اگرچہ قدیم ہندوستان میں ایک بھرپور تہذیب موجود تھی لیکن ابراہیمی مذاہب کے پیروکاروں کی دلچسپی اردن، اسرائیل، فلسطین، عراق، شام اور سعودی عرب پر مشتمل علاقوں کے آثار سے رہی۔ ہمارے سینئر دوست علی جعفر زیدی ان دنوں اردن کی سیاحت پر ہیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر کئی مقامات کی تصاویر دکھائی ہیں، وہ جگہ جہاں حضرت عیسیٰ ؑ کو بپتسمہ دیا گیا وہ حوض ابھی باقی ہے۔ وہ مقام جہاں حضرت موسیٰ ؑ کی قبر بتائی جاتی ہے اور دنیا کے سات عجوبوں میں سے ایک پیٹرا کا شہر جسے شہر گمشدہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس شہر کے بارے میں مغربی مصنفین اور محققین نے بہت سی باتیں مشہور کر رکھی ہیں۔ کچھ نے اسلام سے تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھا کہ وہ مکہ جہاں رسولؐ اللہ کی ولادت ہوئی دراصل یہی پیٹرا ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ ابراہیم ؑ سے پہلے اس شہر میں کعبہ ہوا کرتا تھا۔ ان کے بقول حضرت ابراہیمؑ نے موجودہ کعبہ کی بنیاد بعد میں رکھی، کچھ تو کعبہ کی موجودہ عمارت کو رسول اللہﷺ کے عہد سے بعد کی تعمیر قرار دینے کا شوشہ چھوڑتے ہیں۔
اردن کے سرخ پہاڑوں میں چھپا ہوا پیٹرا زمینی تجارت کا اہم مرکز رہا ہے۔ یہ شہر صحرا میں اٹھایا گیا۔ آباد کاری میں آسانی کی خاطر یہاں پانی کے ڈیم اور نالیاں تعمیر ہوئیں۔ اس سے پانی کو ذخیرہ کرنا اور سیلاب سے بچائو کا انتظام کیا گیا۔ تحقیق کرنے والوں کا خیال ہے کہ جب رومیوں نے اس پر قبضہ کیا تو شہر کی اہمیت کم ہو گئی کیونکہ ان فاتحین نے اس تجارتی مرکز کے متبادل سمندری تجارت کے مرکز قائم کئے۔ چند سال پہلے شام میں داعش نے پامیرا نامی جس تاریخی شہر کے کھنڈرات کو تباہ کیا اسی پامیرا کی ترقی نے پیٹرا شہر کو بے وقعت کیا تھا۔ ماہرین آثار قدیمہ کہتے ہیں کہ 363 سے 551 عیسوی تک مسلسل شدید زلزلوں نے پیٹرا شہر کا نظام آبپاشی تباہ کردیا۔ ساتویں صدی عیسوی میں جب عربوں نے یہ علاقہ فتح کیا تو پیٹرا ویران ہو چکا تھا۔
1985ء میں پیٹرا کے آثار کو یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دیا۔ 2007ء میں از سر نو فہرست مرتب کر کے اسے دنیا کے سات عجوبوں میں شامل کیا گیا۔ صدیوں تک یہاں کے مقامی باشندے کسی اجنبی کو اس علاقے میں دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ کوئی غیر ملکی ان کھنڈرات کے قریب نہ جا سکتا۔ اٹھارویں صدی میں ایک یورپی سیاح مدت تک مقامی بدوئوں کی زبان اور رہن سہن سیکھتا رہا اور پھر بدو کا بھیس بدل کر دشوار گزار ویرانوں سے گزر کر پیٹرا تک پہنچا۔ یرموک یونیورسٹی اردن کے محقق زیدون المحسین کا کہنا ہے کہ ہم نے اب تک شہر کا صرف پندرہ فیصد حصہ کھولا ہے۔ باقی 85 فیصد اب بھی ان چھوا اور زیر زمین ہے۔ سیاح اب تک کھولے گئے آثار میں گریکو رومن اور نباطین طرز تعمیر کے نمونے دیکھ سکتے ہیں۔ شہر کے مقبروں کو خزانے کے لالچ میں چور کئی بار لوٹ چکے ہیں۔ جو لوگ پیٹرا کی سیاحت کر چکے ہیں ان کہنا ہے کہ ان دنوں مقامی بدو حضرت موسیٰ ؑ کے عصا ٹکرانے سے جاری ہونے والے چشموں والی جگہ کے قریب سیاحوں کو کئی طرح کی یادگاری اشیا فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔
جانے کیوں مغربی مصنفین اس شہر کو رسولؐ اللہ کے عہد کا پہلا مرکز دعوت و تبلیغ قرار دینے پر بضد ہیں۔ خاص طور پر گبسن جیسے ان مغربی مصنفین کا رویہ جارحانہ اور ایسا ہے کہ گویا مقامی تاریخی شواہد اور نسل در نسل آباد اہل مکہ و مدینہ منورہ کی نسبت وہ زیادہ جانتے ہیں۔ مغربی افسانہ طرازوں کے جھوٹے قصے بتاتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے دو سال تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھائی تو یہودی متاثر نہ ہوئے۔ پھر رسولؐ اللہ نے بیت المقدس سے رخ تبدیل کر کے پیٹرا کی طرف کردیا اور یہ سلسلہ ایک سو سال تک جاری رہا۔ مغربی روایات کے مطابق 683 میں ابن زبیر نے جب یزید کی جگہ خود کو خلیفہ قرار دیا تو اموی لشکر نے پیش قدمی کی۔ ابن زبیر پیٹرا میں کعبے کی عمارت میں پناہ گزین ہوئے۔ اسلام دشمنی سے بھرا گبسن کہتا ہے کہ یزیدی فوج یا خود ابن زبیر نے تب عمارت کو تباہ کردیا۔ گبسن کے ساتھی کہتے ہیں کہ ابن زبیر نے حجر اسود اٹھایا اور کسی محفوظ مقام کا رخ کیا۔ یہ محفوظ مقام آج کا مکہ شہر بتایا گیا جہاں گمراہ کن افسانے کے مطابق نیا کعبہ تعمیر کیا گیا۔ یہ جھوٹ گھڑ کے خانہ کعبہ، حضرت ابراہیم ؑ اور حج کی عبادت پر حملہ کیا گیا۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پیٹرا کبھی عام لوگوں کے رہنے کی جگہ نہیں رہا۔ یہاں زندہ انسان نہیں رہتے تھے بلکہ مرنے والے بادشاہوں کے مقبرے تعمیر ہوتے۔ یہ مقبروں کا شہر ہے۔ پیٹرا بہر حال ایک قدیم اور اہم شہر رہا ہے جس کے آثار آج کی نسل کو حیران کرتے ہیں۔ ہندوستان کی ریاست مہارا شٹر میں اورنگ آباد شہر کے پاس ایلورا کے غار ہیں۔ تعمیرات اینٹ اور پتھر سے نہیں چنی گئیں بلکہ پہاڑی چٹانیں کاٹ کر ان کو اندر سے کھوکھلا کیا گیا۔ روشندان اور دروازے نکالے گئے، ایک ہی چٹان میں سے تین تین منزلہ عمارت نکالی گئی۔ سنگ تراشوں نے اس قدر نفیس اور باریک کام کیا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ یہ بدھ ازم، ہندو ازم اور جین ازم کا مرکز رہا ہے۔ انہیں غار کا نام دے دیا گیا حالانکہ یہ عمارتوں کا ایک سلسلہ ہے۔ ایلورا کی تعمیرات چار ہزار برس پرانی ہیں۔ لگ بھگ پیٹرا جتنی قدیم۔ آج کا انسان اس قدر عمدہ، نفیس اور توازن سے بھرپور عمارت دیکھ کر حیرت سے گنگ ہو جاتا ہے۔ حیرت ظاہر کرتی ہے کہ ہم ایسا کام کرنے سے خود کو عاجز محسوس کرتے ہیں۔ سوچتا ہوں آج کا عہد تو مستقبل میں کہیں محفوظ نہیں رہ سکے گے۔ ناپائیدار عمارتیں، ہر سال ٹوٹ جانے والی سڑکیں، پانی میں بہہ جانے والے گائوں، کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک میں محفوظ ریکارڈ اور کم ہمت لوگ۔ ہم تاریخ کے اس عہد میں جی رہے ہیں جسے کوئی یاد نہیں رکھے گا۔ جس کے نقوش بہت جلد مٹ جائیں گے۔