ایک آسان راستہ ہے کہ کسی خاص سیاسی گروہ کا آلہ کار بن کر کالم نگار اس جماعت کے مفادات کا محافظ بن جائے۔ دوسرا مشکل راستہ یہ ہو گا کہ اپنے سیاسی رجحانات کو کسی ایسی شخصیت سے بچا کر لکھا جائے جو اپنے حامیوں کے لئے بڑا سا مقدس بت بن چکی ہے۔ ہمیں یہ دوسرا راستہ پسند ہے۔ خبر یہ ہے کہ پاکستان میں کپاس کی فصل نے پیداوار کم دی ہے یعنی جس قدر رقبے پر کپاس کاشت کی گئی اس شرح سے پیداوار ماضی کے مقابلے میں کم رہی ہے۔ ظاہر ہے یہ خبر ایک صورتحال سے متعلق ہے جس کا ادراک سب کو ہے لیکن کوئی اس کا تدارک کرنے پر تیار ہے نہ بات کرنے کوآمادہ۔
2008ء میں پیپلز پارٹی نے وفاق میں حکومت سازی کی۔ نذر محمد گوندل وزیر خوراک و زراعت مقرر ہوئے۔ لاہور تشریف لائے تو ہمارے ادارے نے ٹی وی کے لئے ان کا انٹرویو کرنے کا انتظام کیا۔ زراعت سے میری دلچسپی دیکھتے ہوئے فال میرے نام نکلا۔ ان دنوں بی ٹی کاٹن سیڈ کا شہرہ تھا لیکن بھارت سے رپورٹس مل رہی تھیں کہ وہاں بی ٹی کاٹن کاشت کرنے والے کسان قرضوں کے ناقابل برداشت بوجھ تلے دب کر خودکشیاں کر رہے ہیں۔ سیڈکا کاروبار دنیا پر زرعی قبضے کا منصوبہ بن چکا ہے۔ اچھا بیج خفیہ سٹور بنا کر چھپایا جا رہا ہے، زیادہ پیداوار کا لالچ دے کر ایسا بیج کسانوں کو فراہم کیا جا رہا ہے جس سے وہ اپنا بیج نہیں بنا سکتے، جو اپنی فصل سے بیج لے کر اگلی کاشت کرتا ہے، اس کی فصل پر کیڑے آ جاتے ہیں یا پودے نشو و نما نہیں پاتے۔ ہر سال بیج خریدنا پڑتا ہے۔ بیج میں جینیاتی انجینئرنگ کر کے اس کی صلاحیت میں کئی چیزیں شامل کی جا سکتی ہیں۔ کمپنیاں نیا بیج تیار کرتی ہیں۔ اس تحقیق پر کروڑوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ فی ایکڑ پیداوار 20من سے بڑھ کر 30من ہو جائے گی۔ کسان کو اپنا منافع کئی گنا زیادہ دکھائی دینے لگتا ہے۔ وہ اس مہنگے بیج کو کاشت کر لیتا ہے۔ اس کے بعد اسے اچانک معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کی کپاس پر گلابی سنڈی، تیلا اور رس چوسنے والی مکھی تو حملہ آور نہیں ہو سکی لیکن امریکن سنڈی اور کچھ نئے کیڑے آ گئے ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لئے نئی اور مہنگی ادویات خریدی جاتی ہیں۔ زرعی ماہرین اس کی کوئی مدد نہیں کر پاتے۔ صرف یہ بتاتے ہیں کہ نئے بیج کے ساتھ حفاظتی ادویات، سپرے اور کھادوں کا پورا کمبی نیشن تبدیل ہو چکا ہے۔ میں نے نذر محمد گوندل سے پوچھا کہ آپ کی حکومت بی ٹی کاٹن کا بیج پاکستان کے لئے منظور کرنے جا رہی ہے۔ انہوں نے پہلے تردید کی۔ پھر اس معاملے کو دیکھنے کا وعدہ کیا۔ بی ٹی کاٹن کا بیج اسی پیپلز پارٹی کی حکومت میں منظور کیا گیا، وزیر اعظم گیلانی اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی خود بڑے زمیندار تھے لیکن اس بیج کی منظوری دیدی گئی۔ صدر آصف علی زرداری کوئی صنعت کار نہیں بلکہ زمیندار تھے وہ بھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کر سکے، ن لیگ کی تو بات ہی نہ کریں وہ تو ہمیشہ سے کسان دشمن پالیسیاں لاتی رہی ہے۔
