Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Islamabad Ya Rawalpindi

Islamabad Ya Rawalpindi

پاکستان بنے73 سال ہو گئے اس دوران کوئی بھی حکومت آئی اس نے پاکستان کو قائد کا پاکستان بنانے کا نعرہ لگایا لیکن آج تک کوئی بھی اسے قائد کا پاکستان نہیں بنا سکا، حکمرانوں کی شاہانہ طرز زندگی نہ بدلی، ہم نے اپنی نا اہلی، کرپش، نا لائیقی اور خراب طرز حکمرانی ن اور اقربا پروری کی وجہ سے اس کشتی کو اسی بھنور میں پھنسا رکھا ہے، جس بھنور سے قائد اعظم اس کشتی کو نکلا کر لائے تھے۔ یہ ملک اگر قائد کا ملک ہے، تو اس میں کرپشن، اقربا پروری، سفارش کلچر والوں کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے، اس ملک میں مذہبی، لسانی، فرقہ واریت اور صوبائی عصبیت پھیلانے والوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے، اگر یہ قائد کا ملک ہے تو اس ملک میں دوسروں کو بدنام کرنے، پگڑیاں اچھالنے، جمہوریت اور جمہوری حکومتوں کیخلاف سازش کرنے والوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے لیکن ہماری بد قسمتی ہے کہ اس ملک میں ایسے لوگ دندناتے پھرتے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس ملک میں جمہوری لوگ ہی جمہوریت کو خراب کرنے میں لگے رہے، نواز شریف بے نظیر کی اور بے نظیر نواز شریف کی حکومت کو گرانے کی کوششیں کرتے رہے ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگاتے رہے، ایک دوسرے پر مقدمات بناتے رہے پھر یہ ہوا کہ ایک تیسری قوت تحریک انصاف آ گئی کچھ دن آرام سے گزرے لیکن وہی کھیل کھیلا جانے لگا۔

عمران خان پر کرپشن کا الزام تو نہیں لگایا جاسکا لیکن دوسرے قسم کے الزامات جیسے نا اہل اور ملک میں مہنگائی کا ذمہ دار ٹھہرا کر تحریک انصاف کیخلاف وہی کھیل کھیلنے کو کوشش ہو رہی ہے، اس کھیل میں مولانا فضل الرحمان پیش پیش ہیں، ان کے ساتھ مریم نواز ہیں، دونوں ایوان سے باہر ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی ایوان سے باہر نکل جائیں۔ اس مقصد کیلئے جلسے جلوس ہورہے ہیں، لانگ مارچ کی دھمکی دی جارہی ہے، اب جمعہ کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم سوچ رہے ہیں لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف کیا جا ئے یا راولپنڈی کی طرف۔ ڈھکے چھپے الفاظ میں مولانا تحریک انصاف کی حکومت لانے میں اسٹیبلشمنٹ کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں، پہلے دن سے ہی مولانا نے اس اسمبلی کے بائیکاٹ اور حلف نہ اٹھانے کا شور مچایا لیکن ن لیگ اور پی پی نے فضل الرحمٰن کی اس بات کو نہیں مانا، بہت سے لوگ یہ بات سوچ رہے ہیں کہ اس اسمبلی کو جعلی کہنے والے مولانا نے صدارتی الیکشن لڑا اور اسی اسمبلی سے ووٹ لئے صدر نہ بن سکے تو پھر دھاندلی کا شور مچایا، اب اپوزیشن ایک بات پر متفق ہے کہ لانگ مارچ کرنا ہے، دوسری بات کہ تمام اپوزیشن کے ارکان اسمبلیوں سے استعفے دیں، اس پر ن لیگ اور دیگر جماعتوں میں تو اتفاق ہے لیکن پی پی اس بات کو ماننے کو تیار نہیں، پیپلز پارٹی کے اجلاس میں ارکان نے استعفوں پر سختی سے منع کردیا کہ اگر پی پی نے استعفے دئیے، تو 18 ویں ترمیم جا سکتی ہے، سندھ حکومت جا سکتی ہے دوسری طرف ن لیگ اور مولانا فضل الرحمان دونوں کو کوئی نقصان نہیں ہو گا، مریم ان کے والد نواز شریف پہلے ہی اسمبلیوں سے باہر ہیں، چچا شہباز شریف حمزہ شہباز جیل میں ہیں، فضل الرحمان بھی کسی ایوان کا حصہ نہیں، ان کا بیٹا اور بھائی ایوان میں ہیں، لہذا کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ ہر حال میں اسمبلی تڑوانے اور نئے الیکشن کی ضد کر رہے ہیں۔

