Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Haseena Wajid, Apne Baap Ke Naqsh e Qadam Par

Haseena Wajid, Apne Baap Ke Naqsh e Qadam Par

حسینہ واجد اپنے باپ شیخ مجیب کے نقش قدم پر چل رہی ہیں۔ یہ تومعلوم نہیں کہ انجام بھی یکساں ہوگا یا مختلف، تاہم مطالعہ پاکستان کے ناقدین نومولود مورخین کرام اگر اپنی نفسیاتی گرہیں کھول سکیں تو مطالعہ بنگلہ دیش، انہیں دعوت فکر دے رہا ہے۔

جن کا خیال ہے کہ عوامی لیگ اور شیخ مجیب جمہوری قدروں اور ووٹ کو عزت دیتے دیتے ہم سے ناراض ہو گئے اور مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا لیا، ان مورخین کرام کو عوامی لیگ کی جمہوری تاریخ کا مطالعہ کر لینا چاہیے۔

کسی کو یہ غلط فہمی ہے کہ مغربی پاکستان میں تو انسانی شعور ابھی پست تھا اور مشرقی پاکستان عوامی لیگ کی قیادت میں جمہوری شعورکی منازل طے کرتے کرتے اس مقام تک پہنچ گیا کہ باشعور بھائیوں نے ہم جیسے بے شعور بھائیوں کے ساتھ نہ رہنے کا فیصلہ کیا تو یہ مطالعہ اس غلط فہمی کو ختم کرنے میں بھی ممدوو معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

یک طرفہ، لایعنی اور نا معتبر انتخابات کے نتیجے میں حسینہ واجد پانچویں بار اقتدار سنبھالنے جا رہی ہیں۔ عوامی لیگ 222 نشستیں جیت چکی ہے۔ حزب اختلاف کے حصے میں صرف 11 سیٹیں آئی ہیں جب کہ 63 نشستیں ایسے آزاد امیدوار جیت چکے ہیں جن کی غالب اکثریت کا تعلق حسینہ واجد کی عوامی لیگ سے ہے اور انہیں آزاد اس لیے جتوایا گیا ہے کہ انتخابی واردات کا کچھ بھرم دنیا کے سامنے رکھا جا سکے۔ حسینہ واجد کی یہ فاشسٹ طرز سیاست نہ نئی ہے نہ حیران کن۔ یہ وہی راستہ ہے جس کا انتخاب شیخ مجیب صاحب نے کیا تھا۔ وہ اپنی بنگلہ دیش ہی کی فوج کے ہاتھوں بغاوت میں قتل نہ کر دیے گئے ہوتے تو انہوں نے بھی وہی کرنا تھا جو حسینہ واجد کر رہی ہیں۔

شیخ مجیب اپنے مزاج اور افتاد طبع میں کبھی جمہوری نہیں تھے۔ وہ ایک فاشسٹ تھے۔ ان کی بیٹی بھی مزاج کے اعتبار سے جمہوری نہیں ہیں، وہ بھی جمہوری فاشزم کی طرف مائل ہیں۔ شیخ مجیب نے بنگلہ دیش کا اقتدار سنبھالا تو نہ صرف مکتی باہنی کو اس سارے قتل عام اور آبرو ریزی پر عام معافی دے دی جو اس نے غیر بنگالیوں کا کیا تھا لیکن اس کے دہشت گرد غنڈہ عناصر کی سرپرستی شروع کر دی۔ اب مکتی باہنی کے مجرموں کے ذریعے شیخ مجیب نے اپنے دائمی اقتدار کی راہ ہموار کرنا شروع کر دی۔

نتیجہ یہ نکلا کہ مکتی باہنی کے جرائم پیشہ غنڈہ عناصرحکومتی مناصب پر قابض ہو گئے۔ نہ کسی کی جان محفوظ رہی نہ مال اور حتی کہ نہ ہی کسی کی عزت محفوظ رہی۔ دور حکومت تاریخ انسانی کے بدترین اور فاشسٹ دور حکومت میں سے ایک تھا۔

شیخ مجیب بظاہر جمہوری قدروں کے علمبردار تھے لیکن وہ ایک بدترین فاشسٹ حکمران ثابت ہوئے۔ چنانچہ 25 جنوری 1975کو انہوں نے دوسرا انقلاب، برپا کر دیا۔ تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی۔ میڈیا پر پابندی لگا دی گئی۔ شیخ مجیب نے پارلیمان میں کھڑے ہو کر کہا تعلیم یافتہ بنگالی سب سے زیادہ بے ایمان ہیں۔ اس لیے میں دوسرا انقلاب لا رہا ہوں۔

بنگلہ دیش کرشک سرامک عوامی لیگ کے نام سے ایک کونسل بنادی گئی کہ اب ملک چلانے کے فیصلے یہ کیا کرے گی۔ یہ فاشزم بھی ان کے قتل کی ایک وجہ قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اسدوسرے انقلاب، سے، جس کے فکری خالق ان کے اپنے بھتیجے شیخ فضل حق مانی تھے، صرف چھ ماہ بعد وہ اہل خانہ سمیت قتل کر دیے گئے۔ ان کے سارے خاندان کے قتل کی ایک وجہ یہ سوچ بھی تھی کہ وہ ایک خاندانی بادشاہت کی طرف بڑھ رہے تھے۔

