Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Hissadar

Hissadar

روس گرم پانیوں اور ہم وسط ایشیا تک پہنچ گئے۔ سچ یہ ہے کہ مفادات کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے دنیا بھرمیں بکھیر دیا جائے پھر بھی یہ مقناطیس کی طرف کھنچے آئیں گے، قدرت مفادات کو دور نہیں رہنے دیتی۔ حضرت غوث علی شاہ پانی پتی کے ملفوظات پر مبنی کتاب تذکرہ غوثیہ میں ایک قصہ شامل ہے۔ حضرت غوث علی شاہ پانی پتی کی خدمت میں ایک ہندو بڑھیا اپنی جوان بہو کے ساتھ حاضر ہوئی، اولاد کے لئے دعا کی درخواست کی۔ حضرت کی نظر جونہی لڑکی پر پڑی دل میں طلب پیدا ہو گئی۔ شام کو لڑکی اکیلی فقیر کی اس نظر میں بندھی خود بخود آ گئی۔ حضرت نے بٹھایا، اتنے میں دل سے آواز آئی غوث علی شاہ تم نے خواہش کی، اب کیا کرنا ہے، اسے بہن بنانا ہے تو اپنی حقیقی بہنوں اور خاندان کو چھوڑ کر کیوں دربدر ہو، اگر اس سے نفسانی خواہش پوری کرنا ہے تو یہ درویشی اور فقیری کا بہروپ کیوں بھر رکھا ہے۔ فقیر نے توبہ کی اور لڑکی کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے واپس بھیجا۔ ہم نے سٹریٹجک ڈیتھ کی آرزو میں پہلے پندرہ بیس ہزار جہادی مروائے پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 70ہزار سے زاید شہید کروائے۔ اب 22سو کلو میٹر کی سرحد کے پار ہمارے دوست حکمران بنے ہیں جن کے دل ہمارے لئے کشادہ اور آنکھوں میں مروت کے چراغ جلتے ہیں۔ ہم نے جو خواہش کی وہ پوری ہو گئی۔ اب کیا کرنا ہے؟

ہندوستان میں آزادی کی تحریک جوبن پر آئی توافغانستان پر سرحدی گاندھی باچا خان خاندان کے اثرات تھے، لسانی رابطہ تھا، خیبر پختونخواہ کے لوگوں کی افغانستان آمدورفت اور رشتہ داریاں تھیں۔ ہمارے پاس صرف قائد اعظم تھے۔ کے پی میں مسلم لیگ کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ کانگرس اور خدائی خدمتگار تحریک نے مل کر حکومت بنا رکھی تھی۔ ایسے میں جب پاکستان بننے کا اعلان ہوا تو شمال مغربی سرحدی صوبہ کے کانگرس نواز خیالات افغان علاقوں تک پہنچے اور افغانستان میں پاکستان مخالفت کے بیج بو ئے گئے۔ یہ وہ بنیاد تھی جو بھارت اور افغانستان کے تعلقات میں ہمیشہ خوشگواری کا باعث بنی رہی۔ پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف جہاد میں حصہ لیا۔ بڑی وجہ تو امریکہ کے مفادات تھے لیکن مشترکہ مفاد افغان علاقے کو اپنی دوست سرزمین بنانا تھا۔ وہاں سے کمیونزم کا خاتمہ امریکہ کا ہدف تھا۔ ہمارا ہدف بھارت کا اثرو رسوخ ختم کرنا تھا۔ سوویت یونین منہدم ہوا تو امریکہ اور پاکستان کو اپنے مقاصد حاصل ہو گئے، پاکستان کو وسط ایشیا تک رسائی کا اضافی فائدہ ملا، افغانستان کے باشندوں کو تجارتی راہداری کی حیثیت ملی جس سے وہ اپنی غربت ختم کر سکتے تھے اور پاکستان کی بندرگاہ کے ذریعے اپنی پیداوار دنیا کے کسی بھی علاقے میں پہنچا سکتے تھے۔ یوں سب کو حسب آرزو ملا۔

