دوستی اور دشمنی دونوں انسانی زندگی کے غیر معمولی اور پر جوش جذبات کے نام ہیں۔ اچھے انسان جس قدر دشمنی سے نفرت کرتے ہیں اسی قدر دوستی کے جذبات سے محبت کرتے ہیں۔ رشتہ داریاں تو لوگ نبھاتے ہی رہتے ہیں لیکن دوستیاں کوئی کوئی نبھاتا ہے اور آج کے کاروباری مزاج اور مطلب پرست دور میں جہاں دوستی نفع نقصان کے پیمانے پر تولی جاتی ہے اگر کوئی بے لوث دوستی نبھائے تو اس پر حیرت ہوتی ہے۔
دوستی کی ایک پرانی حکایت یاد آرہی ہے کہ کسی دوست کو اس کے پرانے دوست نے بے وقت یاد کیا اور مدد کے لیے پکارا۔ اس دوست نے اپنے پرانے دوست کا پیغام ملتے ہی اس کے گھر کا قصد کیا اورطویل سفر کر کے رات گئے اپنے دوست کے گھر پہنچ گیا۔ جب مدد کے طالب دوست نے گھر کا دروازہ کھولا تو سامنے اس کا دوست کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں تلوار تھی، اس کے ساتھ اس کی جوان بیٹی تھی اور ہاتھ میں روپوں کی بھری تھیلی اٹھائی ہوئی تھی۔ اس نے اپنے دوست کو ملتے ہی کہا کہ مجھے تمہارا مبہم سا پیغام ملا جس سے مجھے معلوم نہ ہو سکا کہ تمہیں کیا مشکل پیش آگئی ہے جو تم نے مجھے فوراً بلایا ہے۔
میں نے سوچا کہ اگر تمہیں کسی دشمن سے خطرہ درپیش ہے تو میں تلوار بدست حاضر ہوں۔ اگر کوئی ایسی بات ہو گئی ہے کہ تمہیں بیٹے کے لیے فوری رشتہ درکار ہے تو بیٹی میرے ساتھ ہے اور اگر روپوں پیسوں کی ضرورت ہے تو یہ تھیلی روپوں سے بھری ہوئی ہے۔ بتاؤ کیا بات ہے کہ جو تم نے مجھے اس قدر جلدی میں یاد کیا ہے۔ یہ کہانی دوستی کی ایک مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے اور جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ آج کل کے منافقانہ دور میں اس طرح کی مثالیں مفقود ہیں اورایسی دوستیاں کون پالتا ہے اور یہ حکایتیں اب پڑھنے اور سننے کو ہی رہ گئی ہیں۔
ہماری مشرقی اور اسلامی دنیا میں ایسی مثالیں ملتی ہیں جو بہت کم سہی مگر ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی انسانیت زندہ ہے اور دوستیاں نبھانے کی روایت بھی کسی حد تک زندہ ہے اور وضع دار لوگ موجود ہیں، اسی دوست کی طرح جس کی مثال آپ پڑھ چکے ہیں۔ تعلقات کی اس تکریم کی کئی مثالیں ملتی ہیں اور وضع داری کے نمونے ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔
یہ عموماً پرانی وضع کے خاندانوں اور لوگوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ مرحوم والد صاحب بتاتے تھے کہ " پرانی وضع کے تعلقات نبھانے میں نوبزادہ نصر اللہ خان ایک مثال تھے جس کے ساتھ ایک بار تعلق پیدا ہو گیا وہ ان کی طرف سے پھر نہیں ٹوٹا اور محض نام کی نوابی کے باوجود وہ اپنے ملنے والوں کو ہر سال اپنی یاد دلاتے رہے۔ زمینیں تو ان کی سیاست کھا گئی جو بچ رہیں ان میں ایک باغ تھا جو سال بہ سال نوابزادہ صاحب کے دوستوں میں تقسیم ہو جاتاتھا۔
