لاہور سے قصور کی طرف جائیں تو راستے میں کاہنہ کا قصبہ آتا ہے، یہ اب اتنا پھیل چکا ہے کہ گویا نیا شہر آباد ہو گیا۔ جہاں قلعہ گوجر سنگھ آباد ہے وہاں کئی مغل سرداروں کے باغات اور مکان ہوا کرتے تھے۔ کاہنہ کے ساتھ قلعہ گوجر سنگھ کا ذکر ایک وجہ سے آیا۔ احمد شاہ ابدالی نے لاہور کے مغل امرا کو خوب لوٹا۔ ابدالی کے بعد بھی بدامنی جاری رہی، یہاں زین خان کو کلتاش کا ایک عالیشان باغ ہوا کرتا تھا جس کے آثار کے متعلق مولوی نور احمد چشتی نے ذکر کیا ہے۔
یہ 1770ء سے 1774ء تک کا زمانہ ہے جب جے سنگھ کاہنیہ نے اس علاقے پر یلغار شروع کی۔ جے سنگھ کاہنیہ سکھوں کی بارہ مثلوں میں سے ساتویں مثل کاہنیہ کا بانی تھا۔ جے سنگھ کاہنہ کا رہنے والا تھا اس لئے یہ مثل کاہنیہ کہلائی۔ یہ علاقہ اس سے پہلے آباد تھا تاہم کاہنہ کا نام کیوں پڑا یہ تا حال معلوم نہیں۔ غارت گروں کے دور میں سکھ سرادروں نے پنجاب کے علاقے بانٹ رکھے تھے جے سنگھ کو امرتسر اور پہاڑوں کا درمیانی علاقہ ملا تھا۔
نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کے متواتر حملوں اور سکھوں کی شورشوں میں بہت کچھ لٹ چکا تھا لیکن زین خان کا پوتا نور الدین خان کچھ ساکھ رکھتا تھا۔ اس نے جے سنگھ کاہنیہ کو دس ہزار روپے نقد جرمانہ ادا کر کے اپنے محلہ والوں کو اس کے ظلم سے بچا لیا اور یہ تحریر لکھوائی کہ آئندہ کوئی سکھ اس محلے پر دست درازی نہیں کرے گالیکن اس تاوان نما رقم کی شہرت ہو چکی تھی اور دوسرے سکھ سردار بھی ہتھیار باندھنے لگے۔
بھنگی مثل کے سردار جگت سنگھ نے محلے پر دھاوا بول دیا۔ نور الدین نے جے سنگھ کی سند دکھائی لیکن کچھ اثر نہ ہوا۔ لوگ منتشر ہو گئے اور محلہ ویران ہو گیا۔ آج جہاں ایبٹ روڈ پر ٹیلی ویژن سٹیشن اور ڈی جی پی آر کا دفتر ہے وہاں تھوڑا سا آگے جائیں تو اسی ہاتھ پر ایک عمارت کی عقب میں گلی نما راستہ جاتا ہے جو پارکنگ کے لئے مستعمل ہے۔ یہاں بیری کے دو قدیم درخت اور پرانے کھنڈرات کے آثار موجود ہیں۔ قیاس ہے کہ یہ بھی اسی زمانے کی عمارتوں کے ہیں جب جے سنگھ اور جگت سنگھ حملہ آور ہوئے۔
کاہنیہ مثل بنیادی طور پر سندھو جٹ ہیں۔ اٹھارویں صدی عیسوی میں پنجاب مغلوں اور افغانوں کی لڑائی کے باعث کمزور ہو چکا تھا۔ مغل امراء مقامی آبادی کے ساتھ میل جول بڑھا چکے تھے جبکہ افغان حملہ آور لوٹ مار کر کے چلے جاتے۔ اس صورت حال میں سکھوں کی بارہ مثلیں قائم ہوئیں۔ یہ مثلیں گویا بارہ چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں۔ کاہنیہ جٹ بھنگی جٹوں کا متبادل بن کر ابھرے اور جلد ہی سب سے طاقتور مثل بن گئے۔
کاہنیہ مثل نے رنجیت سنگھ کے باپ کو جموں پر قبضے سے روکا۔ اس سلسلے میں دونوں مثلوں کے درمیان کئی لڑائیاں ہوئیں۔ جے سنگھ کے بعد اس کی بہو سداکور نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ اٹھارہویں صدی عیسوی کے اختتام تک لاہور کی آبادی بھنگی مثل کے سرداروں کے ہاتھوں ظلم کا نشانہ بنتے ہوئے تنگ آ چکی تھی۔ لاہور کے باشندوں نے سدا کور اور رنجیت سنگھ کو لاہور پر حملہ کرنے کی پیشکش کی اور بدلے میں لاہور کی حکومت دینے کا وعدہ کر لیا۔
