رحیم یار خان کے علاقہ ظاہر پیر کا کاشت کار جام زبیر اپنے لوڈر رکشے پر رکھے تازہ ٹماٹروں کے تھیلے نہر میں پھینک رہا ہے۔ وہ جھنجلاہت زدہ خود کلامی میں حکومت اور اپنے مقدر کو کوس رہا ہے۔ لوگ قریب سے گزرتے ہیں، حیرت سے اسے دیکھتے اور نکل جاتے ہیں، ایک شخص نے پا س جا کر ویڈیو بنا لی۔ ویڈیو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دو من کے قریب ٹماٹر ہوں گے۔ جام زبیر کھیت سے چن کر ٹماٹر سبزی منڈی لے گیا۔ تین گھنٹے تک منتظر رہا مگر کوئی خریدار نہ ملا۔ دیہاتی آدمی اپنے طریقے سے غصہ نکالتا ہے۔ اس کا چھ سال کا بیٹا لوڈر رکشہ پر کھڑا ہے۔ باپ ایک ایک کر کے تھیلے نہر میں گرا رہا ہے۔ کچھ ٹماٹر نہر کی پٹڑی پر گرتے ہیں باقی سارے پانی پر تیرنے لگتے ہیں۔ یہ وہی ٹماٹر ہیں جن کی فصل تیار ہونے اور منڈی میں فروخت تک غریب کسان نے کئی خواب ٹال رکھے تھے۔ کسی راہگیر نے پوچھا ایسا کیوں کر رہے ہو؟ بولا!خاندان کا روزگار کاشت کاری سے وابستہ ہے۔ کسان قرض لے کر فصل کی پرورش کرتے ہیں۔ سبزیاں تیار ہو جاتی ہیں تو قیمت نہیں ملتی۔ بیج، پانی، مزدوری اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ منافع نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔ معلوم نہیں کھیت پر واپس جا کر یہ ناراض کسان ٹماٹر کے پودوں اور ان پودوں سے ٹماٹر توڑتی اپنی محنت کش بیوی کے ساتھ کیا سلوک کرے۔ تاہم یہ ضرور واضح ہو رہا ہے کہ حکومت زرعی شعبے کے لئے جو بھاری پیکیج لاتی رہی ہے ان میں ضرورت سے زائد سبزیوں، پھلوں اور اناج کو محفوظ رکھنے کی ٹیکنالوجی اب تک شامل نہیں ہوئی، پاکستان میں دوسرے ممالک کا تیار کیچپ ملتا ہے، سموسوں اور فاسٹ فوڈ والے کیمیائی رنگوں اور مصنوعی ذائقے والا کیچپ کھلا رہے ہیں، غیر معیاری اور کیمیائی اجزا والا کیچپ اس لئے بک جاتا ہے کہ مقامی کیچپ ہماری ضرورت پوری نہیں کر پا رہا، ہم زہر کھانے یا مہنگا درآمدی کیچپ خریدنے پر مجبور ہیں۔ جام زبیر کو ٹماٹو کیچپ بنانا آتا تو وہ خون پسینے سے سینچے ٹماٹر نہر میں نہ پھینکتا۔ اپنے خوابوں سے بھرے تھیلے تلف نہ کرتا۔
چند روز ہوئے نارووال سے بھارت جانے والے ایک سکھ ڈیری فارمر کی کہانی پڑھی۔ نام یاد نہیں رہا۔ بتایا گیا کہ جب دونوں ملک آزاد ہوئے تو ان سردار صاحب کی ملکیت میں سینکڑوں نہیں ہزاروں گائے تھیں۔ بھارت گئے تو بڑی مشکل سے 3گائیں جمع کر سکے۔ دو تین سال سخت محنت کی۔ گائیوں کی تعداد بڑھی نہ آمدن میں اضافہ ہوا۔ اچھے وقت تھے۔ افسران کمروں میں نہیں بیٹھتے تھے، باہر نکل کر خود حالات سے واقفیت رکھتے۔ ایسے ہی سٹیٹ بنک آف انڈیا کے ایک اعلیٰ افسر کو سردار صاحب کی محنت اور ہنر کا پتہ چلا۔ انہوں نے حکومت کی خصوصی سکیم سے اس فارمر کے لئے کچھ فنڈز کا انتظام کیا۔ فنڈز ملنے پر زیادہ دودھ دینے والی گائیں خریدی گئیں، چارے کی وہ اقسام کاشت کی گئیں جن سے دودھ میں اضافہ ہوتا اور جانور رغبت سے کھاتے۔ ڈیری فارمنگ کے لئے جدید آلات اور ٹیکنالوجی کا اہتمام کیا گیا۔ اگلے دس برس میں گائیوں کی تعداد سینکڑوں ہو گئی۔ 3گائیوں کا مالک خاندان آج سالانہ 4ہزار کروڑ روپے کا کاروبار کر رہا ہے۔
