Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Kya Tehreek e Insaf Ko Uske Wakeelon Ne Marwaya?

Kya Tehreek e Insaf Ko Uske Wakeelon Ne Marwaya?

تحریک انصاف کے کارکنان اور مداح اگر عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو سخت سست کہہ کر اپنا کتھارسس فرما چکے ہوں تو انہیں اس سوال پر بھی غور فرما لینا چاہیے کہ ان کی جماعت کو اس حال تک پہنچانے میں خود ان کے وکیلوں نے کتنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ عمران خان کے وکیلوں نے بھی وہی غلطی کی ہو جو بھٹو مرحوم کے وکیلوں نے کی تھی۔

بھٹو صاحب کے وکیلوں سے یہ بنیادی غلطی ہوئی کہ وہ اس مقدمے کو اس سنجیدگی سے لے ہی نہ سکے جس سے لینا چاہیے تھا۔ بھٹو کیس کی فائل پڑھتے ہوئے بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ مقدمہ اس سے بہت بہتر انداز سے لڑا جا سکتا تھا۔ ان کے وکیل اسی غلط فہمی میں رہے کہ بھٹو کی مقبولیت کے سیلاب کے آ گے ان قانونی موشگافیوں کی کیا حیثیت ہے، وہ ان سب کو بہا لے جائے گی۔ ان کے اندازے کی یہ غلطی ان کے موکل کے لیے بہت مہلک ثابت ہوئی۔

یہی غلطی عمران خان کے وکیلوں سے ہوئی۔ انہوں نے الیکشن کمیشن اور الیکشن ایکٹ وغیرہ کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔ وہ فارن فنڈنگ کیس ہو یا انٹرا پارٹی الیکشن کا، ان کے خیال میں اس سب کی کوئی حیثیت نہیں تھی اور ان کے لاشعور میں کہیں یہ تھا کہ عمران خان کی مقبولیت اس سب کو بہا کر لے جائے گی۔ اندازے کی یہ غلطی تحریک انصاف کو بہت مہنگی پڑی۔

سیاست مقبولیت اور تاثر کی بنیاد پر چلتی لیکن قانون تکنیکی بنیادوں پر آگے بڑھتا ہے۔ یہ کام وکیل کا ہے کہ وہ اپنے موکل کی مقدمے کی تکنیکی بنیادوں کا تحفظ کرے۔ تحریک انصاف کے وکیل یہ کام نہیں کر سکے۔ کوئی جلسے کرنے لگ گیا، کسی نے سوشل میڈیا اکائونٹ بنا کر ویڈیوز اپ لوڈ کرنا شروع کر دیں۔ عمران خان کے ساتھ وکیلوں نے وہی کیا جو ان کے یوٹیوبرز نے کیا۔ شہرت کے حصول اور سوشل میڈیا کی رونقوں میں اصل کام کو توجہ نہ دی جا سکی۔

جماعت اسلامی کے سوال شاید ہی کوئی ایسی جماعت ہو جہاں انٹرا پارٹی الیکشن قانون کی روح کے مطابق ہوتے ہیں۔ یہاں سیاسی جماعت ہوو یا مذہبی، ہر جانب موروثیت ہے۔ ایسے میں تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات بھی قانون کے مطابق نہیں ہو سکے تو ا س میں کوئی حیرت کی بات نہیں۔ البتہ ایک فرق نمایاں ہے۔ دوسری سیاسی جماعتوں کی قانونی ٹیم سب کچھ کے باوجود اپنا فائل ورک مکمل رکھتی ہے۔ تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔

یہ بات سب کو معلوم ہے کہ انتخابی قوانین ناقص اور نامعتبر ہیں۔ یہاں انتخابی اخراجات کی حد سے لے کر انٹر اپارٹی الیکشن تک سب کی حیثیت اقوال زریں کی ہے۔ سیاسی جماعت ان پر عمل نہ بھی کر سکے تو ان کی قانونی ٹیم اپنا فائل ورک مکمل کر لیتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کی قانونی ٹیم اس سلسلے میں فائل ورک مکمل نہیں کر سکی۔ اس کے پاس کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔

یو ٹیوبرز کا معاملہ تو قابل فہم ہے لیکن قانونی ٹیم کا کام اپنی پارٹی کا قانونی تحفظ ہوتا ہے، ٹک ٹاک اور سوشل میڈیا پر داد شجاعت دینا نہیں ہوتا۔ یہ عذر کمزور ہے کہ الیکشن کمیشن اور عدالت نے تکنیکی بنیادوں پر فیصلہ دیا۔ قانون نام ہی تکنیکی بنیادوں کا ہے۔ اگر حلقہ انتخاب سے محروم وکلا اپنی وکالت کی خدمات کی وجہ سے کسی پارٹی میں معتبر ہونا چاہتے ہوں یا ٹکٹ لے کر اقتدار کے ایوانوں میں گھسنا چاہتے ہوں تو پھر کم از کم دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ اس پارٹی کو ان تکنیکی قانونی نکات کے بارے میں آگاہ اور تیار رکھا جائے جو اس کے لے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہوں۔