کپاس پاکستان کی اہم ترین فصلوں میں سے ایک ہے۔ کپاس اور اس کی بنی اشیا پاکستان کی کل برآمدات کا 55فیصد ہیں۔ ہمارے 26فیصد کسان کپاس اگاتے ہیں اور مجموعی زیر کاشت رقبے کا 15فیصد کپاس کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان کی کل پیدا کردہ کپاس کا 65فیصد صرف پنجاب میں کاشت ہوتا ہے کپاس کو ٹیکسٹائل انڈسٹری میں خام مال کے طور پر استعمال میں لایا جاتا ہے۔
رواں برس پچھلے سال کی نسبت 12فیصد کم علاقے پر کپاس کاشت کی گئی، اس کا مطلب 2.2ملین ہیکٹرز کم علاقہ ہے۔ کپاس کی کاشت میں کمی کی وجہ فصل پر مسلسل سنڈیوں اور کیڑوں کا حملہ، غیر یقینی موسمی حالات اور غیر مستند بیج کا لگانا ہے۔ سال 2019-20ء میں کپاس کی پیداوار گزشتہ برس کی نسبت 13فیصد کم رہی۔ پاکستان میں 15سال پہلے بی ٹی کاٹن کا بیج متعارف کرایا گیا اور پھر آناً فاناً یہ بیج ہر طرف پھیل گیا۔ اب 95فیصد علاقے میں یہی بیج بویا جاتا ہے۔ کپاس کی کمزور جینیات کے باعث گلابی سنڈی اور ٹینڈوں کے کیڑوں کا حملہ بڑھ گیا ہے۔
سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے چار سال پہلے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی ایک وجہ کپاس کی کم ہوتی پیداوار کو قرار دیا تھا۔ کپاس نقد آور فصل ہے جب کسانوں کو پیداواری لاگت سے کم دام ملے تو انہوں نے کپاس کی کاشت بند کر دی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی کپاس بھارت اور مصر کی کپاس سے پیچھے چلی گئی۔ پاکستانی کسانوں کو جو بیج دیا جا رہا ہے اس کا یہ نقص سامنے آیا ہے کہ روئیدگی کی شرح کم ہے۔ کم پودے نکلنے سے پیداوار کم ہو رہی ہے، رہی کسر جینیاتی انجیئرنگ سے پیدا کی گئی بیماریاں پوری کر دیتی ہیں۔ سمجھیں زرعی ادویات اور بیجوں کی خرید و فروخت کا کام کرنے والی کمپنیاں نئے وائرس بناتی ہیں تاکہ ان کی ادویات فروخت ہوں۔ بڑے ممالک، عوام سے مخلص حکومتیں اور باشعور سماج بیماریوں والا بیج اپنے ہاں آنے نہیں دیتے، جہاں حکومتیں نہیں مافیاز کا راج ہوتا ہے وہاں سب کچھ بکتا رہتا ہے، حکومت بے بسی کا اظہار کر کے جان چھڑا لیتی ہے جوش ملیح آبادی نے ایک نظم کہی تھی، کسان، چند مصرعے پیش ہیں تاکہ کسان اور تہذیب میں تعلق کی تاریخ یاد دلا سکوں۔
بھولی بھٹکی سی زمیں کھویا ہوا سا آسماں
پتیاں مخمور کلیاں آنکھ جھپکاتی ہوئی
نرم جاں پودوں کو گویا نیند سی آتی ہوئی
یہ سماں اور اک قوی انسان یعنی کاشت کار
ارتقا کا پیشوا تہذیب کا پروردگار
جس کے ماتھے کے پسینے سے پئے عز و وقار
کرتی ہے دریوزہ تابش کلاہ تاجدار
سرنگوں رہتی ہیں جس سے قوتیں تخریب کی
جس کے بوتے پر لچکتی ہے کمر تہذیب کی
جس کی محنت سے پھبکتا ہے تن آسانی کا باغ
جس کی ظلمت کی ہتھیلی پر تمدن کا چراغ
جس کے بازو کی صلابت پر نزاکت کا مدار
جس کے کس بل پر اکڑتا ہے غرور شہریار