاب کے مسلمانوں کی تحریک آزادی میں حصہ داری کو سمجھنے کے لئے نام نہاد مئورخین عقل استعمال نہیں کر سکے، وہ یہ بات بھول چکے ہیں کہ پنجاب مسلم اکثریتی علاقہ رہاہے۔ انگریز نے یہ علاقہ سکھوں سے چھینا تو انہیں سیاسی حمایت کے لیے مسلمانوں کی ضرورت تھی۔ پنجاب میں مسلمان سیاسی طور پر پسے ہوئے اور کمزور نہیں تھے۔ انگریز نے یہاں سر سکندر حیات کی تجویز پر نہریں نکالیں۔ مسلمانوں کو طاقتور بنانے کے لئے جاگیریں دی گئیں، مسلمان اشرافیہ اس لیے انگریز کی حامی تھی کہ وہ سکھ دور کو بھگت چکی تھی۔ پنجاب کے مزاج پر بات کرنے والے پنجابی و غیر پنجابی جب حقائق سے چشم پوشی کرتے ہیں تو ان کی تحریر میں نفرت کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا۔ محترم کالم نگار نے پنجاب کوبرا بھلا کہنے کی ساری کہانی سی سی پی او لاہور عمر شیخ کو نالائق ثابت کرنے کے لیے گھڑی۔ اب یہ کسے معلوم نہیں کہ عمر شیخ کے خلاف مہم کون سی سیاسی جماعت چلا رہی ہے۔ اسی لئے میں نے اپنے ساتھیوں سے شرط لگائی کہ نواز شریف عمر شیخ کا ذکر کریں گے۔ میں شرط جیت گیا!