طالبان اگر اپنی سرزمین القاعدہ اور اسامہ بن لادن کو استعمال نہ کرنے دیتے تو 20سال تک جنگ لڑنا پڑتی نہ لاکھوں لوگ مرتے۔ اس جنگ میں بیس سال کے دوران ڈھائی ہزار امریکی مرے جبکہ مرنے والے افغانوں کی تعداد ڈھائی لاکھ کے قریب ہے، پاکستان میں ہونے والی ہلاکتوں کو شامل کر لیں تو تعداد سوا تین لاکھ بنتی ہے۔ 110ارب ڈالر کا نقصان پاکستانی انفراسٹرکچر کو اٹھانا پڑا، افغانستان پر 83کھرب ڈالر لگے لیکن کابل شہر کے سوا کوئی علاقہ امن نہ دیکھ سکا۔ کابل کا بھی وہ حصہ جو چھائونی بنا ہوا تھا۔

امریکہ جنگی آلات و مشینری ہی نہیں جنگی علوم کا بھی استاد کہلاتا ہے۔ دنیا بھر سے فوجی افسر امریکی داروں سے تربیت حاصل کرنے آتے ہیں، امریکہ کسی سے ناراض ہوتا ہے تو اس ریاست کو فوجی تربیت کی رعایت دینا بند کر دیتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے پاکستان پر بھی تربیتی پابندیاں عاید کی تھیں۔ افغانستان کے پاس کچھ نہیں تھا، جنگی مشینری کے سامنے نہتا حوصلہ تھا جو ڈٹا رہا اور استاد کا سارا ہنر مٹی میں مل گیا، استاد سنگلاخ پہاڑوں پر ناک رگڑتے ہوئے اس حال میں بھاگا کہ اس کا عالمی رعب و دبدبہ طالبان کے برہنہ پائوں کے نیچے پڑا ہوا ہے۔ اس کے اثاثے مال غنیمت بن چکے۔ طالبان کی جنگی حکمت عملی دنیا سے داد پا رہی ہے۔ انہوں نے کوئی خون بہایا نہ غارت گری کی، عورتوں بچوں اور بزرگوں کو ایذا پہنچائی نہ فصلیں اور کاروبار تباہ کئے۔ جس شہر کو چاہا اس کا محاصرہ کر لیا۔ لڑائی یا اطاعت۔ یہ دو لفظی پیغام شہر والوں کو بھیجا۔ سب نے اطاعت قبول کی۔ حتیٰ کہ کابل شہر جس کی حفاظت 3لاکھ نفری والی فوج کر رہی تھی بنا خون بہائے فتح ہو گیا۔ ایک ایک کر کے طالبان رہنما برسوں کی روپوشی ختم کر کے منظر عام پر آ رہے ہیں۔ اس جنگ کا نتیجہ ایک بار پھر افغانستان سے بھارتی اثرورسوخ کے خاتمہ، وسط ایشیا کی منڈیوں تک پاکستان کی رسائی، افغانستان کی بطور تجارتی راہداری حیثیت بحالی کی صورت میں نکلا ہے۔ اضافی فائدہ یہ ملا کہ افغانستان کی وجہ سے پاکستان، روس، چین اور وسط ایشیا ایک تزویراتی بلاک کی شکل میں ابھرنے لگے ہیں۔

افغانستان کی تعمیر نو ہونا ہے، نئے حکمرانوں کی تربیت ہونا ہے، انہیں استاد کی ضرورت ہے، ان کے پاس انتخاب ہے کہ امریکہ کی ٹکر کے باصلاحیت استاد سے سیکھ سکیں۔ آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سکیورٹی امور پر مشاورت کرنے افغانستان پہنچے، امریکہ کی جنگی مشینری، طیارے اور ناکارہ بنائے ہیلی کاپٹر ٹھیک کئے جا رہے ہیں۔ طالبان حکومت کا ناک نقشہ بنایا جا رہا ہے، صرف نیا افغانستان نہیں نیا جہان تعمیر کیا جا رہا ہے۔

ایک صف ماتم ہے، ہمسائے میں مرگ ہو گئی ہے، جب ہمارے ہاں سوگ تھا تو وہ شادیانے بجا رہے تھے، کابل کے فرضی مشن پر بالی ووڈ فلمیں بنا رہا تھا، اب بین سرحد پار ہیں۔ یہ واویلہ بتانے کوکافی ہے کہ نئی صورتحال میں افغان طالبان کے ساتھ جیت میں اور کون حصہ دار ہے۔