ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس کا سب سے اہم اور بنیادی نکتہ یہ ہے کہ جس الزام میں انہیں دہشت گرد قرر دیا گیا اور جس الزام میں انہیں موسٹ وانٹڈ ٹیررسٹ قرار دیا گیا، مبینہ گرفتاری کے بعد جب مقدمہ چلا تو ان میں سے کسی الزام کا کہیں ذکر ہی نہیں تھا۔ ان کے خلاف دہشت گردی کا کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔ نہ ہی انہیں دہشت گردی کے الزام میں سزا ہوئی ہے۔ ان پر جو مقدمہ چلا اس کا تعلق بھی دہشت گردی سے نہیں ہے۔
یہ مقدمہ ایک ایسے وقوعے کی بنیاد پر چلایا گیا جو گرفتاری کے بعد ہوا اور اس کی صحت بھی مشکوک ہے۔ ان کی مبینہ گرفتاری سے پہلے ان پر لگائے گئے الزامات میں سے کوئی ایک بھی ثابت نہیں ہو سکا۔ اگر ایک خاتون کواتنا بڑا دہشت گرد قرار دیا گیا ہو تو اس کی گرفتاری کے بعد مقدمہ تو اس بات پر چلنا چاہیے جس بات پر وہ مطلوب تھیں۔ یہ کیا تماشا ہوا کہ ان پر مقدمہ ان کی مبینہ گرفتاری کے بعد ہونے والے ایک ایسے جرم پر چلا جو ثابت ہی نہیں ہو سکا اور صریح جھوٹ اور اختراع کے زمرے میں آتا ہے۔
ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ عافیہ صدیقی کو سزا کس بات پر ہوئی۔ انہیں سزا اس بات پر ہوئی کہ جب انہیں گرفتار کیا گیا تو دوران تفتیش انہوں نے امریکی اہلکاروں پر فائرنگ کی۔ یہ ساری کہانی بھی فارنزک اور واقعاتی شہادتوں سے جھوٹ ثابت ہوئی مگر اس کے باوجود انہیں سزا سنا دی گئی۔
یہاں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سزا گرفتاری کے بعد کے جرم پر کیوں؟ جس جرم، میں انہیں گرفتار کیا گیا اس جرم کا مقدمہ کیوں نہیں چلایا گیا؟ بتایا تو جائے کہ آخر وہ کون سے جرائم تھے جن کی بنیاد پر ان کے خلاف بین الاقوامی مہم چلائی گئی اور انہیں گرفتار کیا گیا، جو الزامات عافیہ صدیقی پر امریکہ ثابت نہیں کر سکا، ان الزامات کو ہمارے ہاں ملامتی خلط مبحث نے تازیانہ بنا رکھا ہے۔ مناسب ہوگا اس ملامتی خلط مبحث کا بھی جائزہ لے لیا جائے۔
1۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ تو ہوگا کہ عافیہ صدیقی کو امریکہ نے دہشت گرد قرار دیا اور پھرگرفتار کیا۔ یہ موقف شعوری خود سپردگی کی بد ترین شکل ہے۔ سوال یہ ہے کہ عافیہ صدیقی بیس سال سے قید میں ہیں، وہ جو کچھ بھی ہے اب تک سامنے کیوں نہیں لایا جا سکا، جس کی بنیاد پر عافیہ صدیقی کو دہشت گرد قرار دیا گیا؟ قانون کی دنیا ابہام اور شعوری خود سپردگی کی بنیاد پر نہیں کھڑی، دلیل کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ عایہ صدیقی اگر دہشت گرد تھیں تو کیا وجہ ہے ان پر دہشت گردی کے الزام کے تحت مقدمہ نہیں چلا۔ انہیں سزا بھی دہشت گردی کے الزام کے تحت نہیں ہوئی۔
2۔ ایک موقف یہ ہے کہ ان کا امریکہ میں قیام کے دران مذہب کی طرف رجحان تھا اور وہ مجاز کے اعتبار سے انتہا پسند ہوگئی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی قانون میں اس بنیاد پر 86 سال کی قید کی سزا دی جا سکتی ہے؟ نیز یہ کہ کیا مذہب کی جانب جھکاؤ جرم ہے؟ اس جھکاؤ کی بنیاد پر اگر ان سے کوئی جرم سر زد ہوا تو وہ جرم کیا ہے اورا س کی نوعیت کیا ہے؟ یہ کیوں نہیں بتایا جا سکا؟
