Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Hum Durust Faislay Kab Karenge

Hum Durust Faislay Kab Karenge

پاکستان کوئی پسماندہ ملک نہیں ہے۔ کون سی ایسی نعمت ہے جو پاکستان میں دستیاب نہیں ہے۔ ہر طرح کے موسم ہمیں میسر ہیں، بلند و بالا پہاڑ ہیں، سرسبز میدان ہیں، شور مچاتے دریا ہیں، ریگستان ہیں، سمندر ی بندرگاہ ہے، زرخیز زمینیں ہیں جو حقیقی معنوں میں سونا اگلتی ہیں۔

دنیا کی بہترین کپاس پیدا کرتی ہیں جس سے دنیا کا بہترین کپڑا بنتا ہے اور دنیا بھر میں جس کی شہرت ہے، ذائقہ دارپھلوں کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے جو دنیاکے بیشتر ممالک کوبرآمد بھی کیے جاتے ہیں۔ بے موسمی سبزیاں بھی پاکستان میں ہی اگائی جا تی ہیں۔ غرض ہم ہر طرح کی غذائی ضروریات اور ملک کی معاشی ضروریات میں خود کفیل ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم روز بروز غربت کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب کوئی بری خبر سننے کو نہیں ملتی۔

دنیا کا بہترین اور وافر مقدار میں گنا پیدا کرنے والے ملک میں آئے روز چینی کا بحران سر اٹھا لیتا ہے اور حکومت کی انتہائی کوششوں کے باوجود بھی کنٹرول نہیں ہوتاجس کا حل حکومت کے پاس صرف سستے بازاروں کی صورت میں رہ جاتا ہے لیکن اس کے مستقل سدباب میں حکومت بے بس نظر آتی ہے۔ اسی طرح کی وجوہات ہیں جن کی بنا پر پاکستان کو ایک پسماندہ ملک شمار کیا جاتا ہے حالانکہ اس پسماندگی کی کئی وجوہات اوربھی ہیں جن میں ایک بہت ہی اہم وجہ مالیاتی پالیسیوں کی مسلسل تبدیلی اور توڑ پھوڑ ہے۔ قومی معاشی پالیسیوں کی مسلسل تبدیلی اور عدم استحکام ہماری معاشی پسماندگی کی ایک اہم بلکہ اہم ترین وجہ ہے۔ پاکستان میں جس تسلسل کے ساتھ معیشت کو روندا جاتا رہا ہے اور جو ظلم جا ری ہیں اس کا آخری نشانہ عوام ہی بنتے ہیں۔

ہمارے ہاں حکومتیں تو تبدیل ہوتی ہی رہتی ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہر حکومت کے ساتھ معاشی پالیسیاں بھی تبدیل ہو جاتی ہیں۔ ہر نئی حکومت اپنی مرضی اور منشا کی معاشی پالیسی بناتی ہے۔ یہ دیکھے بغیر کہ ماضی میں اگر کچھ اچھا ہو رہا تھا تو اس کو بھی تبدیلی کے نام پر بند کر دیا جاتا ہے۔ اپنی پسند کی پالیسیوں کا نفاذ اور سابقہ پالیسیوں کو ختم کر دینا ہمارا مرغوب اور پسندیدہ فعل ہے جس سے ملک کی معیشت کو زبردست دھچکا پہنچتاہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی بھی معاشی پالیسی کے مکمل ثمرات عوام تک نہیں پہنچ پاتے۔

موجودہ حکومت کے تین برس مکمل ہونے جا رہے ہیں۔ ان تین برسوں میں شوکت ترین چوتھے وزیر خزانہ ہیں۔ ان کے پیشتر ؤں کو مہنگائی میں کمی اور معیشت کو درست سمت گامزن نہ کرنے کی وجہ سے رخصت کر دیا گیا۔ شوکت عزیر مالیاتی امور میں وسیع تجربہ کے حامل ہیں۔ کئی بینکوں کے سربراہ رہ چکے ہیں بلکہ کئی نئے بینکوں کی داغ بیل بھی ڈالی ہے۔ مشکل معاشی حالات میں ان کا امتحان ہے کہ وہ دگرگوں ملکی معیشت کو کس طرح سنبھالتے ہیں اور ملک میں مہنگائی کے عفریت کو کنٹرول کرتے ہیں۔