پی ڈی ایم اتحاد میں خود اتحاد نہیں رہا، پی پی کی سوچ کچھ ہے، ن لیگ کی کچھ اور، جے یو آئی کی کچھ اور۔ جے یو آئی کے بہت سے بڑے نام مولانا فضل الرحمان کی سوچ سے اتفاق نہیں کرتے، لہذا انہوں نے فضل الرحمان سے علیحدگی اختیار کرلی، جے یو آئی کیلئے بڑا دھچکا ہے، اسی طرح مریم کے کہنے کے با جود ن لیگ کے ارکان استعفے دینے کے حق میں نہیں، صرف وہ لوگ استعفے دینے میں پیش پیش ہیں، جن کیخلاف کیس بنے ہوئے ہیں، دو ارکان نے اسپیکر کے سامنے پیش ہو کر کہ دیا ہم مستعفی نہیں ہونا چاہتے، ن لیگ کے ایم این اے قیصر شیخ نے کھل کر کہہ دیا میں کسی کا ذاتی ملازم نہیں کہ ان کے کہنے پر استعفا دوں، پارٹی ہمارے ووٹ کو بھی عزت دے، ہمارے ووٹروں کو عزت دے۔ پاکستانی میں سیاسی اتحاد حکومت بنانے کیلئے بنے یا حکومت گرانے کیلئے، سیاسی اتحاد بننے ان میں اختلافات ہونے دراڑیں پڑنے اور آخر کار ٹوٹ جانے کی تاریخ پرانی ہے، سیاسی اتحادوں میں ایک اتحاد نو ستارے یا آئی جے آئی کامیاب ضرور ہوئی لیکن وہ اتحاد آج تک متنازعہ ہے، اس وقت پی ڈی ایم اتحاد حکومت گرانے کیلئے بنا یہ اتحاد کیسے حکومت گرائے گا، کچھ پتہ نہیں، لانگ مارچ کرنا چاہتا ہے، کہاں سے چلنا ہے، کہاں رکنا ہے، لیکن کب کرنا کچھ پتہ نہیں، دھرنا دینا چاہتے ہیں، کب دینا ہے، کہاں دینا ہے، کچھ پتہ نہیں، استعفے دینا چاہتے ہیں کب دینے ہیں کیسے دینے ہیں کچھ پتہ نہیں یہ اتحاد کبھی کہتا ہے ہم حکومت کیخلاف ہیں کبھی کہتا ہے حکومت لانے والوں کیخلاف ہیں۔

یہ اصل میں ہے کس کیخلاف کچھ پتہ نہیں۔ ان سب چیزوں کے با وجود حکومت نہ گری تو پھر کیا کرنا ہے کچھ پتہ نہیں، حکومت کہ رہی ہے یہ اتحاد اپنی موت آپ مر جائے گا، بلاول بھٹو کہتے ہیں ہمارے استعفے ایٹم بم ہیں یہ کیسے ایٹم بم ہیں جو چلنے سے ہی ڈر رہے ہیں یہ کیسے ایٹم بم ہیں، کہ چلانے والے پریشان ہیں کہ کب اور کیسے چلائیں، یہ کیسے ایٹم بم ہیں، جو صرف قیادت کو جمع کرائے جا رہے ہیں اور اسپیکر تک پہنچنے سے گھبرا رہے ہیں اور جو اسپیکر تک پہنچ گئے وہ ایٹم بم ٹھس ہو گئے۔ لانگ مارچ پر بھی ن لیگ کچھ کہ رہی ہے، فضل الرحمان صاحب کچھ کہ رہے ہیں، ن لیگ کا موقف ہے کہ فروی میں دھرنا نہیں دیا جا سکتا، سردی بہت ہو گی، لہذا صرف لانگ مارچ ہوگا اور حکومت کو ایک اور مہلت دی جائے گی، پھر اپریل سے ستمبر تک کسی بھی وقت دھرنا دینگے، استعفے دینے والے ضمنی سیٹوں پر الیکشن بھی لڑنا چا ہتے ہیں، اس سے ثابت ہو رہا ہے کہ استعفے نہیں دئے جا ئینگے۔

پی ڈی ایم نے پچھلے دو ماہ سے پوری قوم کو لارا لگایا ہوا تھا کہ 31 دسمبر کو پتہ نہیں کیا ہو جائے گا لیکن 31 دسمبر کو جب پی ڈی ایم کا اجلاس ہوا، تو پہلے تو نہ بلاول نہ ہی زرداری اس اجلاس میں شریک ہوئے، پھر پریس کانفرنس میں بھی کچھ سننے کو نہیں ملا، کوئی دھماکہ خیز خبر نہیں تھی، یکم جنوری کو پی ڈی ایم نے اہم فیصلے کرنے کا اعلان کر رکھا تھا لیکن یکم جنوری گزر گئی اور کوئی اعلان نہیں ہوا۔ تمام پارٹیوں کو پیپلز پارٹی کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ ماننا پڑا، اب تک پی ڈی ایم کوئی بھی حتمی فیصلہ کرنے میں ناکام رہی، اب 31 جنوری کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے دیکھیں اس میں کیا ہوتا ہے۔ ابھی تک تو اپوزیشن ناکام رہی، عمران خان کا استعفی لینے میں اپوزیشن ناکام رہی حکومت کو گھر بھیجنے میں اپوزیشن ناکام رہی، عوام کی فلاح کیلئے اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی، عوام کو ریلیف دلوانے میں ناکام رہی، مہنگائی کنٹرول کرنے میں، حکومت ناکام رہی روز گار دینے میں۔