سدا کور نے اپنی بیٹی مہتاب کور کے شوہر رنجیت سنگھ کو مشورہ دیا کہ لاہور پر قابض ہوتے ہی پنجاب کا پوراخطہ عملداری میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ 7 جولائی 1799ء کو سدا کور رنجیت سنگھ کے ہمراہ اور 25,000 فوجیوں کی معیت میں لاہور پر حملہ آور ہوئی۔ بھنگی مثل کے سردار فرار ہو گئے اور لاہور پر رنجیت سنگھ کا قبضہ ہو گیا۔ 1801ء میں رنجیت سنگھ کی تخت نشینی اور تاجپوشی کے امور نبھائے۔ سدا کور میدان جنگ سے کبھی نہ گھبرائی۔
2007ء کی مردم شماری کے مطابق کابینہ کی آبادی 80ہزار تھی۔ 2022ء تک آبادی میں تیز رفتار اضافہ ہوا۔ اندازہ ہے کہ اب یہ دو لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔ کاہنہ غلہ منڈی ہونے کی وجہ سے اردگرد کے دیہات کے لئے اہم رہا ہے۔ اب یہ پرانا کاہنہ اور کاہنہ نو میں بٹ گیا ہے۔
1989ء کے لگ بھگ کی بات ہے، میں نے ایف اے کے امتحان دے رکھے تھے۔ کاہنہ میں ایک دوست نے بابا جماعت سنگھ کے گوردوارے میں ہیلتھ کلب بنا رکھا تھا۔ مجھے مدعو کیا، گوردوارے کی مین فیروز پور روڈ پر دکانیں ہیں جہاں قبضے ہو چکے۔ گوردوارے کے اندرونی حصوں پر بھی تجاوزات ہو چکی ہیں۔ صرف مرکزی عمارت باقی ہے۔ بابا جماعت سنگھ کاہنیہ کے متعلق ایک دلچسپ کہانی مشہور ہے۔ بابا جماعت سنگھ مویشی چرایا کرتا تھا۔ ایک بار چوری کردہ مویشیوں کے ساتھ جا رہا تھا کہ مالک تعاقب کرتے قریب آ گئے۔ بابا جماعت نے دعا کی کہ اگر رب اسے بچا لے تو وہ تائب ہو کر باقی زندگی دھرم کے نام کر دے گا۔ مویشیوں کے مالک پاس آئے لیکن اپنے جانور پہچان نہ سکے۔ اس واقعہ کے بعد بابا جماعت سنگھ نے توبہ کر لی۔ یہ گوردوارہ ان کی یادگار ہے۔
انگریز پنجاب پر قابض ہوئے تو انہوں نے اس علاقے کو رنجیت سنگھ کے اتحادیوں کا مرکز خیال کر کے سخت پابندیوں میں رکھا۔ کئی سندھو اپنی زمینوں اور املاک سے محروم ہو گئے۔ انہیں پناہ کے لئے دوسرے علاقوں کی طرف جانا پڑا۔ بعض نے کاشت کاری کی جگہ بیوپار جیسے کام شروع کر دیے۔ کاہنہ میں حالات کو قابو میں رکھنے کے لئے انگریز حکومت نے پولیس کی چوکی قائم کی۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ انگریز اور مغل عہد کی دستاویزات میں کاہنہ کا ذکر موجود ہے مگر یہ نمایاں قصبہ نہیں تھا۔
لاہور سے قصور جاتے ہوئے مزنگ، اچھرہ، امرسدھو اور کاہنہ آتے ہیں۔ اس کے بعد للیانی کا علاقہ آتا ہے۔ لاہور کے دیگر نواحی قصبات اور دیہات کی طرح کاہنہ کا ریکارڈ اس وقت سے ملتا ہے جب پہلی بار ا سرکاری ریکارڈ مرتب کیا گیا لیکن یہ قصبہ اس سے پہلے موجود تھا۔ کب سے موجود تھا یہ کہنا مشکل ہے۔ بسں ایک اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تین سو سال پہلے جہاں کے جنگجو پنجاب بھر میں پائے جاتے تھے وہ آبادی پانچ چھ سو سال قدیم تو ضرور ہو گی۔