Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Intikhabat, Aik Layani Mashq?

Intikhabat, Aik Layani Mashq?

پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل، سیاست کے اخلاقی وجود سے مشروط ہے۔ اگر سیاسی عمل اپنے اخلاقی وجود سے بے نیاز ہو جائے تو کوئی آئینی موشگافی جمہوریت کا تحفظ نہیں کر سکتی۔ جمہوری عمل کے ارتقاء کے لیے لازم ہے کہ اس سارے عمل کو با معنی بنایا جائے۔ یہ کام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک انتخابی قوانین میں تبدیلیاں کر تے ہوئے انتخابی عمل کی معنویت میں اضافہ نہ کر دیا جائے۔

قوانین کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ قانون کو قابل عمل ہونا چاہیے۔ اگر ایک قانون قابل عمل نہیں تو اس میں جتنے بھی شاندار اور شاہکار اقوال زریں لکھ دیے جائیں ان کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ یہ مجموعہ تضادات بن جاتے ہیں، پامال ہوتے ہیں اور یہ پامالی بھی نظر انداز کر دی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قانون کی حکمرانی کا تصور باطل ہو جاتا ہے۔ جہاں یہ حادثہ ہو جائے وہاں قانون پر عمل کے نام پر سب ایک دوسرے کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں کیونکہ سب کو علم ہوتا ہے قانون نا قابل عمل ہے اوراس کا اطلاق ممکن نہیں۔ یہ رویہ کسی بھی سماج کو ادھیڑ کر رکھ دینے کے لیے کافی ہے۔

قانون کو قطعی ہونا چاہیے تاکہ اس میں کوئی ابہام نہ ہو قانون کو ادھورا بھی نہیں ہونا چاہیے۔ جن معاملات کی صورت گری کے لیے قانون لایا جائے، اس کی افادیت تب ہی ہو سکتی ہے جب وہ ممکن حد تک ان تمام معاملات کااحاطہ کرتا ہو۔

قانون کو عام فہم بھی ہونا چاہیے۔ جن لوگوں سے قانون کی پابندی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، قانون ان کی سمجھ میں بھی آتا ہواور وہ اس قانون کے فہم کے لیے کسی خاص طبقے کے محتاج نہ ہوں۔ رومی سلطنت میں قانون لاطینی زبان میں تھا۔ کلیسا کے علاوہ کسی کو معلوم نہ تھا اس میں کیا لکھا ہے۔ قدیم ہندوستان میں قانون سنسکرت میں تھا اور اس کے فہم پر پنڈتوں اور شاستروں کی اجارہ داری تھی۔ ایسے عالم میں ایک عام آدمی سے قانون پر عمل کرنے کا مطالبہ غیر فطری ہے۔

پاکستان کا انتخابی قوانین ان تمام مسائل کا دیوان ہے، جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ یہ ناقص ہے، ادھورا ہے، نا معتبر ہے، ناقا بل عمل ہے اور اجنبی بھی۔ جس سماج کے ووٹر کے بارے قانون کا گمان یہ ہے کہ اس میں ابھی یہ صلاحیت ہی نہیں کہ یہ بیلٹ پیپر پر امیدوار کا نام دیکھ کر ووٹ ڈال سکے اس لیے اس کی آسانی کے انتخابی نشان ہونا چاہیے اور جس ووٹر کے بارے میں سیاسی جماعتوں کا خیال یہ ہو کہ اگر بیلٹ پیپر پر گائے، بلی، ریچھ اورہرن کی تصویر کا انتخابی نشان ہو تو کہیں ووٹر اسے شیر نہ سمجھ لیں اور ان کا ووٹ ضائع نہ ہو جائے، اس سماج کو انتخابی قوانین انگریزی میں لکھ کر دیے گئے ہیں اور ساتھ ہی کامن لاء کا یہ اصول بھی کارفرما ہے کہ ' قانون سے نا واقفیت کوئی عذر نہیں '۔

غلطی ہائے مضامین دیکھیے کہ اراکین پارلیمان کو اپنے لیے تواہلیت کے باب میں 'بی اے' کی شرط بھی گوارا نہیں اور عوام کے لیے انتخابی قانون بھی اجنبی اور غیر ملکی زبان میں لکھ رکھا ہے۔ فہم سے شرح تک، اس قانون سے عام آدمی لا تعلق ہے۔

الیکشن رُولز 2017 کے ضابطہ نمبر 25 اور 68 میں اس بابت اگرچہ جزوی اہتمام موجود ہے لیکن یہ ناکافی ہے۔ ضابطہ 25 میں کہا گیا کہ انتخابی فہرستیں اردو میں تیار ہوں گی اور ضابطہ 68 میں پوسٹل بیلٹ کے حوالے سے ان پڑھ ووٹرز کے لیے اہتمام کیا گیا ہے۔ حیران کن بات ہے کہ ایسا کوئی اہتمام قانون کے بارے نہیں کیا گیا۔