اسی طرح میرے لیے بعض شہر تو زندہ ہی دوستوں کی وجہ سے تھے، جب وہ کوئی شہرچھوڑ گئے تو پھر مدتوں اس شہر میں جانے کو جی نہ چاہا۔ مصلح الدین چلا گیا تو میں نے اسلام آباد جاناہی چھوڑ دیااور اگر جانا بھی پڑا تو بس کام ختم کرتے ہی واپس لاہور پہنچ گیا۔ لندن میں رزاق کا وجود میرے لیے لندن تھا جب سے رزاق چلا گیا ہے لندن جانا چھوٹ گیا۔ وہاں سے دوستوں کے شکایتی فون آتے تھے کہ ہم تو ابھی زندہ ہیں۔"
تعلقات نبھانے کی یہ خوشخبریاں زیادہ تر زمیندار گھرانوں سے موصول ہوتی ہیں جن میں تعلقات کو باقی رکھنے کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ دوست ایک دوسرے سے ملنے جاتے تھے تو کئی دن تک قیام کرتے اور گھروں کو واپسی مشکل ہوجاتی تھی کہ دوست کی اجازت ملے تو واپسی کا راستہ کھلے۔ پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ سجن نہ ملنے کی وجہ سے چلا گیا اور ادھار نہ مانگنے کی وجہ سے ڈوب گیا۔
آج کل ایسی حیران کر دینے والی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ دوستی تو ایک طرف رہی لوگ اپنے والدین تک کی بھی پروا نہیں کرتے اور وہ کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ مغربی معاشروں کے بارے میں سنتے پڑھتے رہتے ہیں جہاں یہ ایک معمول کی بات ہے کہ مغربی دنیا میں انسانی رشتے بہت کمزور پڑ چکے ہیں۔
بوڑھوں کے لیے ہر شہر میں پناہ گاہیں بن چکی ہیں۔ اولاد اگر سال بھر بعد سالگرہ پر ماں باپ سے ملنے چلی جائے تو یہ بوڑھے آیندہ سال اس ملاقات کی یاد میں بسر کر دیتے ہیں۔ مغربی دنیا خصوصاً یورپ اور امریکا میں عائلی زندگی دم توڑ چکی ہے اور وہاں کے دانشور اس کوشش میں ہیں کہ یہ زندگی کسی طرح لوٹ آئے۔ ہم پاکستانی خوش قسمت ہیں کہ ہماری ثقافت میں والدین ابھی زندہ اور معزز ہیں۔
ان کا گھر اور خاندان میں ایک باوقار کردار ہے۔ ہمارے مذہب میں بھی والدین کو خدا اور رسولﷺ کے بعد درجہ دیا گیا ہے خصوصاً ماؤں کی خدمت تو اتنی اہم کر دی گئی ہے کہ اس کی وجہ سے جہاد اور حج سے بھی معافی مل سکتی ہے۔ حضرت اویس قرنی والدہ کی خدمت کی وجہ سے آنحضرتﷺ کی زیارت سے محروم رہے۔ مسلم معاشرے پر یہ اثرات ایسے مرتب ہوئے کہ آج تک ان کی ایمان افروز جھلک دکھائی ہے۔
میں ایسے کئی لوگوں کو جانتا ہوں جب ان کے والدین ضعیف ہو گئے تو انھوں نے گویا دنیا ترک دی اور دن رات خدمت میں مصروف رہے۔ ہم اپنی دنیاوی خوشحالی کے لیے بہت محنت کرتے ہیں لیکن سکون قلب کے شاید ہی کوئی کوشش کرتے ہیں اور یہ سکون مال و منال سے نہیں انسانی تعلقات اور پیارو محبت کے جذبات سے ملتا ہے۔ کاروبار حیات کی وجہ سے دوستوں سے دوری آج کے زمانے کاایک کڑوا سچ ہے لیکن اصل حقیقت یہی ہے کہ انسانوں کے باہمی تعلقات میں برکت اورحقیقی خوشی پنہاں ہوتی ہے۔