انٹرا پارٹی میں الیکشن میں کچھ بے ضابطگیاں رہ گئی تھیں تو یہ قانونی ٹیم کی ذمہ داری تھی کہ ان کا لیگل کور بروقت تیار کرتی۔ حیران کن طور پر تحریک انصاف کی قانونی ٹیم نے یہ نکتہ اٹھایا ہی نہیں کہ ہمارا الیکشن ٹھیک ہوا ہے اور الیکشن کمیشن بلاوجہ اسے غلط قرار دے رہا ہے۔ ان کا بنیادی نکتہ پشاور ہائی کورٹ میں بھی یہ نہیں تھا۔ انہوں نے یہ کہا کہ الیکشن کمیشن کو ہمارا انٹرا پارٹی الیکشن دیکھنے اور جانچنے کا اختیار نہیں۔ یہ دلیل سپریم کورٹ کیسے مان لیتی؟

کبھی کہا گیا الیکشن کمیشن تو فیصلہ دینے والا ادارہ ہے وہ اپیل کیسے کر سکتا ہے؟ کیا اب ہائی کورٹ بھی فیصلہ دے کر اپیلیں کرے گی؟ یہ دلیل شاید اس لیے دی گئی کہ جو لوگ لائیو دیکھ رہے ہیں وہ مرحبامرحبا کہنے لگیں اور یوٹیوبرز اس پر سماں باندھ دیں۔ لیکن قانون کی دنیا سے منسلک لوگ خوب جانتے ہیں کہ یہ دلیل خود تحریک انصاف کے ساتھ مذاق سے کم نہیں تھی۔ کیونکہ الیکشن کمیشن بنیادی طور پر انتظامی ادارہ ہے۔ اسے کچھ اختیارات ضرور ہیں کہ وہ بعض معاملات میں فیصلہ کر سکتا ہے لیکن اسے ہائی کورٹ سے نہیں ملایا جا سکتا۔

الیکشن کمیشن اس وقت سے انہیں الیکشن کا کہہ رہا ہے جب یہ اقتدار میں تھے لیکن یہ اسے نظر انداز کرتے رہے۔ کیوں؟ کیا قانونی پیچیدگی کے سامنے قانونی ٹیم کی یہ پالیسی تھی؟

کیا تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کو معلوم نہیں تھا کہ انٹرا پارٹی الیکشن سے پہلے پارٹی کے آئین میں تبدیلی کا قانونی طریقہ کار کیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں ایکٹورل کالج بدلا جا رہا تھا جب پارٹی عہدیداران کی قانونی مدت ختم ہو چکی تھی تو کیا اس عمل کی کوئی قانونی توجیح سوچی گئی تھی؟ سوچی گئی تھی تو جب الیکشن کمیشن نے یہی اعتراض اٹھا دیا تو اس کا جواب کیوں نہ دیا گیا؟

پارٹی کا آئین بدلا جائے تو تو الیکشن قوانین کے تحت پارٹی عہدیداران کی پاس کردہ ریزولیوشن ان کے نام اور دستخطوں سے الیکشن کمیشن کو جمع کرانی ہوتی ہے۔ پارٹی کی قانونی ٹیم نے یہ پہلو کیوں نظر انداز ہونے دیا؟ جب الیکشن کمیشن نے اعتراض اٹھایا تو کیا یہ مناسب نہ تھا کہ الیکشن کمیشن کے اختیار کو چیلنج کرنے کی بجائے فائل ورک مکمل کرنے پر توجہ دی جاتی؟ کیا یہ درست نہیں کہ الیکشن کمیشن بار بار یہ دستاویزات مانگتا رہا لیکن اسے پیش نہیں کی جا سکیں؟

اکبر ایس بابر سالوں سے تحریک انصاف کے معاملات پر سوال اٹھارہے ہیں۔ لیکن ا ن کے پارٹی سے اخراج کی آج تک کوئی دستاویز عدالت میں نہیں دی جا سکی۔ بس اتنا کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ پارٹی کے رکن نہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ساتھ ہی عدالت میں کہا گیا کہ وہ پانچ بجے تک آ جاتے تو ہم انہیں انٹرا اپارٹی الیکشن کے لیے کاغذات نامزدگی دے دیتے۔ سوال یہ ہے کہ وہ پارٹی کے رکن ہی نہیں تو پانچ بجے تک پہنچ جانے پر پارٹی انہیں کاغذات نامزدگی کیسے دے دیتی اور کیوں دے دیتی۔

حال یہ ہے کہ تحریک انصاف نظریاتی کو انہوں نے پلان بی کے طور پر رکھا ہوا تھا حالانکہ تحریک انصاف نظریاتی ان کی شدید مخالف ہے اور پچھلے الیکشن میں اسی مخالفت پر وہ میدان میں اتری تھی؟

میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ

خود دکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں نے مجھے