کیا ووٹر کا یہ بھی حق نہیں کہ اسے انتخابی قوانین بھی اس کی زبان میں دیے جائیں تا کہ وہ انہیں پڑھ اور سمجھ سکے، وہ جان سکے کہ کہ بطور ووٹر اس کے اختیارات اور ذمہ داریاں کیا ہیں اور جو سیاسی جماعتیں یا امیدوار اس سے ووٹ مانگ رہے ہیں ان کی ذمہ داریوں کا دائرہ کار کیا ہے؟ ہمارا قانونی بندوبست ایک طرف اپنے ووٹر کی محدودیت کو تسلیم کر رہا ہے اور دوسری جانب وہ اس سے بے نیازی برت رہا ہے۔ یہ قانون سازی کے باب میں ایک مجرمانہ غفلت ہے۔

شاید کہیں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ قانونی معاملات سے عام آدمی کی آگہی کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کا معاملہ صرف اتنا سا ہے کہ انتخابی فہرستیں پڑھ لے، اپنا نام تلاش کر لے اور جا کر انتخابی نشان پر مہر لگا دے۔ اسے قانونی امور کو سمجھنے کی ضرورت نہیں۔ سمجھ لے گا تو سوال اٹھائے اور سوال اٹھائے گا تو درد سر بنے گا۔

یہ وہی فکر ہے جو نو آبادیاتی دور کے احساس کمتری کا منطقی نتیجہ ہے۔ اس کا آزار صرف انتخابی قوانین میں نہیں، عام قوانین میں بھی تکلیف دہ حد تک نمایاں ہے اور جس کا تفصیلی ذکر میں نے اپنی کتاب " پس قانون: پاکستانی قانون پر برطانوی نو آبادیاتی اثرات" میں کر دیا ہے۔

انتخابی قوانین تو پھر بعد کی بات ہے، یہاں تو آج تک آئین کے بنیادی انسانی حقوق کو نصاب کاحصہ نہیں بنایا گیا۔ آئین جیسی دستاویز بھی اجنبی اور غیر ملکی زبان میں ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ عوام اور آئین میں کوئی قلبی تعلق استوار نہیں ہو سکا اور آئین پامال ہو جائے تو عوام کے لیے یہ کوئی ایسا سانحہ نہیں ہوتا کہ اس پر احتجاج کیا جائے۔ انتخابی قانون کی جیورسپروڈنس بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ کیا یہ سیاسی اشرافیہ نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بنایا ہے یا اس میں نیت کی بجائے اہلیت کا بحران جھلک رہا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ہر دو صورتوں میں یہ ایک سنگین اور توجہ طلب معاملہ ہے۔

فلسفہ قانون کی پیچیدگیوں سے قطع نظر، عام آدمی (انتخابی نشانات کا اصول یاد رہے) یہ سمجھتا ہے کہ انتخابی معاملات میں جہاں کوئی تنازعہ پیدا ہوتا ہے، یہ قانون اس پر واضح رہنمائی کرنے سے قاصر ہے۔ معاملات سلجھانے کے لیے قانون کی طرف جاتے ہیں تو معاملات مزید الجھ جاتے ہیں۔ آین و قانون کی شرح ہوتی ہے تو اس کا دائرہ کار اتنا وسیع ہو جاتا ہے کہ خود اہل سیاست شکوہ کرتے ہیں یہ آئین کی شرح نہیں ہوئی بلکہ آئین سازی ہوگئی ہے۔ غلطی ہائے مضامین کے اس کھیل میں بنیادی سوال یہی ہے کہ اہل سیاست قانون سازی کے عمل پر توجہ کیوں نہیں دیتے؟

انتخابی عمل جب تک ایک مکمل، قابل عمل، واضح اور قابل فہم قانون کے تابع نہیں ہوگا، اس میں سے کسی خیر کی توقع کم ہی ہے۔ ایسی ہر مشق نئے بحران اور نئی قباحتوں کو جنم دے گی اور اس کے نتیجے میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگا، سیاست کا اخلاقی وجود کمزور ہوگا اور عوام اس عمل سے بے زار اور دور ہوتے چلے جائیں گے۔ با معنی انتخابات کے لیے شفاف، قابل عمل، عام فہم، واضح اورمعروضی قوانین ضروری ہیں۔ گر یہ نہیں تو بابا باقی کہانیاں ہیں۔