مقامی زراعت اور فوڈ سسٹم کے مابین ایک مضبوط تعلق ہے۔ یہ تعلق تقاضا کرتا ہے کہ زرعی اجناس اور ڈیری معلومات کی مقامی سطح پر کھپت پوری ہونے کے بعد اضافی پیداوارکو مقامی سطح پر ہی پروسیس کیا جائے۔ اس کام کے لئے مقامی کاشت کاروں اور مویشی پال حضرات کو کوالٹی کنٹرول کے حوالے سے تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ذمہ داری کا کام ہے۔ ایسے گروپوں اور اداروں کی ضرورت ہے جو کسانوں کو مدد اور رہنمائی فراہم کر سکیں۔ یہی ادارے پروسیس شدہ اشیا کو قومی اور بین الاقوامی منڈیوں میں فروخت کر سکتے ہیں۔ کچھ فارموں کو اکٹھا کر کے وہاں تحقیق، کاروبار اور تعلیم کا بندوبست کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں بہت سے ادارے ہیں جنہیں اس کام کے لئے قائم کیا گیا کہ وہ زراعت اور لائیو سٹاک کے شعبے کے لئے کامیاب منصوبے سامنے لائیں۔ زرعی ترقیاتی بنک، زرعی تحقیقاتی کونسل، ہارٹی کلچر ایکسپورٹ بورڈ، ڈیری ڈویلپمنٹ بورڈ، ماہی پروری جیسے ادارے کام کر رہے ہیں۔ جس طرح ہمارے کمرشل بینک حکومت کو قرضے دے کر عام آدمی کے لئے کوئی قرض سکیم شروع کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے اسی طرح زراعت، لائیو سٹاک، پولٹری اور ہارٹی کلچر کی ترقی کے لئے کام کرنے والے ادارے صرف سیاستدانوں، اعلیٰ افسران اور بااثر کاروباری افراد کو فائدہ پہنچانے تک محدود رہتے ہیں۔ حکومت کی ساری توجہ کھاد پر سبسڈی دینے سے آگے نہیں بڑھتی۔ ملٹی نیشنل ادارے زرعی ادویات اور کھادیں مقامی سطح پر تیار نہیں ہونے دیتے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں بھی چین سے زرعی ادویات لا کر پاکستان میں پیکنگ فروغ پا رہی ہے۔ کوئی ٹیکنالوجی اور پروسیسنگ پر سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں۔
میرے ایک جاننے والے نثار حسین سکردومیں رہتے ہیں۔ محکمہ صحت میں ملازم اور چھوٹے سے کسان ہیں۔ خوبانی، آڑو اور ناشپاتی کے تھوڑے سے درخت ہیں۔ بتاتے ہیں کہ پورے گلگت بلتستان میں ہزاروں ٹن پھل منڈیاں دور ہونے، محفوظ نہ ہو پانے اور پروسیسنگ کی سہولیات کم ہونے کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔ جو ادارے کسانوں اور باغبانوں کو ہر سال کاشت کے حوالے سے مشورے دیتے ہیں وہ غیر فعال ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسان اپنی مرضی سے فصلیں کاشت کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کبھی ٹماٹر کی بہتات ہو جاتی ہے اور کبھی مرچ کا بھائو گر جاتا ہے۔
ڈیری سے وابستہ افراد کو پنیر، کھویا، دہی، لسی کی تیاری اور مارکیٹنگ میں مدد نہیں دی جا رہی، گوشت کی طلب بڑھ چکی ہے لیکن گوشت کی اس مارکیٹ کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں، بیف، مٹن، چکن اور فش کے علاوہ خرگوش اور پرندوں کے گوشت کو رواج دیا جا سکتا ہے اور جام زبیر جیسے کسانوں کے ٹماٹر سے مزیدار دیسی کیچپ تیار کیا جا سکتا ہے۔