3۔ ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ان کی خالد شیخ کے قریبی عزیز کے ساتھ شادی ہوئی جن کا تعلق القاعدہ سے تھا۔ یہ تو موقف ہے جس کی عافیہ صدیقی کی فیملی تردید کرتی ہے۔ تاہم اسے سچ بھی مان لیا جائے تو کیا محض شادی کی بنیاد پر کسی کو جرم تصور کیا جا سکتا ہے؟ اس شادی کے نتیجے میں جو جرم سرزد ہوا، اس کی تفصیل کیا ہے؟ اور اسے فرد جرم کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا؟ اس مبینہ شادی کا مبینہہ دورانیہ بھی چند ماہ روایت کیا جاتا ہے اور دل چسپ بات یہ ہے کہ جو اس شادی کے راوی ہیں، یعنی جن کا کہنا ہے یہ شادی ہوئی وہی بتاتے ہیں کہ اس شادی میں طلاق عافہ صدیقی کے لبرل طرز زندگی کی وجہ سے ہوئی؟ اب اگرا س شادی اور اس طلاق کی روایت کو درست مان لیا جائے تو عافیہ صدیقی کو لیڈی القاعدہ سمجھا جائے یا لبرل خاتون؟
4۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ نائن الیون کے حملے سے پہلے ہیروں کی سمگلنگ میں شامل تھیں اور اس سلسلے میں لائیبریا گئی تھیں۔ اس کا اعتراف نائن الیون کی تحقیقات کرنے والے اقوام متحدہ کے کمیشن نے بھی کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ درست تھا تو یہ چیز ان کے خلاف فرد جرم میں کیوں موجود نہیں اور اس جرم پر انہیں سزا کیوں نہیں سنائی گئی؟ ملامتی خلط مبحث کو شاید معلوم ہی نہیں کہ یہ الزام کب کا دم توڑ چکا، جب عافیہ صدیقی کے وکیل نے دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ یہ بات ثابت کر دی تھی کہ اس دورانیے میں عافیہ صدیقی بوسٹن میں موجود تھیں۔ لائیبیریا میں نہیں۔
5۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عافیہ صدیقی کے خلاف تو ان کے اپنے شوہر نے باتیں کی ہیں۔ سوال یہ ہے کیا محض سابق شوہر کی گواہی کی بنیاد پر کسی کو دہشت گرد کہا جا سکتا ہے؟ یہاں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ شوہر بھی تو ابتدائی سطح پر ایف بی آئی کو مطلوب تھا اسے کیوں گرفتار نہ کیا گیا؟ نیز یہ کہ اس کی گواہی کی بنیاد پر کچھ واقعاتی شہادتیں اکٹھی کرکے عافیہ صدیقی کے خلاف مقدمہ کیوں نہ قائم کیا گیا؟
6۔ ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ عافیہ صدیقی امریکی شہری ہیں اس لیے ہمارا اس مسئلے سے کوئی تعلق نہیں۔ اس ضمن میں امریکی دستاویزات سے رجوع کریں تو عافیہ کو کہی بھی امریکی شہری نہیں لکھا گیا۔ ایف بی آئی کی ویب سائٹ پر جب موسٹ وانٹڈ دہشت گردوں میں عافیہ کا نام لکھا گیا تو انہیں پاکستانی شہری قرار دیا گیا۔ چیف سائیکالوجسٹ رابرٹ گریگ کی رپورٹ میں انہیں پاکستانی قرار دیا گیا۔ امریکی اسسٹنٹ اٹارنی کرسٹوفر لیوائن کی جانب سے امریکی جج تھوڈور کو جو دستاویز جمع کرائی گئی اس کے پیراگراف 4 کے ذیلی حصے میں لکھا تھا کہ " عافیہ صدیقی پاکستانی شہری ہیں جو ماضی میں امریکہ میں رہ چکی ہیں"۔
تاہم اگر تھوڑی دیر کے لیے ہم فرض کر لیں کہ وہ امریکی شہری ہیں تو کیا اس صورت میں انہیں بین الاقوامی قوانین کے تحت حاصل حقوق ساقط ہو جاتے ہیں؟
عافیہ صدیقی کی گرفتاری سے لے کر انہیں سزا سنانے تک، تفتیش، فرد جرم اور مقدمے کی سماعت کا ہر مرحلہ نا معتبر ہے۔ قانون، دلیل اور انصاف کی دنیا میں اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ یہ سب کچھ وار آن ٹیرر کی اس خاص نفسیات میں ہوا جس کا عنوان وحشت کے سوا کچھ نہیں۔
یہاں آ کر پھرپروفیسر اوپن ہائم یاد آتے ہیں اور میر ے جیسا طالب علم سوچتا ہے کیا ہیومن رائٹس کی عملی شکل صرف یورپین کرسچئین رائٹس تک محدود ہے اور کیا باقی کی دنیا، بالخصوص مسلمان، آج بھی اس قابل نہیں کہ عملی طور پر انہیں حقوق انسانی کے ان تصورات تک رسائی دی جائے۔