Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Agar Main Kisi Ko Bhi Vote Na Dena Chahoon?

Agar Main Kisi Ko Bhi Vote Na Dena Chahoon?

کیا کبھی آپ میں سے کسی نے سوچا ہے کہ اگر بیلٹ پیپر پر چار امیدوار ہوں اور آپ ان میں سے کسی کو بھی ووٹ نہ دینا چاہیں تو اس صورت میں آپ کیا کریں گے؟ کیا اس پارلیمان، اس کے بنائے الیکشن ایکٹ، الیکشن کمیشن اور ملک کے آئین و قانون نے آپ کے لیے اس صورت میں اظہار رائے کا کوئی مہذب اور قابل عمل راستہ چھوڑا ہے یا آپ کو ایک قانونی واردات کے ذریعے بے بس کر دیا گیا ہے کہ ان میں سے ہی کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے توکر لیجیے ورنہ گھر بیٹھے رہیے، نہ آپ کی رائے کی کوئی ضرورت ہے نہ آپ اور آپ کے ووٹ کی کوئی حیثیت ہے؟

اگر الیکشن کا مطلب ووٹر کی مرضی سے حکومت کا انتخاب ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ ووٹر کی مرضی کو محدود تر کر دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کو یا پارلیمان کو کس اصول کے تحت دیا جا سکتا ہے۔ اگر مرضی عوام کی ہے تو پھر بیلٹ پیپر میں عوام کو یہ حق کیوں نہیں دیا جاتا کہ وہ سب کو رد کر دے کہ ان میں سے کوئی امیدوار بھی اسے پسند نہیں ہے۔

کیا الیکشن کمیشن بتانا پسند کرے گا کہ جو لوگ جو تمام دستیاب امیدواران سے بے زار ہیں، اپنی رائے کے اظہار کے لیے کون سا طریقہ اختیار کریں؟ یہ اگرایک قومی فریضہ ہے تو اس صورت میں کیسے ادا کیا جائے؟

بیلٹ پیپر میں عوام کو سب کو رد کرنے کا حق نہ دینے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اکثریت انتخابی عمل سے لا تعلق ہو جاتی ہے، وہ ووٹ دینے ہی نہیں آتی۔ ٹرن آؤٹ محض 20,25 یا 30 فی صد تک رہتا ہے۔ اب اس 30 فیصد ٹرن آؤٹ میں جس امیدوار کو زیادہ ووٹ ملتے ہیں وہ حلقے کا منتخب نمائندہ بن جاتا ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ اس ناقص اور محدود تر مینڈیٹ کا حامل شخص حلقے کا نمائندہ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ اسے تو شاید حلقے کے رجسٹرڈ ووٹوں کا 15 فیصد بھی نہ ملا ہو۔

پارلیمان اور الیکشن کمیشن نے ایک سادہ سا اصول بنا رکھا ہے کہ جسے زیادہ ووٹ مل گئے، وہ الیکشن جیت جائے گا۔ لیکن غور طلب معاملہ یہ ہے کہ اگر بائیکاٹ کرنے والوں اور الیکشن سے لا تعلق رہنے والوں کی تعداد زیادہ ہو جائے تو اس صورت میں الیکشن کا کیا اعتبار؟

الیکشن ایکٹ میں ٹرن آؤٹ کی کم از کم شرح کا کوئی تعین نہیں کیا گیا۔ ایک لاکھ کے حلقے میں اگر ایک امیدوار کو پندرہ ووٹ ملیں اور دوسرے کو سولہ توسولہ ووٹوں والا اس حلقے کا نمائندہ بنا لیا جاتا ہے۔

اس ساری الجھن کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ بیلٹ پیپر پر امیدواران کے نام اور انتخابی نشان کے بعد ایک اورخانے کا اضافہ کیا جائے اور اس میں لکھا ہو: NOTA یعنی none ofthe above جو ووٹر بیلٹ پیپر پر موجود کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہ دینا چاہے، وہ NOTA پر مہر لگا کر تمام امیدواران کو مسترد کر دے اور اگر جیتنے والے امیدوار سے زیادہ ووٹ NOTA کے آپشن کو ملیں تو تمام امیدواران کو شکست خوردہ قرار دے دیا جائے کیوں کہ اس حلقے کے اجتماعی ضمیر نے ان تمام امیدواران کو رد کر دیا ہے۔

اس کے بعد دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ اس نشست پر ضمنی انتخاب کروایا جائے اور اس میں ان تمام امیدواران کے حصہ لینے پر پابندی ہو جنہیں حلقے کے عوام نے پہلے مرحلے میں رد کر دیا تھا۔ دوسری شکل یہ ہے کہ اس حلقے کو اگلے عام انتخابات تک خالی رہنے دیا جائے۔

