Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Kya Falasteeniyon Ne Zameene Farokht Ki?

Kya Falasteeniyon Ne Zameene Farokht Ki?

بعض حلقوں کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ فلسطین میں یہودیوں نے مسلمانوں سے منہ مانگے داموں زمینیں خریدیں اور اس خرید و فروخت کے نتیجے میں جب وہ جائز اور قانونی طور پر قابل ذکر حد تک زمینوں کے مالک بن گئے تو یہ ملکیت آگے چل کر اسرائیل کے قیام کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ یہ موقف درست نہیں۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔

آکسفرڈ یونیورسٹی کے مڈل ایسٹ سنٹر کے ڈائرکٹراور پروفیسر یوجین روگین کے مطابق 1947 میں بھی یہ عالم تھا کہ فلسطین کی زمین کا 94 فی صد فلسطینیوں کی ملکیت تھا۔ یعنی فلسطین کے برطانوی انتظام میں جانے کے تین عشرے بعد بھی، عربوں کے پاس فلسطین کی 94 فی صد زمین کی ملکیت تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب اسرائیل قائم ہو رہا تھا۔ اب اگر اسرائیل کے قیام کے وقت مقامی عرب 94 فی صد زمین کے مالک ہوں تو یہ پھر یہ بات علم اور دلیل کی دنیا میں بے معنی ہو جاتی ہے کہ اسرائیل زمینیں خرید کر بنایا گیا۔

فرانس کے ڈپٹی سپیکر راجر گراڈی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب اعلان بالفور ہوا اور فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی بات کی گئی تو اس وقت فلسطین میں یہودیوں کے پاس صرف 2 اعشاریہ 5 فی صد زمین تھی اور فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کے وقت یہودی 6 اعشاریہ 5 فی صد زمین کے مالک تھے۔

یاد رہے کہ اس ساڈھے چھ فیصد میں سے بھی چار فیصد وہ تھی جو برطانوی انتداب کے دوران یہودیوں میں بانٹی گئی۔ یہ ریاستی زمین تھی جو مینڈیٹ کے دوران یہود میں ہر برٹ سیموئل کے دور کمشنری میں تقسیم کی گئی۔

یہ حقیقت خود اقوام متحدہ کی کمیٹی نے بھی نومبر 1947 کو اپنی رپورٹ میں بیان کر دی۔ اس کے مطابق یروشلم میں یہودیوں کے پاس 2 فی صد زمین تھی، عکا میں ان کی ملکیت میں 3 فی صد زمین تھی، الخلیل، رام اللہ، جینن، بئر السبع اور نابلوس میں وہ 1 فی صد سے بھی کم زمین کے مالک تھے، غزہ میں ان کی ملکیت میں 4 فی صد زمین تھی۔ الرملہ میں 14 فی صد ان کے پاس تھی۔ تلکرم میں وہ 17 فی صد زمین کے مالک تھے۔ حیفہ میں ان کے پاس 35 فی صد زمین تھی۔ یہ تمام اعداد و شمار با قاعدہ ایک چارٹ کی شکل میں اقوام متحدہ کی سب کمیٹی برائے فلسطین کی رپورٹ میں موجود ہیں۔

فلسطین میں زمینیں یقینا بیچی گئی ہوں گی۔ اس کا مکمل انکار ممکن نہیں لیکن کتنی؟ اگر اس کے باوجود اسرائیل کے قیام کے وقت یہودیوں کے پاس صرف ساڑھے چھ فی صد زمین کی ملکیت تھی تو پھر زمینوں کی اس مبینہ خریدو فروخت کو اسرائیل کے قیام کی وجوہات کے باب میں درج نہیں کیا جا سکتا۔

یہ وہ دور تھا جب فلسطین میں دو ہزار سال بعد ایک یہودی حکمران بنایا گیا تھا۔ لیگ آف نیشنز کے پرچم تلے ان مغربی اقوام کی فکری دیانت کے بحران کا عالم یہ تھا کہ جس ریاست کی 98 فی صد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی، وہاں ایک یہودی کو حکمران بنا دیا گیا۔ اس کے دور میں صہیونی جتھے منظم ہوئے، دہشت گرد صہیونی گروہوں کو سرکاری سرپرستی میں مسلح کیا گیا، مسلمانوں کا ہر شعبے میں استحصال کیا گیا، ان پر بھاری ٹیکس لگائے گئے، انہیں انتظامی اور معاشی ہر لحاظ سے کمزور کر دیا گیا۔ ان کی زمینیں ضبط کی جانے لگیں، گاؤں کے گاؤں ان سے چھین کر آباد کار یہودیوں کو دیے جانے لگے، ریاستی زمین بھی یہودیوں میں بانٹی جانے لگیں اور اس سارے عمل کے باوجود بھی یہودیوں کے پاس اسرائیل کے قیام کے وقت صرف ساڑھے چھ فی صد زمین تھی۔

سچ یہ نہیں ہے کہ یہ زمینیں بیچی گئیں، سچ یہ ہے کہ زمینیں ہتھیائی گئیں، ضبط کی گئیں اور چھینی گئیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد آنے کے چند ماہ بعد جب برطانوی انتداب کا دور ختم ہوا، تو اس سے ایک روز پہلے یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا۔ جو علاقے جنرل اسمبلی نے ناجائز طور پر اسرائیل کو دے دیے تھے، صہیونی دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں وہاں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوگیا۔

