Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Islamabad Mein Paidal Chalna Mana Hai?

Islamabad Mein Paidal Chalna Mana Hai?

اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی تین نشستوں پر الیکشن ہو رہا ہے لیکن یہاں کے سلگتے اور سنگین مسائل پر کوئی بات نہیں کر رہا۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس کی وجہ کیا ہے۔

ہر شہر کے ووٹر قومی اسمبلی کا ووٹ بھی دیتے ہیں اور صوبائی اسمبلی کا بھی لیکن اسلام آباد کے ووٹر صرف قومی اسمبلی کا ووٹ دیتے ہیں۔ انہیں صوبائی اسمبلی اور اس کے ووٹ کے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ آئینی ماہرین یہاں سمجھانے آئیں گے کہ جب اسلام آباد ایک صوبہ نہیں ہے تو یہاں کے شہریوں کو صوبائی اسمبلی کے ووٹ کا حق کیسے دیا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اسلام آ باد ایک صوبہ نہیں تو یہاں ایک غیر منتخب، غیر عوامی بیوروکریٹ کو وزیر اعلی کے اختیار کیوں ملے ہوئے ہیں اور یہ افسر شاہی اپنے اختیارات کو صوبائی حکومت کی طرح کیوں استعمال کر رہی ہے؟

بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اسلام آباد کے وزیر اعلیٰ کا نام چیف کمشنر ہے اور اس کے اختیارات ملک کے کسی صوبائی وزیر اعلیٰ کے برابر ہیں۔ کسی کو شک ہو تو وہ اسلام آباد انتظامیہ کی آفیشل ویب سائٹ سے رجوع کرکے تسلی کر سکتا ہے۔ جہاں یہ بتایا گیا کہ چیف کمشنر یہ اختیارات صوبائی حکومت کے نمائندے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ دل چسپ اورحیران کن بات یہ ہے کہ اسلام آباد کے چیف کمشنر کو وزیر اعلیٰ جیسے اختیارات نہ آئین نے دیے ہیں نہ کسی پارلیمان نے۔ یہ مارشل لاء دور میں 1980 کے ایک صدارتی انتظامی حکم نامے کے تحت دیے گئے تھے۔

جمہوریت آتی اور جاتی رہی اور آئین میں 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں تک کو با اختیار فرما دیا گیا لیکن کسی جمہوری حکومت کو یہ سوچنے کی توفیق نہ ہوئی کہ اسلام آباد میں ایک سرکاری افسر کو وزیر اعلیٰ کے اختیارات کیسے دیے جا سکتے ہیں؟ چنانچہ چیف کمشنر کی شکل میں صوبائی حاکم کا یہ بندوبست جو بنیادی طور پر نو آبادیاتی دور میں، 1897 میں، جنرل کلاز ایکٹ کے ذریعے متعارف کرایا گیا، ہم آج تک اس بندوبست سے نجات حاصل نہیں کیا جا سکا۔ دس لاکھ کی آبادی اور ایک سو سے زیادہ یونین کونسلوں والے اس شہر کو اس کی مقامی حکومت سے محروم رکھا گیا ہے اور یہاں چیف کمشنر کا راج ہے، جیسے محکوم رعایا پر کوئی نو آبادیاتی وائسرائے حکومت کر رہا ہو۔

وزیر اعلیٰ تو پھر ووٹ لے کر آتا ہے اور ایک کابینہ کی مشاورت سے معاملات چلاتا ہے، اس کے خلاف عدم اعتماد بھی ہو سکتا ہے، اسمبلی میں اس پر تنقید بھی ہو سکتی ہے، لیکن چیف کمشنر کے انتخاب کا کوئی ضابطہ ہے نہ احتساب کا۔ وہ عوام سے دور اور محاسبے سے مبراہے۔ احتساب تو دور کی بات رعایا اس کے دیدار سے بھی محروم ہے۔ کسی کو معلوم ہی نہیں اس لاوارث شہر کا وزیر اعلیٰ، کون ہے اور مسائل کے حل کے لیے کس کی بارگاہ میں التجا پیش کرنی ہے۔

اس کا ازالہ ایک مقامی حکومت سے ہو سکتا تھا لیکن یہاں وہ بھی موجود نہیں ہے۔ ن لیگ کے دور میں اسلام آباد میں جو مقامی حکومت متعارف کرائی گئی تھی، وہ بھی ر ادھوری تھی۔ اس کے پاس اپنا بجٹ تک نہ تھا اور عارضی حل نکالا گیا کہ میئر کو عبوری طور پر سی ڈی اے کا چیئرمین بھی بنا دیا گیا۔ آئندہ کبھی مقامی حکومتیں بن گئیں اور میئر حزب اختلاف کا آ گیا تو ظاہر ہے یہ سہولت بھی دستیاب نہیں ہوگی۔