بجٹ کی بھی آمد آمد ہے اور یہ بجٹ بھی ماضی کے بجٹوں سے کوئی مختلف نہیں ہوگا یعنی اس میں عوام کے لیے اچھی خبروں کی نوید کم ہی ہو گی اور ملک کی معاشی حالت کا رونا رو کر مشکل فیصلوں پر عوام سے ایک بار پھر قربانی ہی مانگی جائے گی جو پہلے ہی جسم و جاں کے رشتے کو برقرار رکھنے میں جاں بلب ہیں۔

ہم پاکستانی اپنے ملک کا موازنہ ترکی، ملائیشیا وغیرہ کے ساتھ کرتے ہیں اور ان کی ترقی پر رشک کرتے ہیں لیکن ہم نے یہ کبھی موازنہ کرنے کی کوشش نہیں کی کہ ہماری اور ان ممالک کی آبادی کا تناسب کیا ہے اور بطور قوم ہم میں کیا قدر مشترک ہے۔ ہماری آبادی ان ممالک سے کئی گنا زیادہ ہے جب کہ ہمارا ملک وسائل میں مالامال ہونے کے باوجود ان وسائل کا باقاعدہ اور بہتر استعمال ہمارے ہاں مفقود ہے۔

آبادی کا جن بذات خود ایک خوفناک عفریت ہے جو وسائل کو تیزی کے ساتھ کھا جاتا ہے اور ہم اس میں خود کفیل ہیں۔ ہماری حکومتیں مردم شماری سے خوفزدہ رہتی ہیں کہ اس سے ملک کی اصل آبادی شمار ہو جاتی ہے جس کے نتائج ہوش اڑانے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ مشرق بعید کے جن ممالک پر ہم آج رشک کرتے ہیں وہ کبھی ہمارے ہاں ہمارے منصوبوں کا جائزہ لینے آیا کرتے تھے اور ہم ان کے لیے ایک کامیاب ماڈل تھے، اس کے بعد کیا ہوا یہ دردناک کہانی ایک مکمل کالم کا تقاضہ کرتی ہے اس لیے یہ کہانی کبھی پھر سہی۔

حکومت کی موجودہ معاشی پالیسیوں میں عوام کے لیے مشکلات کے سوا کچھ نہیں ہے۔ مسلسل تجربوں اور آئے روز کے بدلتے فیصلوں کی وجہ سے مہنگائی کی شرح میں ہر ماہ ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ غریب طبقے کے علاوہ اب متوسط طبقہ بھی دو وقت کی روٹی کے لیے مشکل میں پھنس چکا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہمیں بار بار کہا جاتا ہے کہ ذرا صبر کریں، اس صبر کا پھل بہت میٹھا ہوگا لیکن ہم عوام گزشتہ حکومتوں کی طرح موجود ہ حکومت کی صبر کی نصیحتوں سے اس قدر مایوس ہوئے ہیں کہ ڈر لگ جاتا ہے۔

ہمارے حکمران جتنے بھی فلسفے بیان کرتے رہیں، ان کے پاس ملکی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کا کوئی علاج نظر نہیں آتا۔ ان حالات میں عوام کی نفسیات درست رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اگر امیری نہیں تو ہر ایک میں غریبی ہی بانٹ دیں۔ آج کل کے گرم ترین دنوں میں کسی عمارت میں کام کرنے والے مزدور کا پسینہ خشک نہ کریں، اس کے آنسو تو خشک کرو۔

کیا وہ مزدور پاکستانی نہیں، مسلمان نہیں اور اپنے بچوں سے پیار کرنے والا نہیں۔ ان مشکل اور بگڑتے حالات میں اب مزید ایسے غلط فیصلوں کی گنجائش نہیں ہے جن پر ہمیں بعد میں سوچنا پڑے۔ ہمارے حکمران کو بروقت درست فیصلے کرنے ہیں مگر نجانے ہم یہ درست فیصلے کب کریں گے۔