سابق سینیٹر طارق چودھری صاحب نے فارن فنڈنگ سلسلے کا دوسرا کالم پڑھ کر تشنگی برقرار رہنے کا بتایا۔ طارق چودھری ان برسوں میں سینٹ کے سرگرم رکن رہے جب پاکستان میں افغان جہاد، امریکہ اور سعودی عرب کا کردار اہم ہوا کرتا تھا۔ وہ بتا رہے تھے کہ نواز شریف نے شاہ فہد سے بھی بے نظیر بھٹو کو ہرانے کے لئے انتخابی اخراجات کے نام پر فنڈز لئے۔ میں نے پوچھا اسامہ بن لادن کے فنڈز فراہمی کے گواہ مل سکتے ہیں؟ طارق چودھری نے خالد خواجہ اور کرنل امام کے نام لئے۔ دونوں چند برس قبل پراسرار حالات میں قتل ہو چکے ہیں۔ کرنل امام سے میری اپنی چند ملاقاتیں رہی ہیں۔ ان کے خاندان سے مراسم اب بھی قائم ہیں۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگ زندہ ہوں جو اس لین دین کے گواہ رہے ہیں۔
فارن فنڈنگ کے معاملے پر مزید وضاحت کے لئے میں نے الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد سے پوچھا کہ اگر انہیں یہ معاملہ سلجھانے کا ہدف دیا جاتا تو وہ کیسے حل کرتے۔ کنور دلشاد نے پہلے تو دو سال سے اجلاس پر اجلاس کرنے والی سکروٹنی کمیٹی کو وقت اور قومی وسائل ضائع کرنے کے مترادف قرار دیا پھر بتایا کہ اگر انہیں کام سونپا جاتا تو وہ سٹیٹ بنک سے فارنگ فنڈنگ اکائونٹس کی تفصیلات طلب کرتے، ایف بی آر اور ایف آئی اے سے ریکارڈ لیتے اور 3ماہ میں کیس ختم کر دیتے، سیاسی پارٹیوں کی جانب سے معاملے کو التوا کا شکار کرنے کی نیت سے دی گئی سب درخواستوں کو باہر پھینک دیتا۔ ان کے خیال میں سکروٹنی کمیٹی نے سیاسی جماعتوں کے اعتراضات پر مبنی درخواستوں کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے کر معاملے کو طول دیا۔
میرے پچھلے دونوں کالموں کو رائے عامہ تشکیل دینے والے دوستوں نے خصوصی دلچسپی سے پڑھا، وجہ یہی تھی کہ میڈیا پر اصل قانونی عبارت کی جگہ سیاسی تشریح کا ہنگامہ ہے۔ اس سے قانونی پوزیشن پس منظر میں چلی گئی اور افراد کی کچی پکی رائے قانون کے طور پر زیر بحث آ گئی۔ ان کالموں میں سوال اٹھایا تھا کہ فارن فنڈنگ اور ممنوعہ فنڈنگ کا معاملہ کس قانون سے طے کیا جائے گا۔
میں نے کنور دلشاد سے پوچھا کہ تحریک انصاف کے خلاف کارروائی پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے تحت ہو گی یا الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت۔ کنور دلشاد کے مطابق ملک میں کئی قوانین وقتاً فوقتاً بنتے رہے جمہوری حکومتیں اور مارشل لاء ادوار میں الیکشن قوانین اوپر تلے بنے۔ جنرل مشرف نے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر بنایاجو 1962ء کا ترمیم شدہ قانون ہے۔ ایک طویل احتجاجی تحریک کے بعد قائم ہونے والی انتخابی اصلاحات کمیٹی نے کوئی کام نہ کیا بلکہ سارے پرانے قوانین کو جمع کر کے اس کا نام الیکشن ایکٹ 2017ء رکھ دیا۔ نیا قانون بناتے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ 2002ئPPO کی بجائے الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت کارروائی ہو گی۔ یہ پرانے قوانین ہی ہیں اس میں نئی چیز کیا ہے۔
اپوزیشن اتحاد کی طرف سے الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج عددی اعتبار سے کمزور رہا لیکن مریم نواز اور مولانا کی شرکت کے باعث اسے میڈیا کوریج مل گئی۔ اس طرح کا احتجاج تحریک انصاف بھی کر چکی ہے۔ جب وہ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہی تھی، اس طرح کے دھرنے نما احتجاج پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن اور وکیل رہنما علی احمد کرد جنرل پرویز مشرف کے کاغذات نامزدگی داخل کرانے کے وقت کر چکے ہیں۔
ایاز امیر نے حوالہ دیا ہے کہ جنرل پاشا جب ڈی جی آئی ایس آئی تھے تو ایک اہم معاملے پر پارلیمنٹ کا ان کیمرہ اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں سب باری باری اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے۔ مولانا فضل الرحمن کی باری آئی تو انہوں نے عسکری ادارے اور پورے ریاستی نظام پر شدید تنقید خطیبانہ رنگ میں جھاڑ دی۔ ان کی تقریر کے اختتام پر جنرل پاشا جواب دینے کے لئے اٹھے اور کہا کہ مولانا جو کچھ فرما رہے تھے اس کا جواب بڑا تلخ ہے لیکن بزرگوں کے احترام میں خاموش رہا بس ایک بات سن لیں کہ مولانا لیبیا سے فنڈز کے معاملے کا جواب دیدیں۔ کہتے ہیں اس بات پر پورے ایوان کو سانپ سونگھ گیا، مولانا کی حالت یہ کہ کاٹو تو لہو نہیں۔ ایسے متعدد واقعات کتابوں میں مذکور ہیں کہ مولانا کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں جاتے تو ان کی ملاقاتیں ایسے افراد سے ہوتیں جو ان کی جماعت اور مدرسوں کو خطیر رقم بطور چندہ دینے پر آمادہ ہوتے۔
ریکارڈ کسی جماعت کا صاف نہیں، پیپلز پارٹی پر بھی فارن فنڈنگ کا الزام ہے۔ یہ فارن فنڈنگ جن اکائونٹس سے ہوئی ان کا نام منی لانڈرنگ میں آنے کی اطلاع ہے۔ ان حالات میں قوم کے پاس دو راستے ہیں۔ قوم طے کر لے کہ اسے فارن فنڈنگ کی اس تعریف سے اتفاق نہیں جوکسی خاص تشریح کی پابند ہے۔ دوسرا یہ کہ جو قانون نافذ ہے وہ سب کے لئے مساوی ہونے کا مطالبہ کیا جائے۔ ہمارے ہاں عام آدمی ایک ڈری ہوئی بھیڑ ہے، سیاسی اور مذہبی رہنما چھری دکھا کر اسے ڈراتے ہیں۔ یہ عام آدمی بہت طاقتوروں کے خلاف زبان نہیں کھول سکتا، کم طاقت والے اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ وہ سامنے کے جرائم کو جھٹلا دیتے ہیں۔ الیکشن ایکٹ ہماری جماعتوں کی ضرورت پوری نہیں کرتا تو بنایا کیوں تھا؟ اسی کو حتمی قانون مانا گیا ہے تو پھر حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف قانون کے سامنے سر جھکانا ہو گا۔ سب جماعتوں نے غیر ملکی فنڈنگ لی ہے، فارنگ فنڈنگ اور ممنوعہ فنڈنگ میں امتیاز نہیں کیا جا رہا۔ اوور سیز ونگ یہی کام کرتے ہیں۔ کیا سب کو کالعدم قرار دیدیا جائے؟