انتخاب سر پر ہے، 104نشستوں والے سینٹ کے ریٹائر ہونے والے 52اراکین کی جگہ نئے سنٹرز منتخب کئے جائیں گے۔ قبائلی علاقے خیبر پختونخواہ میں مدغم ہونے کی وجہ سے ا س بار وہاں کی نشستیں ختم کر دی گئی ہیں اس لئے چار ریٹائر ہونے والوں کی جگہ نئے سینیٹرز منتخب نہیں کئے جا رہے، سینٹ کے اراکین بالواسطہ منتخب ہوتے ہیں۔ صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی کو الیکٹورل کالج کا درجہ حاصل ہے۔ یہ انتخاب متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ سینٹ کو قومی اسمبلی کی طرح آئینی طور پر تحلیل نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کے اراکین کا انتخاب چھ سال کے لئے ہوتا ہے۔ ہر تین سال بعد آدھے اراکین ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ یوں یہ ادارہ جمہوری تسلسل میں مدد دیتا ہے۔
سینٹ انتخابات سے قبل ہر بار اپوزیشن اور حکومت نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کرتی ہے۔ بعض لوگ اسے لین دین یا سودے بازی کہتے ہیں جس میں چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں کو بلیک میل کر کے اپنے عددی حجم سے زیادہ حمایت کا مطالبہ کر سکتی ہیں۔ موجودہ حکومت اور اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کو پارلیمنٹ کے ذریعے اپنے کئی مسائل حل کرانے ہیں۔ حکومت اٹھارویں ترمیم، انتخابی اصلاحات، جنوبی پنجاب صوبے اور احتساب کے معاملات پر نئی قانون سازی اور آئین میں ترامیم چاہتی ہے۔ مسلم لیگ ن اپنی قیادت کے خلاف مقدمات کا خاتمہ اور نیب کی کارروائیاں رکوانا چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے مطالبات بھی کم و بیش یہی ہیں لیکن وہ اقتدار میں حصہ داری کے باعث کئی رعایتوں سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ ڈاکٹر عاصم کو علاج کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت کئی ماہ پہلے مل چکی اب آصف علی زرداری بھی علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کو ہیں۔
ابتدائی جائزے بتاتے ہیں کہ اگر ووٹوں کی خریدو فروخت کا دھندہ نہ ہوا تو تحریک انصاف پہلی بار سینٹ میں واحد اکثریتی پارٹی بن کر سامنے آئے گی۔ تاہم اسے آئینی ترامیم کے لئے اپنے اتحادیوں اور اپوزیشن ووٹوں کی ضرورت رہے گی۔ اب کی بار خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ووٹنگ کا عمل شفاف ہونے کی صورت میں سینٹ میں حکومت اور اپوزیشن اراکین کی تعداد بالکل نصف نصف ہو جائے گی۔ اس سے معلق ایوان کا خدشہ پیدا ہو رہا ہے۔ ووٹنگ کے لئے اوپن بیلٹنگ ہو یا خفیہ ووٹ کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ توقع ہے کہ تحریک انصاف کے 21اراکین منتخب ہو جائیں گے۔ پیپلز پارٹی کے حصے میں چھ چھ نشستیں آئیں گی، اسی طرح بلوچستان عوامی پارٹی کی نشستیں بھی 6ہو جائیں گی، مسلم لیگ نواز کو پانچ نشستیں مل سکتی ہیں۔ یوں تحریک انصاف کی مجموعی نشستیں 28، پی پی کی19، مسلم لیگ ن کی 17اور بلوچستان عوامی پارٹی کی 13نشستیں ہو جائیں گی۔ تحریک انصاف پنجاب سے مسلم لیگ ق کو ایک نشست دینے پر آمادہ ہو چکی ہے جس پر کامل علی آغا امیدوار ہیں۔ سارے حساب کتاب اور جوڑ توڑ کے بعد اس بار سب سے زیادہ خسارہ مسلم لیگ ن کے حصے میں آ رہا ہے۔ سینٹ میں اس کی 59فیصد نمائندگی ختم ہو جائے گی۔
پیپلز پارٹی کی نائب صدر شیری رحمان کہتی ہیں کہ ان کی جماعت کو اوپن بیلٹ کا طریقہ قبول نہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ آخر حکومت کو ایسے وقت میں اوپن بیلٹ بل پیش کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی جب معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ میں موجود پارٹیوں کو ہارس ٹریڈنگ اور ووٹوں کی خریدوفروخت سے بچانا ہے۔ حکومت کا یہ کہنا بجا ہے کہ 2006ء میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے جب میثاق جمہوریت پر دسخط کئے تو ساتھ اقرار کیا کہ بالواسطہ ووٹ ہمیشہ اوپن بیلٹ کے ذریعے ڈالے جائیں گے۔
پچھلے سینٹ الیکشن میں پیپلز پارٹی نے کرشنا کماری کو منتخب کرا کر داد سمیٹی تھی۔ اس بار سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد سے میدان میں اتارا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ ن تو خیر ہمیشہ سرمایہ داروں اور اسی قبیل کے لوگوں کو سینٹ میں لاتی رہی ہے جن کے سینٹ میں ہونے نہ ہونے کا ریاست کو کم از کم کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ تحریک انصاف نے چن چن کر امیر زادوں کو اسمبلیوں کے ٹکٹ دیے۔ جنہیں مشیر اور معاون خصوصی بنایا وہ بھی دولت مندی کی اہلیت رکھتے ہیں۔ سنا ہے اس بار وزیر اعظم نے بعض نیک نام افراد کو ٹکٹ دینے کی بات کی۔ حتمی فہرست آنے پر اس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ پارٹی نے پرانے کارکنوں میں سے کتنوں کو یاد رکھا۔
جمعیت علمائے اسلام کو کے پی کے سے ایک ٹکٹ ملنے کا امکان ہے، ممکن ہے بلوچستان سے بھی ایک نشست مل جائے تاہم یقین ہے کہ مولانا فضل الرحمن میاں نواز شریف اور مریم نواز کو اپنی سیاسی افادیت کا احساس دلا کر اپنے حصے سے زیادہ کی کوشش ضرور کریں گے۔ ویسے بھی مولانا دھیمے دھیمے کہنے لگے ہیں کہ وہ نہ ہوں تو پی ڈی ایم کی کیا حیثیت۔ یہ بات غلط بھی نہیں۔
سینٹ انتخابات بھلے وقتوں میں قانون، مالیات، ثقافت، انتظامی تجربہ، تجارت اور مزدور حقوق سے آگاہ افراد کے لئے اختیار میں حصہ داری کا دروازہ کھولا کرتے تھے، اب بوریوں کے مونھ کھولے جاتے ہیں، نوٹوں سے مونھ بھرے جاتے ہیں، بالادست طبقات کی بالا دستی برقرار رکھی جاتی ہے اور عوام کے سامنے ایک جعلی لڑائی کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے جس کا اختتام صلاحیت اور ہنر سے عاری امیر زادوں کی کامیابی پر ہوتا ہے۔