اقوام متحدہ کی گواہی کے بعد ایک اور اہم گواہی اسرائیلی مورخ بینی مورس کی ہے۔ یہ یہودی ہیں اور بن گوریان یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر رہ چکے ہیں اور یونیورسٹی آف کیمرج سے پی ایچ ڈی کر چکے ہیں۔ اپنی کتاب The birth of the Palestinian Refugee Problem Revisited میں انہوں نے وہ احوال بیان کر دیا ہے کہ مسلمانوں پر کیا بیتی ا ور ان کی زمینیں کیسے ہتھیائی گئیں۔

وہ لکھتے ہیں کہ اسرائیل کے قیام کے ایک سال کے اندر اندر فلسطینیوں سے 400 گاؤں خالی کرائے گئے، وہاں قتل عام کیا گیا، بلڈوزروں سے ان کے گھر مسمار کر دیے گئے اور انہیں وہاں سے بھگا کر وہاں قبضہ کر لیا گیا۔ یہ کام اسرائیلی فوج نے بھی کیا اور ان کے ساتھ صہیونی تنظیم Haganah کے لوگ بھی اور پڑوس میں یہودی آبادکار بھی اس عمل مین شریک تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عمل اسرائیل کے قیام سے پہلے ہی جاری تھا اور اس میں صہیونیوں کو برطانوی معاونت بھی حاصل تھی اور یہ طے شدہ پالیسی تھی کہ عربون کے گھر مسمار کر دینا ایک جائز سزا ہے۔ صہیونی دہشت گرد تنظیم Haganah کے بارے انہوں نے لکھا کہ اس کے پلان ڈی میں باقاعدہ یہ اصول درج تھا کہ عربوں کے گاؤں جلا کر راکھ کر دیے اور کچھ باقی نہ رہنے دیا جائے۔ collective destruction کو بطور پالیسی اختیار کیا گیا۔ 14 اپریل کو حکم نامہ جاری کیا گیا کہ:

To continue harassing and cleansing operations, we should blow up enemy bases.

اس کی وضاحت کرتے ہوئے بینی مورس لکھتے ہیں کہ جن بیسز کا ذکر کیا گیا ہے ان کا مطلب یہ تھا کہ گاؤں تباہ کر دیے جائیں۔ ان کے الفاظ ہیں:

The bases refereed to, of course, were villages.

یہاں یہ ذکر کر دینا مناسب ہوگا کہ بینی مورس نہ صرف اسرائیلی ہیں اور یہودی ہیں بلکہ وہ صہیونی بھی ہیں اور اس کا اعتراف وہ خود اسی کتاب میں کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ انہوں نے نظریاتی یا سیاسی بنیاد پر کچھ نہیں لکھا بلکہ وہ صرف یہ جاننا چاہتے تھے کہ ہوا کیا تھا۔ چنانچہ جو ہوا وہ انہوں نے بیان کر دیا اور گمان ہے کہ ابھی بھی پورا بیان نہیں کیا ہوگا۔

ایمنسٹی انٹر نیشنل کے ساابق ڈائریکٹر اور امریکی سکالر نصیر عاروری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ 418 گاؤں تباہ کیے گئے جن میں سے 70 فیصد مکمل طور پر ختم کر دیے گئے، اور جو کچھ کسی حد تک باقی رہ گئے ان کے عربی نام تبدیل کرکے عبرانی نام رکھ دیے گئے۔ سٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک کے پروفیسر جیروم سلیٹر کے مطابق مسلمانون کے 700 گاؤں جلا کر راکھ کر دیے گئے۔

یہ تو صرف ان ایام کی گواہی ہے اور وہ بھی جزوی سی گواہی تا کہ صورت حال واضح ہو سکے، بعد میں، تب سے اب تک وہاں جو ہوتا آیا ہے وہ ایک الگ کہانی ہے۔ لاکھوں مسلمانوں کو بے گھر کر دیا گیا اور یہ آج تک اپنے گھروں کو نہیں لوٹ سکے۔

راجر گراڈی لکھتے ہیں کہ 1949 تک صہیونیوں نے فلسطین کے 80 فیصد علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور 7 لاکھ 77 ہزار فلسطینیو ں کو ان کی زمینوں اور گھروں سے نکال دیا گیا تھا۔ اس کے لیے خوف اور دہشت کے طریقہ کار استعمال کیے گئے تھے۔ دیئر یایسن میں صہیونی دہشت گرد تنظیم ارگن کے دہشت گردوں نے عورتوں اور بچوں تک کا قتل عام کیا۔ ارگن کے رہنما مناکم بیگین نے اپنی کتاب The Revolt: The History of Irgun میں لکھا کہ دیئر یایسن کے قتل عام کے بغیر اسرائیل کا قیام ممکن نہ تھا، ہم نے فاتحانہ کارروائیاں کیں اور عرب خوف اور دہشت کے عالم میں دیر یاسین گاؤں کو یاد کر کرکے چیختے رہے۔

راجر گراڈی لکھتے ہیں کہ پونے آٹھ لاکھ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر، انہیں بے گھر کرکے اسرائیل نے ایک قانون پاس کیا کہ جو لوگ یکم اگست 1948 سے پہلے اپنے گھر بار چھوڑ گئے اور اب اپنے علاقوں، زمینوں اور گھروں میں موجود نہیں ہیں انہیں غیر حاضر تصور کیا جائے گا۔ اور جو غیر حاضر ہیں ان کی زمینیں اسرائیل کی پراپرٹی تصور کرتے ہوئے ضبط کر لی جائیں گی ا ور یہودیوں میں تقسیم کر دی جائیں گی۔ چنانچہ عربوں کی کل زمین کا دو تہائی حصہ جبری طور ضبط کرکے ان سے چھین لیا گیا۔ (جاری ہے)