اسحاق ڈار صاحب کے نگران وزیر اعظم بنائے جانے کی افواہیں گردش میں ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ یہ افواہیں حقیقت کا روپ دھارتی ہیں یا نہیں، سوال یہ ہے کہ ایک ایسے شخص کے نام پر غور بھی کیسے ہو سکتا ہے جو ایک سیاسی جماعت کا باقاعدہ عہدیدار ہو اور اس کی حکومت میں وزیر خزانہ کے منصب پر فائز ہو؟
اس سوال کا جواب ہمارے انتخابی قوانین میں ہے۔ یہ فضول، فرسودہ، ادھورے، ناقص اور نا معتبر ہیں۔ ان کے بارے میں، تفصیل کے ساتھ میں اپنی کتاب ناقص انتخابی قوانین: سیاسی عدم استحکام کی اساس، میں لکھ چکا ہوں۔ اس وقت چونکہ نگران حکومت زیر بحث ہے تو اس کالم میں ہم نگران حکومتوں کے بارے میں موجود قوانین کا جائزہ لیتے ہیں۔
نگران حکومت کے نام پر۔ عارضی ہی سہی، ایک پورا حکومتی بندو بست قائم کیا جاتا ہے۔ لیکن اس بندوبست کے بارے میں تفصیلی قانون سازی آج تک نہیں ہو سکی۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 اور آئین کے آرٹیکل 224میں کچھ بنیادیں باتیں لکھ دی گئی ہیں لیکن وہ ناکافی اور مبہم ہیں، ناقص اور ادھوری ہیں۔
ایک شخص رکن پارلیمان بننا چاہے تو اس کے لیے نا قابل فہم قسم کی شرائط کا انبار لگا ہے۔ وہ سچا ہو، پارسا ہو، دیانت دار ہو، امانت دار ہو، دین کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن نگران وزیر اعظم کے لیے کوئی اہلیت کی شرط نہیں ہے۔ اس کی کابینہ کے لیے اہلیت کا کوئی اصول طے نہیں کیا۔ ونڈ کھائو، کھنڈ کھائو، کے سنہری اصول کے تحت اس مال غنیمت کی تقسیم صرف ایک سادہ سے فارمولے پر کھڑی ہے۔
نگران وزیر اعظم کا فارمولا یہ ہوتا ہے کہ جس شخص کے نام پر وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف متفق ہوجائیں، وہ نگران وزیر اعظم بنا دیا جائے گا۔ یہ دو لوگوں کی صوابدید ہے۔ ان کی صوابدید کو جانچنے پرکھنے کا نہ کوئی قانون موجود ہے نہ کوئی اصول۔ ان میں اتفاق نہ ہو تومعاملہ کمیٹی کو جائے گا اور وہاں بھی اہلیت کا کوئی قانون نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک چوکیدار تک بھرتی کرنا ہو تو اس کی اہلیت کا کوئی اصول قاعدہ ہوتاہے۔ کیا وجہ ہے کہ نگران وزیر اعظم کے لییے اہلیت کا کوئی اصول وضع نہیں کیا جا سکا؟
یہی معاملہ نگران کابینہ کا ہے۔ نگران وزیر اعظم اور نگران زرائے اعلی جب اپنی کابینہ بنانے لگتے ہیں تو کیا کوئی اصول یا قانون ہے جس کی بنیاد پر یہ کابینہ بنائی جاتی ہے یا یہ ایک بند بانٹ ہے جو کسی اصول کی محتاج نہیں ہوتی؟
قانون صرف یہ بتاتا ہے کہ نگران کابینہ کا انتخاب نگران وزیر اعظم اور نگران وزرائے اعلی کی ایڈوائس پر ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ اہلیت کا پیمانہ کیا ہوگا؟ ایڈوائس جاری کرنے کے رہنما اصول کیا ہوں گے؟ کیا ایک جمہوری معاشرے میں اس سے فضول بندو بست بھی ہو سکتا ہے کہ فرد واحد کی ایڈوائس پر پوری کی پوری کابینہ کے فیصلے ہونے لگیں؟ نیز یہ کہ واقعی یہ وزیر اعظم اور وزرائے اعلٰی کی ایڈوائس ہوتی ہے یا پس چلمن کچھ اور ہوتا ہے؟ کیا ایک جمہوری معاشرہ اس طرز کے صوابدیدی اختیارات کا متحمل ہو سکتا ہے؟
دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس کے اختیارات کا دائرہ کار کیا ہے؟ َ وہ کون سے کام کر سکتی ہے اور کون سے کام نہیں کر سکتی؟ اس کی مراعات کیا ہوں گی؟ حیران کن بات یہ ہے کہ ان سوالات کا تفصیلی جواب نہ آئین میں موجود ہے نہ ہی الیکشن ایکٹ میں۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 میں کچھ وضاحت ہے لیکن ناکافی ہے۔ نگران حکومت کا مینڈیٹ دو جمع دو چار کی طرح تحریری طور پر موجود ہونا چاہیے۔
اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ نگران حکومتیں کس کو جواب دہ ہوتی ہیں؟ نگران حکومت کی کوئی حزب اختلاف نہیں ہوتی اور اسے کسی صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے وزراء کسی ایوان کو جواب دہ نہیں ہوتے۔ ان سے کسی فورم پر سوال نہیں ہوتا۔
تو کیا یہ نگران حکومتیں جنگل کی بادشاہ ہوتی ہیں؟ نہ ا ہلیت کا کوئی معیار، نہ اختیارات کا کوئی واضح تعین، نہ جواب دہی کا کوئی باقاعدہ نظام۔ یہ جدید طرز حکومت یا ہزاروں سال پرانا بادشاہی نظام۔ نگران حکومتوں کے دورانیے میں، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں تو موجود نہیں ہوتیں لیکن سینیٹ جیسا ادارہ تو موجود ہوتا ہے، سوال یہ ہے اس دورانیے میں، سینیٹ کا کوئی کردار نہیں ہو سکتا؟
نگران حکومت کے قیام کا واحد بنیادی مقصد انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت ہے۔ سوال یہ ہے اس کے لیے غیر منتخب لوگوں کو حکومت سونپنے کی کیا ضرورت ہے؟ حکومت سرکاری محکموں اور وزارتوں کی صورت چلتی ہے، کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ انتخابات کے لیے نگران حکومت بنانے کی بجائے حکومتی مشینری کو الیکشن کمیشن ہی کے ماتحت کر دیا جائے؟ جب آئین کے آرٹیکل 220 میں تمام اتھارٹیز کو چاہے وہ وفاقی ہوں یا صوبائی یہ حکم دے رکھا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے کی مدد کریں گے تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے جس کے لیے غیر منتخب حکومت مسلط کی جائے؟
معمول کے کام چلانا بلا شبہ ضروری ہیں تا کہ ریاستی امور معطل نہ ہو جائیں لیکن اس کی متعدد شکلیں اور بھی ہو سکتی ہیں اور اس کے لیے غیر منتخب لوگوں کی حکومت بنانا ضروری نہیں۔
سینیٹ کی شکل میں جو واحد منتخب ادارہ اس دورانیے میں موجود ہوتا ہے، اسے عضو معطل کیوں بنا دیا گیا ہے۔ کم از کم اتنا تو ہو سکتا ہے کہ غیر منتخب نگران حکومت کو سینٹ کے سامنے جواب دہ قرار دیا۔
انتخابات دنیا بھر میں ہوتے ہیں لیکن نگران حکومتوں کے نام پر غیر منتخب لوگوں کو اقتدار میں لا بٹھانے کی یہ رسم صرف پاکستان میں ہے۔ سوال یہ ہے اس بندوبست کی افادیت کیا ہے اور نگران حکومتوں کے انتخاب، اہلیت، اختیارات اور کارکردگی کے حوالے سے کوئی قوانین اور ضابطے موجود ہیں یا نہیں؟ کیا وجہ ہے کہ جہاں غیر منتخب نگران حکومتوں کے بغیر انتخابات ہوتے ہیں وہاں تو معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ نبٹا لیے جاتے ہیں اور ہمارے ملک میں نگران حکومتوں کے ہوتے ہوئے بھی انتخابات متنازع ہو جاتے ہیں؟
دلچسپ پہلو دیکھیے کہ قانونی اورآئینی طور پر سارے اراکین پارلیمان سچے، نیک، پارسا، دیانت دار، امین اور سمجھ دار ہیں اور ان میں کوئی بھی فاسق نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ان میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں کہ عام انتخابات کے لیے اس کی دیانت اور امانت داری کا یقین کیا جا سکے۔ اس کے لیے وہ نگران حکومت بناتے ہیں۔
ہمارے اہل سیاست کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ وہ کتنی محنت سے خود ہی خود کو بددیانت، ناقابل بھروسہ اور خائن ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں کہ اگر منتخب حکومت ہی کو نگران حکومت کی ذمہ داری دی گئی تو وہ لازمی بد دیانتی اور خیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھاندلی کریں گے؟
جو کسر باقی بچتی ہے وہ تکنیکی بد دیانتی کی نذر ہو جاتی ہے۔ ویسے کیا آپ کو معلوم ہے تکنیکی بد دیانتی کیا ہوتی ہے؟