مقامی حکومتیں سیاسی اشرافیہ کو اچھی نہیں لگتیں اور صوبائی حکو، مت یہاں ہے ہی نہیں تو دارالحکومت کے باشعور شہریوں کو ادھورے انتخابات کا لالی پاپ دیا جاتا ہے۔ چنانچہ جس وقت پاکستان کا ہر ووٹر دو اسمبلیوں کے لیے ووٹ ڈالنے کی تیاریاں جا رہا ہے اسلام آباد کے شہری صرف ایک اسمبلی کا ووٹ دینے پر غوروفکر فرما رہے ہیں اور انتخابی مہم میں کوئی کسی سے یہ نہیں پوچھ رہا کہ اس شہر کے باشندوں کا کیا قصور ہے کہ ان کانصف مینڈیٹ ان سے چھین لیا گیا ہے۔

جب شہر میں منتخب حکومت ہی نہیں، اس کا کوئی میئر ہی نہیں، اس کی کوئی مقامی اور صوبائی حکومت ہی نہیں تو اس کا منطقی نتیجہ یہ ہی نکلنا تھا کہ شہر افسر شاہی کا دستر خوان بن چکا ہے۔ افسر شاہی پیٹ کے بل لیٹی ہے۔ پلاٹ بنائے اور ہتھیائے جا رہے ہیں اور سرکاری زمینوں پر کلب بن رہے ہیں۔ کچھ دستر خوانیے دانتوں میں خلال کرتے اٹھتے ہیں اور کالموں اور تجزیے کی صورت قوم کی رہنمائی فرماتے ہیں کہ ملک کو درپیش چیلنجز کی وجوہات کیا ہیں۔

ابھی کل ہی قائد اعظم یونیورسٹی کے برادرم ڈاکٹر محمد زمان نے ایک اور دلچسپ پہلو کی طرف توجہ دلائی۔ سوشیالوجی کے استاد ہونے کی وجہ سے وہ سماجی معاملات کو دیکھتے ہیں اور ان چیزوں پر ان کی حساسیت غیر معمولی ہے۔ کہنے لگے کہ آپ اسلام آباد کا ٹریفک پلان دیکھیے۔ فیصلہ سازوں نے گویا طے کر دیا ہے کہ یہاں پیدل چلنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ فیصل مسجد سے فیض آباد تک، یہ کئی کلومیٹر طویل سڑک ہے جو مختلف سیکٹروں کے بیچ میں سے گزرتی ہے لیکن اس سارے راستے پر کہیں بھی پیدل چلنے والوں کی گزر گاہ نہیں ہے۔ یعنی عملََا یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی پیدل چلنے والا ایک طرف سے دوسری جانب اپنی جان کو خطرے میں ڈالے بغیر جا سکے۔

یہی عالم شاہراہ سری نگر کا ہے۔ سرینا ہوٹل اور کنونشن سنٹر کے سامنے سے لے کر پشاور موڑ تک، یہ دس پندرہ کلومیٹر کا راستہ ہے مختلف سیکٹرز کے بیچ میں سے گزرتا ہے لیکن مجال ہے کہ پیدل چلنے والوں کو ادھر سے اُدھر جانے کے لیے کوئی راستہ دیا گیا ہو۔ سیون اور نائن ایوینیو کا بھی یہی حال ہے۔ بلیو ایریا شہر کا سب سے بڑا کاروباری مرکز ہے۔ یہ شاہراہ بھی ایف اور جی سیکٹرز میں سے گزر رہی ہے لیکن کہیں بھی ایک سیکٹر سے دوسرے سیکٹر جانے کے لیے پیدل راستہ نہیں ہے۔

یعنی جس افسر شاہی کو غریب قوم نے کنال کنال کی گاڑیاں دے رکھی ہیں، اس افسر شاہی نے یہ طے کر رکھا ہے کہ اسلام آباد میں پیدل چلنے والو ں کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ یہاں صرف گاڑیوں پر دندنانے کی اجازت اور سہولت ہے۔ ایک جناب چیف جسٹس ہیں جو چیختی چنگھاڑتی گاڑیوں میں جانے کی بجائے پیدل ہی سپریم کورٹ جاتے ہیں اور اکثر پیدل ہی گھر جاتے ہیں۔ کیا وہ افسر شاہی کے اس غیر انسانی بندوبست کا نوٹس لیں گے؟ اسلام آباد کے شہریوں نے تو اپنے مسائل پر بات کرنا سیکھا ہی نہیں۔ اہل سیاست کا عالم یہ ہے کہ لاجز سے چند قدم پر پارلیمان ہے اور وہ بادبانی جہاز جیسی گاڑیوں پر تشریف لے جاتے ہیں۔ پیدل چلنا مناسب نہیں۔ اس سے سٹیٹس خراب ہوتا ہے۔ گاڑیوں والوں کے لیے البتہ اگر سڑکیں تنگ پڑتی نظر آئیں تو گرین بیلٹ اور درخت کاٹ کر سڑک چوڑی کر دی جاتی ہے۔

تو کیا اسلام آباد صرف "ماہی سوہنی گڈی والے" کے لیے ہے؟ کیا یہاں پیدل چلنے والوں کی کوئی حیثیت نہیں؟ یہاں شہری بستے ہیں یا رعایا؟