مسلم لیگ نون کے قائدنوازشریف نے افغان مشیر برائے سلامتی حمداللہ محب سے ملاقات کی، چار روز ہو گئے مسلم لیگ نواز اس ملاقات کی وضاحت اور اس میں باہمی دلچسپی کے زیر بحث معاملات کے بارے میں قوم کو آگاہ نہیں کرسکی۔ محمد زبیر نے ایک دیمک زدہ بیان دینے پر اکتفا کیا کہ ملاقات کو صرف ملاقات سمجھا جائے۔ مریم نواز نے فرمایا کہ حکوت کو سفارت کاری کی سمجھ نہیں اس لیے حمداللہ محب سے نوازشریف کی ملاقات پر اعتراض کیا جارہا ہے۔
سوموار کے روز قلم دوست تنظیم نے افغانستان کی صورت حال پر ویبنار کا اہتمام کر رکھا تھا۔ کلیدی گفتگو ممتاز تجزیہ کار جناب سلیم صافی نے فرمائی۔ اس ویبنار میں بھی حمداللہ محب اور نوازشریف ملاقات کا پس منظر تلاش کرنے کی کوشش کی گئی، میں نے تو ان امکانات پر بھی سوال اٹھایا کہ کیا مستقبل میں یہ ملاقات ریاست پاکستان کو کسی طرح کا فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ سلیم صافی نے اس ملاقات کا ایک پس منظر بتایا کہ جب اشرف غنی پہلی بار افغانستان میں صدارت کے امیدوار تھے تو پاکستان میں نوازشریف کی حکومت تھی۔ دوسرے امیدوار عبداللہ عبداللہ کی نسبت اشرف غنی تب تک پاکستان مخالفت میں بدنام نہیں ہوئے تھے۔ پاکستانی حکام نے افغان صدارتی انتخابات سے قبل اشرف غنی سے رابطہ کیا اور انہیں بعض اہم امور میں مدد فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی کہ وہ صدر منتخب ہو سکیں۔ اشرف غنی سے پاک افغان تعلقات اور سٹریٹجک مدد کے حوالے سے بھی کئی وعدے کرلیے گئے۔ پاکستان کی مدد پا کر اشرف غنی صدر منتخب ہو گئے۔ اشرف غنی اس مدد پر نوازشریف کے ممنون تھے۔ سلیم صافی کے مطابق صدر منتخب ہونے کے بعد اشرف غنی نے پاکستان سے دیگر وعدے پورے کرنے کا تقاضا شروع کیا۔ معاملات سے آگاہ کچھ لکھنے والوں نے بھی نوازشریف کو یاد دہانی کرائی لیکن یہ وعدے پورے نہ کئے جا سکے۔ نوازشریف نے غالباً اشرف غنی کو یہ تاثر دیا کہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ان سے تعاون نہیں کر رہی۔ سلیم صافی کی رائے میں اشرف غنی حکومت کے مشیر سلامتی نے نوازشریف سے ملاقات کر کے یہ احسان چکایا اور تاثر دینے کی کوشش کی کہ نوازشریف عالمی سطح پر اب بھی اہم ہیں اور خطے کے ممالک ان سے رابطہ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
امریکہ نے افغانستان میں بیس سال قیام کے دوران نظام کو جمہوری شکل دینے کا منصوبہ اس لیے وضع کیا کہ عالمی سطح پر اس کی جمہوری اصولوں کے ساتھ وابستگی پر سوال نہ اٹھے۔ حامد کرزئی اور اشرف غنی کا افغانستان کی اکثریتی آبادی کو نظر انداز کر کے انتخاب ہر اصول اور ضابطے کی خلاف ورزی تھا۔ اقتدار، طاقت اور دولت کی ہوس کے شکار افغان رہنما امریکہ کے اتحادی بنے۔ اپنے اقتدار کے لیے کسی سے دوستی اور کسی سے بے وفائی ان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں رہا۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے پوری افغان قوم کو اسی طرح کا لالچی اور مفاد پرست سمجھا جانے لگا ہے۔
