دہلی کی ایک تقریب میں میرے ایک ہم نشین کا تعارف تو سیشن جج کے طور پر کرایا گیا تھا مگر جب اسٹیج پر تقریر کرنے آئے تو وہ سیشن جج کے بجائے "السیشن جج" لگ رہے تھے۔ اور یہ تجربہ مجھے صرف دہلی میں نہیں ہوا بلکہ میرا مشاہدہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے ہر ممالک میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کسی بات کا جواب جب دلیل سے دینے کی سکت نہیں رکھتے تو منہ میں جھاگ بھرکر اور اونچی آواز میں بول کے پوائنٹ اسکور کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اگر اس چیز کو کسی کے سچا ہونے کی بنیاد مان لیا جائے تو پھر دنیا کی سب سے سچی مخلوق کوا ہے جو کائیں کائیں کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔
چلیں اونچی آواز میں بولنا تو پھر بھی گوارا ہو سکتا ہے کہ ہم لوگ یوں بھی شور شرابے کے عادی ہو چکے ہیں، رات کے دو دو بجے تک ہم محلے کی مسجد سے مولوی صاحب کی چنگھاڑیں سنتے ہیں، پان سگریٹ کی دکانوں اور گھروں میں گانوں کی کیسٹ پورے والیم کے ساتھ آن ہوتی ہے، یہ چیزیں تو محض عادات میں شمار ہوتی ہیں لیکن کسی موضوع پر بحث کے دوران جب کوئی شخص اونچی آواز میں بولنا شروع کر دے تو سمجھ لیں کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہیں رہی۔ یہ مسئلہ تو افراد کا ہے لیکن جب کوئی ملک اخلاقی اور سیاسی محاذ پر شکست کھا جائے تو وہ اپنے حلق کے علاوہ اپنی توپوں کے دھانے بھی کھول دیتا ہے۔ وہ اپنے خلاف معقول دلائل کو توپوں کی گھن گرج میں دبانا چاہتا ہے چنانچہ کشمیریوں کی آواز اسی طرح دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ فلسطینیوں کی آواز پر بھی توپوں کی گھن گرج کو غالب کیا جا رہا ہے۔ ہر کمزور کی آواز کو طاقت کی آواز سے دبا دیا جاتا ہے۔ امریکہ کو تو عراق سے بھی خطرہ محسوس ہوتا تھا مگر جب اس عذر لنگ کو تسلیم نہ کیا اور خود امریکہ نے بھی دل ہی دل میں محسوس کیا کہ اس کی بات میں کوئی وزن نہیں ہے تو اس نے جدید ترین اسلحہ سے عراق پر چڑھائی کر دی اور اس کے بعد وہ پوری دنیا کی ملامت کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹتا رہا۔
میرے نزدیک بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جو اپنی غلطی تسلیم کرتا اور اسے صحیح کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ صوبہ سرحد کے ایک مرحوم رہنما غلام محمد لوند خوڑ اس معاملے میں بہت اعلیٰ ظرف کے مالک تھے۔ ایک دفعہ انہیں پتا چلا کہ سعادت حسن منٹو نے ان کے خلاف کچھ لکھا ہے اس پر خاں صاحب شاید غصے کی کیفیت میں لاہور پہنچے اور منٹو کو بیڈن روڈ پر جا لیا اور پوچھا "میرے خلاف تم نے لکھا ہے؟" منٹو نے اثبات میں جواب دیا تو خاں صاحب نے دوسرا سوال کیا ہے "اس میں تم نے کیا لکھا ہے؟" منٹو نے کہا میں نے لکھا ہے کہ لوند خوڑ شراب پیتا ہے۔ خاں صاحب نے پوچھا اور کیا لکھا ہے؟ "اور یہ کہ وہ کوٹھے پر گانے سننے جاتا ہے"۔ اور کیا لکھا ہے؟ "بس یہی لکھا ہے"۔ اس پر خاں صاحب نے منٹو کو گلے لگا لیا اور کہا یارا یہ سب کچھ تو تم نے ٹھیک لکھا ہے۔ لوگ تو کہتے تھے کہ تم نے میرے خلاف لکھا ہے۔ یہ ایک بھلے مانس کا رویہ تھا مگر فرعون قسم کے لوگ ہر صورت فرعون ہی رہتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو اگر آج کے فرعون غلام محمد لوند خوڑ کی تقلید میں اپنی غلطیوں پر اڑنے کے بجائے ان کی اصلاح کی کوشش کریں۔ اگر ایسا ہو سکے تو یہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔ مگر سوال یہ ہے کہ انسان کی جبلت میں امن نام کی کوئی چیز موجود ہے؟ انسان کی صدیوں کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ اس کی ذات میں اس نام کی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں کیونکہ فتنہ و فساد اس کی جبلت میں شامل ہے ملکوں کے مابین جنگیں تو الگ رہیں انسان بات بات پر ایک دوسرے کو قتل کیوں کر دیتا ہے وہ ذرا ذرا سی بات پر مولا جٹ کیوں بن جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ پُرتشدد فلمیں ہیں جن کی وجہ سے دنیا کے معاشروں میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو چکا ہے۔ میں اس بات کو نہیں مانتا۔ قابیل نے کون سی فلم دیکھ کر اپنے بھائی ہابیل کو قتل کیا تھا؟ درندگی انسان کی فطرت میں ہے جو لوگ پڑھ لکھ کر مہذب ہو گئے ہیں وہ قتل و غارت گری نہیں کرتے، قتل و غارت گری والی فلمیں دیکھ کر اپنے جبلی جذبات کی تسکین کر لیتے ہیں۔ ہمیں انسان کو زیادہ سے زیادہ مہذب بنانے کی کوشش کرنی چاہئے لیکن یہ ایک ایک حد سے زیادہ مہذب نہیں ہو سکتا۔ یہ امن اور محبت کے موضوع پر لکھا کوئی ناول پڑھ کر یا اس پر بنی فلم دیکھ کر محبت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر دوچار قتل اپنی محبت کے لئے کر ڈالتا ہے۔ ہمیں عام زندگی میں انفرادی اور اجتماعی نوعیت کی جنگ کے مناظر نظر آتے ہیں۔ احمد فراز، پروین شاکر اور دوسرے رومانوی شعراء کی شاعری میں محبت کے جذبات بھی نظر آتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ شاعر اس میں بھی اپنی انا کی وجہ سے انہیں محبت کا گلا ہی گھونٹ دیتا ہے احمد فرازؔ کا شعر ہے؎
وہ اپنے زعم میں تھا، بے خبر رہا مجھ سے
اسے گماں ہی نہیں میں نہیں رہا اس کا
سو جنگ تو محبت میں بھی جاری رہتی ہے خواہ وہ انا ہی کی جنگ کیوں نہ ہو۔ محبت و امن، رواداری اور تحمل کی منزل ابھی بہت دور ہے اس کے لئے انسان کو صدیوں ریاضت کرنا پڑے گی۔ میں تو آخر میں یہی مشورہ دے سکتا ہوں کہ انسان کو انسان بننے کے لئے جو عرصہ درکار ہے اس عرصے کو کم سے کم کرنے کی کوششیں تیز سے تیز تر کر دینا چاہئیں اس کے نتیجے میں ان شاء اللہ دو چار لاکھ سال میں صورتحال کچھ نہ کچھ ضرور بہتر ہو جائے گی۔