بہت سارے آپشنز موجود ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلا یہ کہ انتخاب میں اگر NOTA کے ووٹ سب سے زیادہ ہوں تو اس حلقے میں انتخاب کالعدم قرار دیا جائے اور تمام امیدواروں کو ایک خاص مدت کے لیے نا اہل قرار دیا جائے۔

یا پھر اگر NOTA کے ووٹ دوسرے یا تیسرے نمبر پر ہیں تو جیتنے والے امیدوار کو کامیاب قرار دیتے ہوئے ان تمام امیدواران کو ایک خاص مدت کے لیے نا اہل قرار دیا جائے، جن کے ووٹ NOTA سے کم ہوں۔ انتخاب کالعدم ہونے کی صورت میں اس حلقے سے ضمنی انتخاب کروایا جائے اور پہلے مرحلے میں حصہ لینے والے امیدواران کو اس میں حصہ لینے کی اجازت نہ ہو۔ ضمنی انتخاب میں بھی NOTA جیت جائے تو نشست خالی رکھی جائے اور دوسری بار ضمنی انتخابات نہ کرائے جائیں۔ نشست خالی رکھنا حلقے کے عوام کے لیے مناسب نہیں اس لیے ضمنی انتخابات میں NOTA کو شامل نہ کیا جائے۔ ضمنی انتخابات میں بھی NOTAجیت جائے تو شکست خوردہ امیدواران اور ان کی سیاسی جماعتوں کو ایک معقول رقم کا جرمانہ کیا جائے اور جرمانے کی یہ رقم انتخابی اخراجات کے طور پر الیکشن کمیشن کو ادا کی جائے۔ اگر NOTA کو ملنے والے ووٹ سب سے زیادہ نہ ہوں مگر جیتنے والے امیدوار اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار میں جتنے ووٹوں کا فرق آ رہا ہو، یہ اس سے زیادہ ہوں تب بھی الیکشن کالعدم قرار دے دیا جائے البتہ NOTA سے زیادہ ووٹ لینے والوں کو نااہل نہ کیا جائے۔

ایک اور آپشن بھی بیلٹ پیپر میں موجود ہونا چاہیے اور وہ یہ کہ NOTA کے خانے کے نیچے ایک خالی خانہ ہو اور ووٹر کو اس بات کی اجازت ہو کہ اگر وہ بیلٹ پیپر پر موجود تمام امیدواران کو رد کر دے تو وہ خالی خانے میں کسی بھی ایسی شخصیت کا نام لکھ دے جو خود تو بطور امیدوار سامنے نہیں آئی لیکن ووٹر یہ سمجھتا ہے کہ اس کے حلقے کی نمائندگی کے لیے موزوں ترین شخصیت وہی ہے۔

یہ سارے آپشن اپنی ساری معنویت کے ساتھ بھی فراہم کیے جا سکتے ہیں اور یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ انہیں پہلے مرحلے میں علامتی طور پر متعارف کرایا جائے تو اس عمل کے بہت سے فوائد ہوں گے۔ ٹرن آؤٹ بڑھے گا اور عوام کی انتخابی عمل سے عمومی لا تعلقی ختم ہوگی۔ سیاسی جماعتوں پر دباؤ بڑھے گا اور وہ نسبتا بہتر امیدوار لانے کی شعوری کوشش کریں گی۔ عوامی رائے کی معنویت میں اضافہ ہوگا اور ووٹر کی حیثیت ایک بے بس عامل کی نہیں رہے گی بلکہ لوگ خود کو حقیقی معنوں میں با اختیار سمجھیں گے۔

بیلٹ پیپر میں NOTA کا آپشن نیا، انوکھا یا ناقابل عمل نہیں۔ یہ بنگلہ دیش اور بھارت سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف عنوانات کے ساتھ کامیابی سے چل رہا ہے۔ اس وقت فرانس، بلجیم، بنگلہ دیش، یوکرین، انڈونیشیا، برازیل سمیت مختلف ممالک میں مختلف عنوانات کے تحت مختلف دائرہ ہائے کار میں اپنے انتخابی نظام اور بیلٹ پیپر کے ڈیزائن کے تنوع کے ساتھ، کسی نہ کسی شکل میں یہ آپشن موجود ہے۔

اگر یہ آپشن ان تمام ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں نافذ العمل ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں؟ افسوس اس بات کا ہے کہ ابھی تک الیکشن سے متصل ساری بحث سیاسی اشرافیہ کے مفادات کے گرد گھوم رہی ہے۔ الیکشن کی جو چیزیں عوام سے متعلق ہیں وہ نہ عوامی سطح پر زیر بحث ہیں نہ عدالت میں۔ یعنی ہم بطور قوم اونٹ نگل رہے ہیں اور مچھر چھان رہے ہیں۔