امریکہ کی شہہ پر افغان حکومتوں میں ایسے ٹیکنو کریٹس کو شامل کیا گیا جن کی جڑیں افغانستان میں نہیں۔ یہ پیرا شوٹر امریکی اداروں سے تعلیم یافتہ اور امریکی مفادات کے لیے کام کرتے ہیں۔ امریکہ انہیں سیاسی کیریئر بنانے کا موقع دیتا اور حکومتوں میں مشیر، معاون خصوصی یا معاون تعینات کروا دیتا ہے۔ حمداللہ محب بھی ایسا ہی مشیر ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ رواں برس جب اس نے پاکستان کو ایک قحبہ خانہ قرار دیا تو افغان حکومت میں شامل اکثریت نے اس بیان پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ اس کے بعد جب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے سخت لہجہ اختیار کیا تو حمداللہ محب نے افغان نیشنلزم کے نام پر افغان عمائدین کو ایک بار پھر پاکستان کے خلاف بھڑکایا۔ دلچسپ بات یہ کہ کچھ دن قبل حمداللہ کی مذمت کرنے والے اس بار اس کے حامی بن گئے۔ امریکہ کی اتحادی افغان حکومت سمجھتی ہے کہ طالبان نے پنجابیوں کی مدد سے افغانستان کا امن تباہ کیا۔ وہ یہ نہیں تسلیم کرتیکہ طالبان نے خانہ جنگی کا خاتمہ کیا۔ انخلا کا عمل شروع ہونے سے چند ماہ قبل کی ایک ویڈیو ہے۔ افغان فوج نے چند طالبان عسکریت پسندوں کے گرد گھیرا ڈال رکھا ہے، افغان فوجی عسکری پسندوں کو پنجابی کہہ کر گالیاں دے رہا ہے۔ ایسے موقع پر لاہوریو لاہوریو کہنے والی مریم نواز سے سے پوچھا جانا چاہئے کہ نوازشریف ان افغان حلقوں کے قریب کیوں ہیں جن کے شعور کی گہرائی میں پنجابیوں اور پاکستانیوں کے خلاف نفرت بھری ہوئی ہے۔ اس نفرت سے متعلق مرحوم صدر ممنون حسین نے نوازشریف کو آگاہ کیا تھا لیکن جناب ممنون حسین کو کیا معلوم تھا کہ نا سمجھی اور اپنے ہم وطنوں سے سیاسی دشمنی میں میاں صاحب بہت دور نکل چکے ہیں۔
گزشتہ برس اپنے ایک کالم میں بتایا تھا کہ لندن میں نوازشریف مختلف ممالک کے سفارت خانوں، اہم شخصیات اور غیر ملکی ایجنسسیوں سے رابطہ کر رہے ہیں، سعودی عرب اور ترکی کے سفیروں نے عیادت کی آڑ میں ملاقات سے معذرت کرلی۔ شنید ہے کہ لندن کے نواح میں ناصر بٹ کو ایک کھلی رہائش گاہ لے کر دی گئی ہے۔ یہاں اسحاق ڈار، ان کے فرزند، میاں نوازشریف کے فرزند اور کچھ دیگر افراد جمع ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے ہاتھ اور تو کوئی نہ لگ سکا گزشتہ برس سابق افغان صدر حامد کرزئی لگ گئے۔ ایک مدت سے گمنامی میں پڑے کرزئی کو بھی میڈیا کی توجہ درکار تھی۔ یہ ملاقات لندن میں نوازشریف کے گھر پر ہوئی اور پاکستان میں اس کی خبریں نمایاں طور پر شائع کرائی گئیں۔ کچھ ہمخیال لوگوں کے ذریعے یہ تاثرپھیلایا گیا کہ نوازشریف عالمی شخصیات کے لیے اب بھی اہم ہیں اور پاکستان میں مقدمات اور سیاسی انتقام کے باوجود دنیا نوازشریف کی فراست سے فائدہ اٹھاتی ہے۔
نوازشریف کا بیانیہ غیر ملکی سرزمین پر اجنبی لوگ ترتیب دے رہے۔ اس بیانیے کا ہدف پاکستان کے مفادات ہیں، ایک بڑی جماعت جس کے حامیوں کی تعداد اب بھی لاکھوں میں ہے وہ اس بیانیے کی قید میں ہے۔ معاملات سنگین ہیں، یہ سیاست نہیں ریاست کے مفادات کے ساتھ کھلواڑ ہو رہا ہے۔ ہے کوئی قادر الکلام دانشور جو اس ملاقات کی تاویل اور منطق پیش کر سکے؟