Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Dharno Ki Siasat

Dharno Ki Siasat

چند روز قبل پھر سے اسلام آباد کو ایک دھرنے نے اپنی جکڑ میں لے لیا تھا۔ یہ دھرنا تقریباً 40گھنٹے رہا اور راولپنڈی اسلام آباد کے شہریوں کو مفلوج کر کے رکھ دیا گیا۔ حکومت سے مذاکرات کے بعد یہ دھرنا ختم ہوا۔ مذاکرات میں طے پایا کہ جلد پارلیمنٹ کا اجلاس بلا کر فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے گا، پاکستان اپناسفیر فرانس نہیں بھیجے گا۔ پاکستان میں سرکاری سطح پر فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ جس کے بعد تحریک لبیک کا دھرنا ختم ہو گیا۔ یہ دھرنا تو ختم ہوا لیکن اب ایک اور دھرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ یہ دھرنا پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہو گا جس میں چھوٹی بڑی 11جماعتیں شامل ہیں۔ پاکستان میں دھرنوں کی تاریخ بڑی پرانی ہے، احتجاج جمہوریت کا ایک عنصر ہے۔ دنیا میں عوام اس وقت احتجاج کرتے ہیں جب جمہوری نظام ان کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ جلسے، دھرنے، ریلی لانگ مارچ احتجاج کے یہ سارے رنگ ہماری تاریخ میں موجود ہیں۔ ہمارے یہاں سیاست میں لانگ مارچ چین کی تاریخی جدوجہد سے لیا گیا ہے۔ پاکستان میں لانگ مارچ کی سیاست 70ء کی دہائی میں مولانا عبدالحمید بھاشانی نے شروع کی وہ زیادہ تر مشرقی پاکستان میں اپنی سرگرمیاں رکھتے تھے، حکومتوں کے خلاف احتجاجی ریلیاں اور جلسے تو ہوتے رہتے ہیں اکثر رہنمائوں نے لانگ مارچ احتجاج کو صرف دھمکی کے طور پر استعمال کیا۔ گزشتہ 4دہائیوں میں اسلام آباد میں بے شمار دھرنے ہوئے، چاہے جمہوری حکومت ہو یا فوجی حکومت ہر دور میں دھرنے، لانگ مارچ ہوئے۔ اس کے علاوہ کسان، ڈاکٹر، پیرا میڈیکس، لیڈی ہیلتھ ورکرز، کلرکس بھی گاہے بگاہے احتجاجی دھرنے دیتے رہے ہیں۔ اکثر دھرنوں، احتجاج کا ڈراپ سین بے نتیجہ رہا، مطالبات وقتی طور پر منظور ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں سب سے طویل ترین دھرنا تحریک انصاف نے عمران خان کی سربراہی میں دیا۔ 2014ء میں 126دن کے دھرنے نے نواز شریف کی حکومت کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ تحریک انصاف کے ساتھ عوامی تحریک بھی آ ملی تھی۔ پاکستان میں پہلا دھرنا 4، 5جولائی 1980ء کو تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے صدر ضیاء الحق کے عشر و زکوٰۃ آرڈیننس کے خلاف دیا۔ حکومت نے دھرنے والوں کا مطالبہ تسلیم کیا۔ 90ء کی دہائی میں دھرنے کی جگہ لانگ مارچ نے لے لی۔ 1992ء میں بے نظیر بھٹو نے ٹرین مارچ کیا جس کے بعد عوامی احتجاج پر صدر غلام اسحق نے نواز شریف حکومت کو برطرف کر دیا۔ بینظیر نے نواز حکومت پر جو دبائو ڈالا تھا اس کا جواب انہیں 1996ء میں ملا جب قاضی حسین کی قیادت میں جماعت اسلامی نے ملین مارچ کیا۔ شرکاء نے 3دن تک آب پارہ پر دھرنا دیا یہ پہلا موقع تھا کہ اسلام آباد میں لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔

دھرنے کے 9روز بعد 5نومبر کو پیپلز پارٹی کے ہی صدر فاروق لغاری نے بینظیر حکومت کو فارغ کر دیا۔ اس کے بعد 90ء کی دہائی کے اختتام پر جنرل مشرف نے جب اقتدار سنبھالا تو تقریباً 8برس تک کوئی دھرنا یا لانگ مارچ نہیں ہوا۔ 3نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کے نتیجے میں ملک بھر کے وکلا اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کے ساتھ نواز شریف، قاضی حسین احمد اور عمران خان مل گئے اور یہ اپنی نوعیت کا پہلا لانگ مارچ تھا جو عدلیہ کی بحالی کے لئے کیا گیا۔ 2009ء میں پی پی حکومت کے خلاف پھر سیاسی جماعتوں نے لانگ مارچ کیا۔ ان میں ن لیگ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی پیش پیش تھیں۔ یہ لانگ مارچ لاہور سے شروع ہوا اور ابھی گوجرانوالہ ہی پہنچا تھا کہ مارچ والوں کے مطالبات مان لئے گئے اور ججوں کی بحالی کا اعلان کر دیا گیا۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی ہی کی حکومت میں طاہر القادری نے لانگ مارچ اور اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ 2013ء میں دئیے جانے والے دھرنے کو مذاکرات کے ذریعے ختم کر دیا گیا۔ پھر عمران خان نے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف لاہور سے مارچ کیا اور اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ یہ دھرنا شاید اور زیادہ دن تک چلتا کہ ملک میں دہشت گردی کی بڑی واردات ہو گئی۔ سانحہ اے پی ایس کے نتیجے میں عمران خان کو دھرنا ختم کرنا پڑا۔ 2017ء میں تحریک لبیک نے فیض آباد میں دھرنا دیدیا جس کے نتیجے میں راولپنڈی اسلام آباد کا پورے ملک سے رابطہ کٹ گیا۔ اس کے بعد الیکشن میں تحریک انصاف جیت گئی۔ عمران خان کی حکومت آئی تو کچھ دھاندلی کے الزامات لگے اور مولانا فضل الرحمان، پی پی اور ن لیگ نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور دھرنے کا اعلان کر دیا لیکن کراچی سے جب لانگ مارچ شروع ہوا تو پہلے پی پی نے ساتھ چھوڑ دیا پھر ن لیگ اس لانگ مارچ سے الگ ہو گئی۔ فضل الرحمن 27اکتوبر کو کراچی سے چلے اور 31اکتوبر کو اسلام آباد پہنچے۔ جے یو آئی ف نے اس احتجاجی قافلے کو آزادی مارچ کا نام دیا۔ دھرنے والوں کا مطالبہ تھا کہ عمران خان 2دن میں استعفیٰ دیں، نئے انتخابات کرائے جائیں۔ یہ دھرنا تقریباً 2ہفتے تک رہا اور کوئی مطالبہ منوائے بناختم ہو گیا۔

پاکستان میں دھرنوں اور لانگ مارچ، جلسوں میں اگرچہ سیاستدانوں کو کچھ کامیابیاں بھی ملیں لیکن جمہوریت کمزور ہوئی۔ ان تمام دھرنوں میں سیاستدانوں نے ایک دوسرے کو اچھی طرح بدنام کیا۔ جمہوری اداروں کو کمزور کیا، لوگوں کا سیاستدانوں سے اعتبار اٹھ گیا۔ کیونکہ عوام کو ان دھرنوں، جلسوں، لانگ مارچوں سے کبھی کچھ نہیں ملا بلکہ تکلیفیں ہی اٹھانا پڑیں۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا تو اس میں قصور سیاستدانوں کا ہی ہے، نواز شریف اور بے نظیر ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہے اور دونوں نے ایک دوسرے کی حکومت ختم کرائی۔ بعدازاں دونوں میں میثاق جمہوریت ہوا جس کے بعد بینظیر کو شہید کیا گیا۔ الیکشن کے نتیجے میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی۔ آصف زرداری صدر مملکت بنے، یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے تو عدلیہ بحالی تحریک کی آڑ میں ن لیگ نے میثاق جمہوریت کو ایک طرف رکھتے ہوئے حکومت گرانے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی۔ میمو گیٹ اسکینڈل میں بھی ن لیگ پی پی حکومت کے خلاف پیش پیش رہی۔ پی پی نے اپنی مدت مکمل کی۔ تاہم وزیر اعظم گیلانی اپنی مدت پوری نہ کر سکے اور عدالتی نااہلی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد ن لیگ کی حکومت آئی تو شروع میں ہی عمران خان نے دھاندلی کے الزامات لگا دیے۔ جلسے لانگ مارچ اور دھرنا شروع ہوا لیکن نواز شریف کی حکومت ختم نہ ہو سکی۔ بعدازاں پانامہ لیکس کی وجہ سے نواز شریف کو گھر بھیج دیا گیا، اس وقت بھی پہلے عمران نے اسلام آباد میں بڑا جلسہ کیا پھر خیبر پختونخوا کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک جلوس لے کر اسلام آباد کی طرف آئے تو ان کے راستے روک دیے گئے اور بے تحاشا شیلنگ ہوئی، وہ بھی بہت بڑا احتجاج تھا۔

ایک بار پھر پی ڈی ایم جمہوری حکومت کو ختم کرنا چاہتی ہے اس سلسلے میں پہلے جلسے کئے جا رہے ہیں، پھر اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ ہو گا اور پھر دھرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ کیا کسی جمہوری حکومت کو اس طرح سے ختم کیا جانا چاہیے اگر ایسے حکومتیں ختم کی جاتی رہیں تو کوئی بھی حکومت 6ماہ بھی نہیں نکالے گی اور ہر پارٹی ہزاروں افراد جمع کر کے اسلام آباد جائے گی اور حکومت گرائی جائے گی۔ کیا یہ ملک کے لئے بہتر ہے؟ ذرا سوچئے۔