پاکستان سے الگ ہونے کا جواز تو جمہوریت دوستی، بتائی گئی لیکن شیخ مجیب نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے ہی ملک میں قومی فوج ہونے کے باوجود ایک ذاتی فوج کھڑی کر دی۔ جتیا رکھی باہنی نام کی اس نئی فوج کی وفاداری کا مرکز صرف بنگ بندھو کی ذات تھی۔ اس کے حلف نامے میں ریاست یا آئین کی بجائے شیخ مجیب کی ذات سے وفاداری تھی۔ اس کا بجٹ اتنا زیادہ تھا کہ اس کے اخراجات پورے کرنے کے لیے روایتی فوج کے بجٹ میں چالیس فیصد کمی کر دی گئی۔

شیخ مجیب کے قاتلوں میں سے تین ایسے تھے جو بنگلہ دیش میں ہیرو کا درجہ رکھتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیوں قاتل بنے؟ ڈھاکہ عوامی لیگ کے صدر اور شیخ مجیب کے دست راست شیخ غلام مصطفی نے بنگالی میجر کی بیوی اور بیٹی کو اغوا کر لیا تھا۔ اور جب اس پر بنگلہ دیش کے فوجی دستے غصے میں ان کی تلاش کے لیے شہر بھر میں پھیل گئے تو شیخ مجیب نے انڈر ورلڈ کے ڈان کی طرح اپنے گھر پر صلح کروا دی۔ شیخ غلام مصطفی کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی البتہ افسران کو نوکری سے نکال دیا گیا۔ اتفاق دیکھیے کہ اسی رجمنٹ کے افسران بعد میں شیخ مجیب کے قتل میں شامل تھے۔ عوامی لیگ کے ایک غنڈے اور مقامی صدر مزمل نے ایک بارات میں سے دلہا اور دلہن کی کار کو قبضے میں لے لیا۔ دلہا وہیں قتل کر دیا گیا۔ دلہن کی عزت لوٹ کر دو روز بعد اس کی لاش پھینک دی گئی۔ فوج نے مزمل کو گرفتار کر لیا۔ شیخ مجیب نے حکم دیا اسے رہا کر دیا جائے۔ روایت ہے کہ میجر فاروق اسی واقعے کے رد عمل میں شیخ مجیب کے قاتلوں کے ساتھ شامل ہوا۔ یہی وہ سفاک طرز حکومت تھا کہ شیخ مجیب کے قتل کے اگلے روز شائع ہونے والے بنگلہ دیش آبزرور کے اداریے کا آغاز اس فقرے سے ہوا کہ:

The killing of Sheikh Mujib was a historic necessity.

شیخ حسینہ واجد بھی وہی کر رہی ہیں جو ان کے باپ نے کیا۔ سیاسی مخالفین پر زندگی تنگ کر دی گئی ہے۔ جماعت اسلامی کے بزرگ رہنمائوں کو شرمناک ٹرائل کرکے پھانسیاں دی جا رہی ہیں۔ ڈیجیٹل سکیورٹی ایکٹ جیسے قوانین کے ذریعے آزادی رائے کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے سات ہزار لوگ جیلوں میں پڑے ہیں۔ پچیس ہزار لوگوں پر مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔ بیٹی باپ کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔

حسینہ واجد قانون اخلاقیات اور جمہوری قدروں کو پامال کرتے ہوئے پانچویں بار وزیر اعظم بننے جا رہی ہیں اورمیرے جیسا طالب علم بیٹھا سوچ رہا ہے کہ عوامی لیگ کے میرے بنگالی بھائیوں کی وہ جمہوریت پسندی کہاں گئی، نومولود مورخ ہمیں صبح شام جس کے قصے سنا تے ہیں اور بتاتے ہیں کہ عوامی لیگ کے ہمارے بنگالی بھائی مزاج میں بہت جمہوریت پسند تھے اس لیے ہم سے الگ ہو گئے۔

ایک فیڈریشن کے اندر اکائیوں میں مسائل ہوتے رہتے ہیں لیکن عوامی لیگ کا مسئلہ کل بھی شخصی اور گروہی فاشزم تھا اور آج بھی اس کا یہی مسئلہ ہے۔ جمہوریت اور جمہوری اقدار سے نہ باپ کو کوئی واسطہ تھانہ ان اصطلاحات سے بیٹی کا کوئی تعلق۔

مطالعہ پاکستان کے ناقدین، نومولود مورخین کرام اگران حقائق سے اغماض برت لیں تو یہ ان کی میانہ روی ہے لیکن اگر وہ چاہیں تو تھوڑا سا مطالعہ بنگلہ دیش کرکے قلب کو گرما اور روح کو تڑپا سکتے ہیں۔